ہندوستان اور ہندوستانیوں سےپیارکرنے والے خواجہ

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 06-02-2022
 درگاہ خواجہ معین الدین چشتی
درگاہ خواجہ معین الدین چشتی

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

ہندوستان(غیرمنقسم)صوفیہ،صالحین اور اللہ کے نیک بندوں کی سرزمین ہے۔یہاں اولیا وصوفیہ ہی نہیں بلکہ پیغمبروں کی بھی تشریف آوری ہوئی۔ اس سرزمین کی خوش بختی ہے کہ اللہ کے پیغام کی ابتدااسی سرزمین سے ہوئی اور آدم علیہ السلام کو اللہ نے اسی دھرتی پر بھیجا۔ اس طرح پیغام خداوندی کا آغازاسی خطے سے ہوا۔ اس کے بعد بھی اس علاقے میں پیغمبروں کی آمد ہوتی رہی۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اسی دھرتی کواپنی دعوت وتبلیغ کے لئے منتخب کیا جس سے ظاہر ہے کہ انھیں یہ ملک پسند تھا اور یہاں کے رہنے انھیں محبوب تھے۔

اللہ رب العزت نے انسانوں کی ہدایت اور دعوت وتبلیغ کے لئے بہت سے ہادی و مصلح بھیجے جنھیں رسول اور نبی کہا جاتا ہے۔ ان کاکام تھا اللہ کے بندوں کو اس کی مرضی سے آگاہ کرنا اور اس کا پیغام بندوں تک پہنچانا۔ جب نبیوں کی آمد کا سلسلہ بند ہوگیا تو ان کی تعلیمات کی یاددہانی کی ذمہ داری اہل اللہ کے کندھوں پر آئی۔ رسولوں کا لایا ہوا سبق تازہ کرنے کا کام علمائ، صوفیہ اور اللہ کے نیک بندوں نے کیا جنھوں نے انسانوں کو ان کی زندگی کے مقصد سے ازسرنو واقف کرایا۔ خواجہ معین الدین چشتی رحمة اللہ علیہ بھی انھیں بزرگوں میں سے ہیں۔

ہندوستان کی سرزمین کو خدا آگاہ بنانے کا کام خواجہ صاحب نے انجام دیا اور اجمیر میں بیٹھ کر ایک ایسی تحریک کی شروعات کی جو بعد میں عالمی اثرات کی حامل ہوگئی۔

awaz

اناساگرجھیل،اجمیر،جس کے کنارے خواجہ صاحب چلہ کشی کرتے رہے

خواجہ معین الدین چشتی کا آبائی وطن سیستان کا سنجر علاقہ تھاجو وسط ایشیا میں پڑتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہیں ۶۳۵ھ میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ خاندان بااثر اور دولت مند تھا۔

والد محترم خواجہ غیاث الدین حسن تجارت پیشہ ہونے کے ساتھ ساتھ عابد وزاہد بھی تھے۔آپ کی پرورش نازونعمت کے ساتھ ہوئی اور پچپن معاشی خوشحالی میں گزرا۔ یہ الگ بات ہے کہ دوسرے قسم کے حالات پریشان کئے رہے۔ آپ نسبی اعتبار سے نجیب الطرفین سید تھے۔ سلسلہ نسب پندرہ واسطوں سے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔

جس دور میں خواجہ صاحب کی ولادت ہوئی وہ زمانہ عالم اسلام کے لئے مصیبتوں اور پریشانیوں سے بھرا ہو اتھا۔ منگولوں کی تاراجی عام تھی، مسلم ممالک میں کشت وخون کا بازار گرم تھا۔ خانہ جنگی اور تخت وتاج کے لئے بھی لڑائیاں جاری تھیں۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں کے اندر بڑے پیمانے پر فرقہ بندیاں چل رہی تھیں نیز مذہب، مسلک و مشرب کے نام پر برادر کشی ہورہی تھی۔جہاں ایک طرف ملاحدہ اور باطنیوں نے اودھم مچا رکھی تھی وہیں تاتاریوں کے وحشی گروہ خون خرابے پر آمادہ تھے۔ اس ماحول میں آپ نے ہوش وخرد کی آنکھیں کھولیں اور آپ کی تعلیم وتربیت کا دور شروع ہوا۔

آپ کے والد نے حالات کو دیکھتے ہوئے سیستان چھوڑ نے کا فیصلہ کیا اور خراسان چلے آئے، جہاں خطرات قدرے کم تھے اور یہیں خواجہ صاحب کی تعلیم شروع ہوئی، مگر جلد ہی یہ جگہ بھی غیر محفوظ ہوگئی اور یہاں بھی تاراجی شروع ہوگئی۔ خراسان، جہاں پہلے امن وامان تھا وہاں کی حالت بھی دوسرے علاقوں کی طرح ہوگئی ۔ یہاں خانہ جنگی کا یہ عالم تھا کہ جو جسے چاہتا قتل کردیتا۔ کوئی حکومت نہیں تھی اور کسی کے سامنے دادوفریاد نہیں کی جاسکتی تھی۔

خواتین کی عصمتوں کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا۔ مسجدوں اور مقدس مقامات کو بھی نہیں بخشا گیااوریہاں بھی کشت وخون کی گرم بازاری ہوئی۔ کتب خانوں کونذر آتش کیا گیا اور محلات ومکانات ڈھا دیئے گئے۔شہید ہونے والوں میں علمائ، فضلائ، اولیائ، صوفیہ اور ممتازاکابرین دین بھی تھے۔ خواجہ صاحب کی نظروں کے سامنے یہ سب ہوا ،اور ان حالات نے بچپن میں ہی آپ کے دل کو اچاٹ کردیا۔

جب آپ کی عمر محض پندرہ سال تھی تب والد کا انتقال ہوگیا اور مزید پریشانیوں نے گھیر لیا۔ والدہ محترمہ بی بی نور نے آپ کی تعلیم وتربیت کی طرف خاص توجہ فرمائی مگر جلد ہی دست قضا نے انھیں بھی آپ سے چھین لیا اور آپ کشمکش حیات میں تنہا رہ گئے۔ والدین کے ورثے سے ایک باغ اور ایک پن چکی آپ کو ملی تھی لہٰذا آپ نے باغبانی کو معیشت کا ذریعہ بنایا اور باغ کی دیکھ بھال میں مصروف ہوگئے۔ اپنے ہاتھوں سے باغ کی حفاظت کرتے اور پانی وکھاد وغیرہ دینے کے ساتھ اس کی کاٹ چھانٹ کرتے تھے۔

awaz

مسجدڈھائی دن کاجھونپڑہ،اجمیر،جہاں خواجہ معین الدین چشتی نمازاداکیاکرتے تھے

خواجہ صاحب کی زندگی کا انقلابی واقعہ

والدین کے انتقال کے بعد نوعمر خواجہ کی زندگی دھیرے دھیرے پٹری پر آرہی تھی کہ اچانک ایک روحانی واقعے نے آپ کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ ایک روز آپ اپنے باغ میں مصروف تھے کہ ایک مجذوب فقیر کا ادھر گزر ہوا جس کا نام ابراہیم قندوزی تھا۔ یہ بزرگ دنیا کے تمام ہنگاموں سے بے نیاز رہتے تھے اور اکثر ادھر ادھر گھومتے رہتے تھے۔ خواجہ صاحب نے انھیں باغ میں دیکھا تو خوش ہوئے اور مدارات کے طور پر انگوروں کا ایک تازہ خوشہ ان کی خدمت میں پیش کردیا۔صاحب نظر نے صاحبِ دل کو پہچان لیا اور محسوس کرلیا کہ نوجوان کام کا آدمی ہے۔ اپنی گٹھری سے روٹی کا ایک خشک ٹکڑا نکال کر بڑھایا۔ خواجہ صاحب نے اسے کھایا تو عشق وعرفان کی کیفیات نے دل پر اثر جمانا شروع کردیا۔ ایک روحانی انقلاب کا احسا س ہونے لگا۔ بزرگ تو اپنا کام کرکے چلے گئے مگر جلد ہی آپ نے اپنا باغ اور پن چکی فروخت کرڈالی اور حاصل شدہ رقم غریبوں میں تقسیم کر کے تن تنہا نکل پڑے۔

تعلیمی سفر

یہ وہ زمانہ تھا جب سمرقندوبخارا کو اسلامی علوم وفنون کے معاملے میں مرکزیت حاصل تھی اور تفسیر، تجوید، فقہ وحدیث کے علماءیہاں بڑی تعداد میں موجود تھے۔ آپ نے بھی اسی طرف کا رخ کیا اور ظاہری علوم میں مہارت حاصل کرنے لگے۔ قرآن کریم حفظ کیا، اس کے بعد تفسیر، حدیث اور فقہ کی تعلیم پائی۔ کن کن علماءسے آپ نے تعلیم پائی اس بارے میں سوانح کی کتابیں خاموش ہیں البتہ مولانا حسام الدین بخاری نامی ایک بزرگ سے آپ نے حفظ قرآن کیا تھا۔ تحصیل علم کے بعد روحانی رہنمائی کے لئے مرشد کی تلاش میں نکل پڑے اور کئی شہروں اور ملکوں کا سفر کرتے رہے۔

مرشد سے بیعت

خواجہ معین الدین چشتی رحمة اللہ علیہ جب عراق کے قصبہ ہارون پہنچے تو دلی مراد برآئی اور آپ کی ملاقات خواجہ عثمان ہارونی سے ہوئی، جنھوں نے سلوک ومعرفت میں آپ کی رہنمائی فرمائی۔ آپ ایک مدت تک ان کے ساتھ رہے اور ان سے متاثر ہوئے، تب ان کی بیعت اختیار کی۔ خواجہ صاحب نے ان کے ساتھ کئی طویل سفر کئے اور ان سے روحانی تربیت پائی۔اس دوران عبادت وریاضت کئے اور اہل اللہ سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ اندازہ ہے کہ تقریباً ڈھائی سال تک آپ اپنے مرشد کی خدمت میں رہے۔ اسی بیچ حج بیت اللہ بھی ادا کیا ۔

خواجہ صاحب کے بارے میں آپ کے مرید وخلیفہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے لکھا ہے کہ آپ طویل عبادتیں کیا کرتے تھے اور مسلسل کئی کئی دن تک روزے رکھا کرتے تھے۔ افطار بہت کم مقدار میں کرتے تھے۔ جسم پر معمولی لباس ہوتا تھا اور اس پر بھی کئی کئی پیوند لگے ہوتے تھے۔

خواجہ کا سفرہند

سفر اس دنیا کو سمجھنے میں بہت معاون ہوتا ہے اور نئے نئے تجربے سے گزارتا ہے۔یہی سبب ہے کہ بیشتر صوفیہ کے تذکروں میں ملتا ہے کہ انھوں نے لمبے لمبے سفر کئے۔ خواجہ صاحب نے بھی اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ سیرو سیاحت میں گزارا۔ پہلے تو تعلیم کے لئے سفر کیا ، اس کے بعد مرشد کی تلاش میں نکلے، پھر مرشد کے ساتھ سفر کرتے رہے مگر خواجہ عثمان ہارونی کی خدمت سے رخصت ہونے کے بعد بھی آپ کا سفر جاری رہا اور کئی خطوں کی سیاحت کی۔ اس سفر میں کئی صوفیہ اور اللہ والوں سے آپ کی ملاقات ہوئی اور آپ کو سیکھنے اور سکھانے کا موقع ملا۔

جن بزرگوں سے آپ کی ملاقاتیں رہیں ان میں ایک شیخ نجم الدین کبریٰ رحمة اللہ علیہ تھے جو معروف صوفیہ میں شامل ہیں۔ بغداد سے سات میل کے فاصلے پر ایک قصبے میں آپ ان سے ملے تھے۔ اس دوران بغداد میں بھی خواجہ صاحب کا قیام رہا۔ تب یہاں عباسی خلیفہ المستنجدبااللہ ابوالمظفر یوسف بن المقتضی لامراللہ کی حکومت تھی۔

یہ وہ زمانہ تھا جب عباسی خلافت نازک دور سے گزر رہی تھی اور مصر کی فاطمی خلافت کا زور بڑھ رہا تھا۔ بغداد سے آپ تبریز تشریف لے گئے جو ایران کا شہر ہے۔ یہاں خواجہ ابوسعید تبریزی رہتے تھے جو باکمال بزرگوں میں تھے اور ان کے مریدین میں بڑے بڑے اولیاءشامل تھے۔

یہاں دونوں بزرگوں کی ملاقات ہوئی اور کچھ دن قیام کے بعد آپ اصفہان کی طرف چل پڑے۔ یہ بھی ایران کا شہر ہے۔ یہاں شیخ محمود اصفہانی سے آپ کی ملاقات ہوئی ۔ یہیں آپ کو خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ملے جو شیخ سے مرید ہونے کے ارادے سے آئے تھے۔ خواجہ قطب نے جب آپ کو دیکھا تو شیخ سے مرید ہونے کا ارادہ ترک کردیا اور آپ کے ساتھ ہولئے۔

خواجہ معین الدین چشتی نے بھی آپ کے ذوق وشوق کو پسند فرمایا اور اپنے مریدوں میں شامل کرلیا نیز خلافت واجازت بھی مرحمت فرمائی۔ اصفہان کے بعد خرقان آپ کی اگلی منزل قرار پائی۔ یہاں جب تک رہے وعظ ونصیحت کرتے رہے اور خلق خدا کو راہ راست پر لانے کے کام میں لگے رہے۔ یہاں بہت سے لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور گناہوں سے تائب ہوئے۔

یہاں سے استرآباد آئے جہان شیخ ناصر الدین نامی ایک ولی رہتے تھے۔ ان کا سلسلہ بیعت دو واسطوں سے بایزید بسطامی رحمة اللہ علیہ تک پہنچتا تھا۔ خواجہ صاحب شیخ کے کمالات کے گرویدہ ہوئے اور ان سے اکتساب فیض کیا۔ یہاں سے آگے بڑھنے کے بعد مختلف علاقوں سے پھرتے پھراتے آپ ہرات پہنچے ۔ ہرات میں آپ گھومتے رہتے تھے اور قدرت کی بوقلمونیوں کا نظارہ کرتے رہتے تھے۔ یہاں ایک بزرگ خواجہ عبداللہ انصاری کا مزار تھا جس کے قریب آپ رات گزارتے تھے اور پوری رات عبادت وریاضت میں مصروف رہتے تھے۔

جیسے جیسے وقت گزرتا گیا یہاں کے لوگوں کو آپ کے بارے میں جانکاری ملتی گئی اور وہ آپ کے پاس جمع ہونے لگے۔ہجوم اس قدر بڑھا کہ دن اور رات میں لوگ چین نہیں لینے دیتے اور آپ کی عبادت وریاضت میں مخل ہونے لگے ، لہٰذا یہاں سے بھی آگے بڑھ گئے اور سبزوار کے علاقے میں پہنچے۔ یہ دونوں شہر افغانستان میں واقع ہیں۔

یہاں ایک بدمزاج اور ظالم سردار یادگار محمد کے باغ میں آپ کا قیام ہوا، جس نے آپ کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کی مگر جلد ہی آپ کے زیر اثر آگیا اور اپنے گناہوں سے تائب ہوکر آپ کے مریدوں میں شامل ہوگیا۔ یادگار محمد نے کچھ دن آپ کے ساتھ وقت بتایا اور روحانی تربیت پاکر اللہ والوں کی جماعت میں شمولیت اختیارکیا۔ یادگار محمد نے اپنی تمام جمع پونجی خواجہ صاحب کی خدمت میں پیش کردی اور آپ نے حکم دیا کہ جن لوگوں کے مال واسباب اس نے ظلم سے حاصل کئے ہیں انھیں واپس کردے اور اس نے ایسا ہی کیا ۔ باقی جو کچھ بچا اسے اللہ کے راستے میں خیرات کردیا۔

خواجہ صاحب کے قدم ہندوستان کی طرف بڑھ رہے تھے مگر راہ میں افغانستان کا علاقہ تھا، جہاں کئی شہر اور قصبات کو آپ کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا۔ بلخ بھی انھیں خطوں میں سے ایک ہے۔ یہاں شیخ احمد خضرویہ کی خانقاہ تھی جہاں آپ کا قیام ہوا۔

خواجہ کو اجمیرپسند آیا

اجمیر،راجستھان کا ایک دورافتادہ شہر تھامگر اس لحاظ سے خواجہ صاحب کا مسکن بننے کا مستحق تھا کہ یہاں دعوتی کام کرنے کے امکانات تھے۔ اجمیر میں راجہ پرتھوی راج چوہان کی راجدھانی تھی اور علاقے میں ہونے والے ایک ایک واقعے پر اس کی نظر رہتی تھی، چنانچہ ایک مسلمان درویش کی آمد بھی اس کی نظر سے نہیں چھپ پائی۔ خواجہ صاحب کے یہاں قیام کے بعد رفتہ رفتہ آپ کے عقیدت مندوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہونے لگا تھا اور مقامی لوگ آپ کے گرویدہ ہونے لگے۔

آپ کے پیغامات ان کے لئے نئے تھے۔ ہندوستانی سماج جن رسموں، رواجوں کا عادی تھااس کے برعکس انسانیت کی تعلیم آپ دے رہے تھے۔ ذات پات کے بندھن ٹوٹ رہے تھے اور مساوات کا پیغام عام ہورہا تھا۔ خاص طور پر سماج کے دبے کچلے طبقات میں آپ کی تعلیمات کی پیروی کو لے کر زیادہ جوش وجذبہ تھا۔ یہی سبب ہے کہ آپ کے پیروکار دن بہ دن بڑھ رہے تھے۔

اجمیرکی خوش قسمتی کہ خواجہ صاحب نے اسے اپنے قیام کے لئے ہی بلکہ اپنی آخری آرام کاگاہ کے لئے بھی پسند فرمایا۔یہ علاقہ  آج اگر دنیا میں جاناجاتا ہے تو صرف خواجہ صاحب کی نسبت سے اور خواجہ صاحب کواگر دنیا پہچانتی ہے تو ان کے انسانیت دوست کارناموں کے لئے۔انھوں نے اپنی زندگی میں اجمیر میں لنگر کا اہتمام کیا تھا جس میں سبھی دھرم اور برادریوں کے لوگ شریک ہوسکتے تھے۔ اس طرح آپ لوگوں کو درس مساوات دے رہے تھے اور اونچ نیچ کے بندھن سے سماج کو آزاد کر رہے تھے۔ یہی سبب ہے کہ آج بھی آپ کی درگاہ ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب اور انیکتا میں ایکتا کی مثال ہے۔