ولی کے ایک شعرکی تشریح (ظفر احمد صدیقی کے حوالے سے )

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 14-04-2024
  ولی کے ایک شعرکی تشریح (ظفر احمد صدیقی کے حوالے سے )
ولی کے ایک شعرکی تشریح (ظفر احمد صدیقی کے حوالے سے )

 

ڈاکٹر عمیر منظر 
شعبۂ اردو 
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس ۔لکھنؤ
 
 ولی ؔدکنی کا عام کلام حسن و عشق کے مضامین پر مشتمل ہے۔ان کے غزلیہ کلام میں حسن و عشق کی متعدد جہتیں ملتی ہیں۔ ان میں عشق مجازی اورعشق حقیقی دونوں موجود ہے۔اگر اس عہد کی شاعری کے عام موضوعات پر نظرڈالی جائے تواندازہ ہوتا ہے کہ اس عہد کی شاعری میں ان موضوعات کو مرکزی اہمیت حاصل تھی۔حسن وعشق کے انھیں حوالوں سے ولیؔ کے یہاں وہ متصوفانہ مضامین بھی نظر آتے ہیں جن میں توکل، قناعت،دنیا کی بے ثباتی اور خوف خدا خاصے اہم ہیں۔ دراصل یہ سارے مضامیں فارسی شعری روایت سے ہوتے ہوئے اردو میں داخل ہوئے ہیں۔فارسی کے مقابلہ جب بھاشا کے اثرات بڑھے اور اسی کے ساتھ اردو کے نام سے ایک زبان پیدا ہوئی تو زبانوں کی تبدیلی کے باوجود عام انسانی مزاج اور ماحول میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں ہوئی بلکہ فارسی شاعری کے مضامین کو اردو قالب عطا کیا گیا۔یہ اتفاق ہے یا انسانی مزاج کی ہم آہنگی کہ اردو والوں نے فارسی سے نہ صرف مضامین بلکہ فارسی شاعری میں بیان ہونے والے مضامین کی جزئیات تک کواپنا لیا۔حسن وعشق کے معاملات اور آداب و رسومات فارسی سے اردو میں منتقل ہوگئیں۔ ولیؔ کے کلام میں انھیں بطور خاص ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔بعد کے ادوار میں بلکہ کلاسیکی عہد تک فارسی کے شعری مضامین اور فنی رموزونکات اردو میں بھی فارسی ہی کی طرح برتے اور استعمال کیے گئے۔ولی ؔنے عشق حقیقی سے عشق مجازی کا جو راستہ دکھایا دراصل اسی تصوف کے زیر اثر تھا،جس کی نہایت روشن مثالیں فارسی شعرا کے یہاں ملتی ہیں۔ دراصل یہ تزکےۂ قلب کا ایک ذریعہ ہے۔واضح مذہبی تعلیمات کے علی الرغم انسان نے دنیا کی جن نفسانی خواہشات کو اپنایا اور انھیں اپنا رہنما بنایا ان کی شدت اور جذبے کو ختم کرنے کے لیے صوفیاء کرام نے نفس کشی کی تعلیم کو عام کیا۔جس میں انسانی خواہشات کے مقابلے توکل اور قناعت کو مرکزیت حاصل تھی۔شعراء نے صوفیا کے انھیں نظریات کو فروغ دینے کی کوشش کی۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ معاشرے میں انھیں موضوعات کو مقبولیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ان موضوعات کومعاشرے میں جو مذہبی اعتبار حاصل تھا ولی نے اسے اپنی شاعری کی مقبولیت کا ذریعہ بنایا۔
ولی کے یہاں عشقیہ تجربوں کے بیان کے علاوہ زندگی کے عام مسائل، معاملات اور مشترکہ تہذیب وثقافت پر مشتمل شعری مضامین بھی ملتے ہیں۔بہت سے اشعار اتنے صاف اور رواں ہیں کہ ان پر یہ گمان نہیں ہوتا کہ یہ صدیوں پہلے کہے گئے ہیں۔روانی اور زبان کی صفائی کے سبب ہی یہ اشعار آج بھی تازہ لگتے ہیں :
یاد کرنا ہر گھڑی اس یار کا 
ہے وظیفہ مجھ دل بیمار کا 
انھیں خوبیوں کے سبب نہ صرف ان کے زمانے میں ولی کے کلام کا چرچا ہوا بلکہ بعد کے ز مانوں بلکہ آج تک ولی کی اہمیت اور مقبولیت سے کسی کو انکار نہیں ۔اور یہی وجہ ہے کہ ان کی بہت سی غزلیں اردو کے نصاب میں شامل ہیں اور ان پرآج تک غور وفکر کا سلسلہ جاری ہے ۔ولی کی ایک مشہور غزل جو سولہ اشعار پر مشتمل ہے ۔اس غزل کا مطلع ملاحظہ کریں 
ووصنم جب سوں بسا دیدۂ حیران میں آ
آتش عشق پڑی عقل کے سامان میں آ
اس غزل کے بعض دوسرے اشعار بھی بہت مشہور ہیں اور ان سے ولی کی قادر الکلامی بھی واضح ہوتی ہے۔
یاد آتا ہے مجھے جب وہ گل باغ وفا
اشک کرتے ہیں مکاں گوشہ دامان میں آ
بس کہ مجھ حال سوں ہمسر ہے پریشانی میں 
درد کہتی ہے مرا زلف ترے کان میں آ
مولانا آز اد نیشنل اردو یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کے دوسرے سمسٹر میں ایک پرچہ دکنی ادب کا ہے ۔اس میں 
ولی کی یہ غزل جو کہ ان کی نمائندہ غزلوں میں شمار کی جاتی ہے نصاب میں شامل ہے ۔یہاں یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ غزل یونی ورسٹی سطح پر اردو کے بیشتر نصابات کا حصہ ہے ۔اس غزل کا ایک شعربہت مشہور ہے ۔دیوان ولی کے تمام نسخوں میں شعر کا جو متن درج ہے وہ یہی ہے ۔اسی شعر کے حوالے سے یہاں کچھ گفتگو بھی کی جائے گی ۔
جگ کے خوباں کا نمک ہوکے نمک پروردہ 
چھپ رہا آکے ترے لب کے نمکدان میں آ
دوسرے مصرعے میں ‘آکے’اور دریف ‘میں آ’کی وجہ سے کوئی ایک‘آ’ زائد لگتا تھا ۔پروفیسر احمد محفوظ اور پروفیسر سراج اجملی سے اس شعر کے سلسلے میں رجوع کیا تو انھوں نے بھی وہی مفہوم بتایا جو عام طور پر رائج تھا۔ میں نے متن خصو صاً شعر کے دوسرے مصرعے کے بارے میں اپنے اشکالات کا اظہار کیا مگر کوئی تسلی بخش صورت سامنے نہیں آسکی ۔تقریباً دوسال قبل پھر یہ شعر زیر بحث آیا تو طے ہوا کہ پروفیسر ظفر احمد صدیقی سے رجوع کیا جائے ۔میں نے فون پر اس شعر کے سلسلے میں اپنی دشوار ی بیان کی تو فوری طور پر انھوں نے شعر کا مطلب کچھ اس طرح بتایا :
محبوب کے لبوں میں وہ حسن اور دلکشی پائی جاتی ہے کہ اس کے سامنے دنیا کے تمام حسینوں کا حسن آکر چھپ جاتا ہے ،غلامی کرتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح آقا کے سامنے غلام چھپے چھپے پھرتے ۔ 
اس تشریح سے مجھے تشفی نہیں ہوئی اور میں نے اپنے اشکال کا ذکر کیا تو فوراً انھوں نے کہا کہ شعرمجھے لکھوا دیں ۔انھوں نے شعر لکھ لیا اور پھر حسب معمول بات گذر گئی اور میرے ذہن سے بھی یہ بات نکل گئی کہ اچانک ایک روزپروفیسر ظفر احمد صدیقی کا فون (۴،جون ۲۰۲۰)آیا اور کہاکہ شعر لکھ کر شیروانی میں رکھا لیا تھا اور پھر بھول گیا مگر کچھ دنوں بعد جیسے ہی کسی کام سے جیب میں ہاتھ ڈالا تو یہ شعر نکل آیا اس وقت سے غور کررہا ہوں اور اس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قدیم زمانے میں ‘ک ’اور‘ گ ’کو ایک ہی طرح لکھتے تھے اس میں کوئی فرق نہیں کرتے تھے ۔بعد کے زمانے میں اس کو مرتب کرنے والوں نے ‘گ’کے بجائے ‘ک’پڑھ لیا اور اسی طرح ولی کے تمام نسخوں میں یہی متن رائج ہوگیا ۔انھوں نے کہا کہ یہ متن مغشوش کا معاملہ ہے چونکہ قرآت غلط ہوگئی ہے اس لیے یہ چھپا بھی غلط ہے ۔پروفیسر صدیقی نے کہا کہ ‘ آکے’بجائے یہ ‘آگے’بمعنی مقابلہ کے ہے۔اور اس طرح دوسرا مصرعہ ‘چھپ رہا آگے ترے لب کے نمکدان میں آ’پڑھاجائے گا ۔انھوں نے کہا کہ چونکہ یہ کمی متن کی تھی جو حل نہیں ہوپارہی تھی ۔ ولی جیسا بڑا شاعر‘ آ ٓ آ’ کا اگر دو بار استعمال کررہا ہے تو کوئی بات تو ہوگی ۔یہ بھی واضح رہے کہ ‘آگے ’کہنے سے شعر میں جو تقابل کی کیفیت پیدا ہورہی ہے یا متکلم اس میں جو تقابل پیدا کرنا چاہ رہاہے‘آکے’کے بعد وہ تقابل اس میں نہیں پیدا ہوگا ۔اس صورت میں شعر کی تشریح اس طرح کی جائے گی ۔
 محبوب کے لب کی تعریف میں کہا جاتا ہے کہ تمہارے لب میں اتنا نمک یعنی گویا حسن ہے ملاحت ہے کہ جگ کے خوباں کے سارے نمک جمع ہوجائیں تو بھی مقابلہ نہیں کرسکتے۔ وہ سب کے سب چھپ جاتے ہیں نمک دان میں آکرکے ۔
پروفیسر ظفر احمد صدیقی کا یہ بھی کہنا تھا کہ دوسرے مصرعے میں ‘لب کے’کے بعد کاما ہونا چاہیے ۔ ان کی بتائی صورت میں شعرکا متن اس طرح ہوگا۔ 
جگ کے خوباں کا نمک ہوکے نمک پروردہ 
چھپ رہا آگے ترے لب کے،نمکدان میں آ
پروفیسر ظفر احمد صدیقی کی اس تشریح کے بعد اگر دیکھا جائے تو شعر نہ صرف واضح ہوگیا ہے بلکہ اس کی اہمیت پہلے سے دو چند ہوگئی ہے ۔