کرناٹک :مند ر کے احاطے میں مسلمانوں کی دکانوں پر پابندی سیکولر روایات کے خلاف

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 29-03-2022
کرناٹک :مند ر کے احاطے میں مسلمانوں کی دکانوں  پر پابندی سیکولر روایات کے خلاف
کرناٹک :مند ر کے احاطے میں مسلمانوں کی دکانوں پر پابندی سیکولر روایات کے خلاف

 


 پرتیبھا رمن،بنگلورو

 مسلمان دکانداروں کو اسٹال لیز پر دینے پر پابندی سب سے پہلے ریاست کرناٹک کے شیموگہ میں ماریکمبہ مندر کے مشہور دو سالہ میلے کے دوران لگائی گئی تھی۔ اس کے بعد دکشینا کنڑ ضلع میں کئی بینرز لگائے گئے، جس میں لکھا تھا کہ مسلمان تاجروں کو بپنادو مندر کے میلے میں اسٹال لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

وشو ہندو پریشد (VHP) سمیت کئی ہندو تنظیموں نے ہندو مذہبی اداروں اور چیریٹی انڈومنٹ رولز 2002 کے قاعدہ 31(12) کا حوالہ دے کر اپنے مطالبے کو درست قرار دیا۔اس قاعدے میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی جائیداد بشمول زمین، عمارت یا ادارے (مندر) کے قریب واقع مقامات کو غیر ہندوؤں کو لیز پر نہیں دیا جائے گا۔ مندروں کے میلوں میں مسلم تاجروں کے خلاف پھیلائے گئے جذبات جلد ہی ریاست کے دیگر اضلاع مثلاً ٹمکور، ہاسن سے چکمگلور وغیرہ میں پھیل گئے۔

تاہم دارالحکومت بنگلورو میں یہ معاملہ سرد ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ ساٹھ سالہ مینا ایس کہتی ہیں کہ ہم بھی لوگ ہیں نا؟ ہمیں خاندان کی طرح رہنے کی ضرورت ہے۔ خیال رہے کہ مینا گزشتہ 40 سالوں سے کورامنگالا میں ہنومان مندر کے قریب پھول اور پھل فروخت کرتی آ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری دکان کے قریب پھول بیچنے والا شخص مسلمان ہے۔ اس کا نام 'باشا'ہے۔ اگر مجھ کو دکان بند کرنے میں کبھی تاخیر ہوجاتی ہےتو باشا میرا انتظار کرتا ہے۔ہم دونوں ساتھ میں دکان کھولتے اور بند کرتے ہیں۔

مینا کہتی ہیں کہ باشامیرے بھائی کی طرح ہے۔  باشا نے 16 سال قبل یہاں اپنا اسٹال لگانا شروع کیا تھا۔ یہ دو دلوں کے ملن کی جگہ ہے۔ یہاں مندر اور مسجد ایک دوسرے سے متصل ہیں۔ ہندو اور مسلمان دونوں اس علاقے میں آتے ہیں۔ جب بھی کوئی مسلمان یا ہندو یہاں سے گزرتا ہےتو وہ ضرور باشا سے ان کی خیرت معلوم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ باشا بھائی کیسے ہیں۔

پھول فروش باشا نے کہا کہ گرمی بہت شاندار ہے ۔ 

سمپگی رام اس علاقے میں ہنومان مندر ٹرسٹ کے کلیدی ارکان میں سے ایک ہیں۔  ٹرسٹ کے اراکین وہ ہوتے ہیں جو میلوں کا اہتمام کرتے ہیں اور مختلف دکانداروں کو اسٹال لیز پر دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے صرف تین دن پہلے ایک میلے کا اہتمام کیا تھا۔  ہم نے کبھی ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق نہیں کیا۔ یہاں مختلف مذاہب کے لوگوں نے اپنے اسٹالز لگائے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ میرا تعلق اسی علاقے سے ہے اور ہم سب مل جل کر امن سے رہ رہے ہیں۔

ملیشورم میں بھی ٹھیک اسی قسم کے دوستی کی مثال ملتی ہے۔ یہاں ایٹھ کراس(8th Cross) ایک مشہور شاپنگ اسٹریٹ ہے جو کنیکا پرمیشوری مندر کے قریب ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ فٹ پاتھ کا کوئی مالک نہیں ہوتا ہے۔  کوئی بھی ہندو یا مسلمان اس فٹ پاتھ پر کسی جگہ پر اپنے اسٹال لگا سکتے ہیں اور اپنا سامان بیچ سکتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سب برابر ہیں۔ ہاں اگر آپ کو سڑک کی دوسری طرف کوئی اسٹال لگانا ہے تو آپ کو کرایہ ادا کرنا ہوگا۔

خربوزہ بیچنے والے ناگیندر کمار کا کہنا ہے کہ یہاں کسی قسم کی مذہبی منافرت نہیں پائی جاتی ہے۔ یہاں کے فٹ پاتھ سامان بیچنے والے ہر وقت چوکس رہتے ہیں۔ پولیس کی گاڑی کی آواز سنتے ہی وہ سامان باندھ کر فرار ہو جاتے ہیں۔

دوپٹہ فروش محمد الاب نے کہا کہ میرا تعلق بہار سے ہے اور میں یہاں گذشتہ 7 سالوں سے سڑک پر دوپٹہ بیچ رہا ہوں۔  جب میں نے یہاں اپنا کام شروع کیا تو تمام لوگوں نے میرا خیر مقدم کیا تھا۔

awazthevoice

  بنگلورو شہر کی مندرو کے باہر لگے اسٹالز

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گنگا جمنی تہذیب آب و تاب کے ساتھ شہر بنگلورو میں دکھائی دیتی ہے۔ شہر کے مشہور مندروں میں سے ایک باسوانا گوڈی کا بیل مندر ہے، جہاں ہندو دھرم والوں کی اکثریت ہے۔

بت فروش گنیش رنگ راج کا کہنا ذرا مختلف تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہمیں اپنی درگاہوں کے قریب کہیں نہیں جانے دیں گے۔ ہم انہیں یہاں کیوں اجازت دیں؟  ہمیں اپنے مندر کے احاطے کے قریب لگے اسٹالوں کی دیکھ بھال کرکے اپنے دھرم کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں ان کے احترام کے ساتھ ایسا کرنے دیں۔

جب کہ ایک دکان دار مہالکشمی نے بالکل منفرد بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ ہندو اور مسلمان آپس میں گھل مل سکتے ہیں اور کہیں بھی کاروبار کر سکتے ہیں، لیکن مذہبی مقامات پر نہیں۔

بنگلورو کے ماڑی والا میں ہنومان مندر کے قریب پوجا کا سامان فروخت کرنے والے ایک تاجر راج گوپال کا کہنا تھا کہ تصور کریں کہ ایک مسلمان دکان دار اگربتیاں اور کمکم بیچ رہا ہے۔ یہ مذہبی ہندو سیاق و سباق کے لحاظ سے مقدس ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہندو مندر کے احاطے کے قریب پوجا کی اشیاء فروخت کریں۔ میں یہاں مسلمانوں کے اسٹال لگانے کے حق میں نہیں ہوں۔

اس جگہ پر ایک نظر ڈالیے اور دیکھئے کہ وہاں بہت سے اسٹالز ہیں جو کرناٹک اور تمل ناڈو کے لوگوں کے لیے گھر کی مانند ہیں۔

اگرچہ ریاست کرناٹک کے کئی مقامات پر کچھ لوگوں نے مسلمان دکانداروں کو مندروں کے باہر اسٹال لگانے کی اجازت نہیں دی۔ لیکن انہوں نے تمل ناڈو کی ایک خاتون کو اجازت دی ہے۔ اس خاتون نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ہندو اور مسلمان دونوں ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ میرے والد نے اسلام قبول کیا اور جب میں پیدا ہوا تو میرا نام فاطمہ رکھا۔ لیکن میں نے ہندو خاندان میں شادی کی اور اب میرا نام پنیدھا ہے۔ میں نے دونوں مذاہب کو قبول کیا ہے۔

پونیدھا کیلے کے پتے فروخت کرتی ہیں۔ان کا کہنا کہ ہندو مذہب اور اسلام میرے لیے ایک جیسے ہیں۔

اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اس خطے میں پھیلے ہوئے مشتعل جذبات کے درمیان ان تاجروں نے اپنے اپنے لیے ایک ایسی جگہ تلاش کر لی ہے، جہاں تمام مذاہب کے ماننے مل جل کر کاروبار کرتے ہیں۔