شاہنامہ اسلام‘‘ کے خالق کی کرشن بھکتی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 01-09-2021
شاہنامہ اسلام‘‘ کے خالق کی کرشن بھکتی
شاہنامہ اسلام‘‘ کے خالق کی کرشن بھکتی

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

اردوکے جن شاعروں نے تاریخ رقم کی ان میں ایک نام حفیظ جالندھری کابھی ہے۔جنھوں نے اپنے پیچھے ادب کی ایک بش بہا وراثت چھوڑی ہے۔وہ مقبول شاعروں میں سے ایک ہیں اور ان کی مقبولیت زماں ومکاں سے ماوریٰ ہے۔یہی سبب ہے کہ انھیں ’’ابو الاثر‘‘ کہاجاتاہے۔ حفیظ کوجہاں شاہنامہ اسلام کے لئے جانا جاتا ہے وہیں دوسری طرف انھیں ان کی کرشن بھکتی کے لئے بھی جاناجاتا ہے۔انھوں نے کرشن جی کے تعلق سے کم از کم دونظمیں لکھی ہیں،اور ایک نظم سے تو ایسا لگتاہے کہ وہ کرشن جی کو پیغمبرمانتے تھے۔

حفیظ جالندھری کون تھے؟

حفیظ جالندھری،شہرجالندھر کے رہنے والے تھے مگر زندگی کابڑاوقت لاہور میں گزارا۔ یہیں ان کی قبربھی ہے۔ یہاں لاہور ریڈیو کے لئے کام کرتے تھے۔ انھوں نے کئی دوسرے محکموں کے لئے بھی کام کیامگر ان کی شناخت ان کے ادبی کاموں سے ہی بنی اور آج تک اسی حوالے سے قائم ہے۔ان کی نظم ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ کو معروف مغنیہ ملکہ پکھراج نے آوازدی تھی اور آج تک یہ مشہورہے۔وہ پاکستان کے قومی ترانہ کے بھی خالق تھے۔

شاہنامہ اسلام اور کرشن جی سے عقیدت

حفیظ، قادرالکلام شاعرہونے کے ساتھ ساتھ کھلے دل ودماغ کے انسان تھے۔جہاں انھوں نے اسلامی تاریخ کوچارجلدوں میں نظم کیااور اس کا نام ’’ شاہنامہ اسلام‘‘ رکھا وہیں انھوں نے کرشن جی سے بھی اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔انھوں نے ایک نظم لکھی جس کا عنوان ’’کرشن کنھیا‘‘ہے۔نظم کا آغازیوں ہوتاہے:

اے دیکھنے والو

اس حسن کو دیکھو

اس راز کو سمجھو

یہ نقش خیالی

یہ فکرت عالی

یہ پیکر تنویر

یہ کرشن کی تصویر

معنی ہے کہ صورت

صنعت ہے کہ فطرت

ظاہر ہے کہ مستور

نزدیک ہے یا دور

یہ نار ہے یا نور

دنیا سے نرالا

یہ بانسری والا

گوکل کا گوالا

ہے سحر کہ اعجاز

کھلتا ہی نہیں راز

کیا شان ہے واللہ

کیا آن ہے واللہ

حیران ہوں کیا ہے

اک شان خدا ہے

حفیظؔ کوکرشن جی کا پیکرانتہائی حسین وجمیل نظرآتاہے۔ وہ اس پیکر میں ظاہری اور باطنی انوار کا نظارہ کرتے ہیں اور اسے دنیا سے نرالاقراردیتے ہیں۔دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہ جوکچھ محسوس کرتے ہیں،انھیں لفظی پیکرمیں ڈھالنے کی کامیاب کوشش بھی کرتے ہیں۔اسی کے ساتھ وہ مہابھارت کی روایات اور ہندوستانی اساطیرکوبھی حسین پیرایے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ذرانیچے کے مصرعے دیکھیں

بت خانے کے اندر

خود حسن کا بت گر

بت بن گیا آ کر

وہ طرفہ نظارے

یاد آ گئے سارے

جمنا کے کنارے

سبزے کا لہکنا

پھولوں کا مہکنا

گھنگھور گھٹائیں

سرمست ہوائیں

معصوم امنگیں

الفت کی ترنگیں

وہ گوپیوں کے ساتھ

ہاتھوں میں دیئے ہاتھ

رقصاں ہوا برج ناتھ

بانسری والاکرشن

کرشن جی کا تصور جب بھی آتاہے،بانسری کے بغیرنہیں آتا اور یہ بانسری بھی غضب کی ہے جوعشق وعرفان کے بڑے بڑے بڑے راز کھولتی ہے۔ مدہوش کرتی ہے اور عقل وخرد سے بےگانہ بھی کرتی ہے۔ملاحظہ ہو:

بنسی میں جو لے ہے

نشہ ہے نہ مے ہے

کچھ اور ہی شے ہے

اک روح ہے رقصاں

اک کیف ہے لرزاں

ایک عقل ہے مے نوش

اک ہوش ہے مدہوش

اک خندہ ہے سیال

اک گریہ ہے خوش حال

اک عشق ہے مغرور

اک حسن ہے مجبور

اک سحر ہے مسحور

حفیظ جالندھری نے کرشن جی کے تعلق سے ایک دوسری نظم بھی لکھی ہے۔ اس نظم کا عنوان ہے’’کرشن بنسری‘‘۔نظم کے ابتدائی مصرعے یوں ہیں:

بنسری بجائے جا

کاہن مرلی والے نندکے لال

بنسری بجائے جا

بنسری بجائے جا

پریت میں بسی ہوئی ادائوں سے

گیت میں بسی ہوئی صدائوں سے

برج باسیوں کے جھونپڑے بسائے جا

سنائے جا،سنائے جا

بنسری بجائے جا

ایک وضاحت

اس نظم میں ایک لفظ ’’کاہن‘‘استعمال ہواہے۔اس بارے میں تھوڑی وضاحت ضروری ہے۔ علما اسلام کا ماننا رہا ہے کہ ہندوستان کی سرزمین پربہت سے انبیاکرام تشریف لائے اور آسمانی کتابیں بھی اس دھرتی پر اتریں۔ایسے میں امکان اس بات کا بھی ہے کہ ہندووں کی قابل احترام شخصیات میں سے بعض انبیا،اولیا، صالحیں یا ان کی اولاد سے ہوں۔

کرشن جی کے تعلق سے بھی بعض لوگوں کو لگتاہے کہ وہ ہندوستان میں تشریف لانے والے پیغمبروں میں سے ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جو کسی ’’تاریخ ہمدان‘‘نامی کتاب میں مذکورہے۔مبینہ حدیث اس طرح ہے:

کَانَ فِی الھندِ نبیّا۔ اَسْوَد اللّونِ۔اِسْمُہ کاھِناً(بحوالہ تاریخ ہمدان دیلمی باب الکاف)۔یعنی ہندوستان میں ایک نبی تھا جس کا رنگ کالا تھا۔اور اس کا نام کاہن تھا۔

اس سے قطع نظر کہ یہ حدیث،درست ہے یا نہیں؟البتہ ایک طبقے میں مشہورہے اور لگتاہے کہ یہیں سے حفیظ نے ’’کاہن‘‘ کا لفظ لیا ہے۔نظم میں’’کرشن‘‘کا معرب ’’کاہن‘‘استعمال ہواہے۔ پنجاب کے ایک صوفی گزرے ہیں خواجہ غلام فریدجن کی قبرچاچڑاں شریف(پاکستان) میں واقع ہے،کے بارے میں کہاجاتاہے کہ رام چندر جی اور کرشن جی کے بارہ میں ایک سوال کے جواب میں فرمایاتھا کہ تمام اوتاراور رشّی لوگ اپنے اپنے وقت کے پیغمبر اورنبی تھے‘‘۔