ہندوستان اور سعودی عرب پاس پاس

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 25-01-2021
ہندوستان اور سعودی عرب کی دوستی
ہندوستان اور سعودی عرب کی دوستی

 

                                    سہیل انجم/ نئی دہلی  Suhail Anjum   

گزشتہ چند برسوں کے دوران عالمی نظام میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ کئی پرانے دشمن دوست بن گئے ہیں اور کئی پرانے دوست دشمن بنتے جا رہے ہیں۔ چند برس قبل تک امریکہ اور سعودی عرب پاکستان کے سب سے بڑے دوست اور اتحادی ملک ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب امریکہ ہندوستان کا انتہائی قریبی شراکت دار اور اسٹریٹجک پارٹنر بن گیا ہے۔ ادھر سعودی عرب اور پاکستان کے رشتوں میں بھی بہت زیادہ سرد مہری آگئی ہے۔ جبکہ ہندوستان کے ساتھ سعودی عرب کے رشتے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ادھر چین پاکستان کا دوست ملک بن کر ابھرا ہے اور آج کے حالات یہ ہیں کہ وہ اس کے لیے ایک طرح سے ”مالیاتی مشکل کشا“ بن گیا ہے۔ دوست ممالک سے پاکستان کے خراب ہوتے رشتوں کی ایک بڑی وجہ اس کی ناقص خارجہ پالیسی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ہند دشمنی اس کی خارجہ پالیسی کا ایک بنیادی عنصر ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جب بھی ہندوستان اور پاکستان کا کوئی معاملہ سامنے آئے تو اس کے دوست اور اتحادی ممالک ہندوستان کے بجائے اس کی حمایت کریں۔ جبکہ ملکوں کے باہمی تعلقات کسی دوسرے ملک کے رشتوں کے  ترازو میں نہیں تولے جاتے۔ بلکہ ہر ملک اپنے قومی مفادات کے پیش نظر اپنی پالیسی طے کرتا اور کسی بھی معاملے میں حمایت یا مخالفت کا فیصلہ کرتا ہے۔

جب ہندوستان نے اگست 2019 میں جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی دستور کی دفعہ 370 کو ختم کیا اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تو پاکستان نے عالمی سطح پر اس کے خلاف زبردست غوغا آرائی کی اور دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ ہندوستانی حکومت جموں وکشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ زبردست ناانصافی کر رہی ہے۔ حالانکہ وہ ہندوستان کا مکمل طور پر داخلی معاملہ تھا۔ لیکن پاکستان نے اسے بین الاقوامی رنگ دینے کی کوشش کی اور اس میں بری طرح ناکام بھی رہا۔ صرف ترکی اور ملیشیا نے اس معاملے پر اس کا ساتھ دیا۔ اس نے سعودی عرب سے درخواست کی کہ وہ کشمیر کے معاملے پر اسلامی ملکوں کی تعاون کی تنظیم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا اجلاس طلب کرے۔

جب سعودی عرب نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی تو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک ٹی وی شو میں انٹرویو دیتے ہوئے سعودی عرب سے دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ اگر وہ اجلاس نہیں بلائے گا تو وزیر اعظم عمران خان ہم خیال مسلم ملکوں کا اجلاس طلب کریں گے۔ ان کے اس بیان کے بعد دونوں ملکوں کے رشتے اور خراب ہو گئے۔ یہاں تک کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو سعودی عرب کا دورہ کرکے رشتوں کو پٹری پر لانے کی کوشش کرنی پڑی۔ لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ادھر سعودی عرب نے پاکستان کو تین بلین ڈالر کا قرض دے رکھا تھا۔ اس نے اس کا تقاضہ شروع کر دیا اور بالآخر پاکستان نے چین سے قرض لے کر دو بلین ڈالر کی ادائیگی کر دی۔ دونوں ملکوں کے خراب ہوتے رشتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان ترکی، ایران، قطر اور ملیشیا کے ساتھ مل کر کوئی نیا اسلامی بلاک بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

 ایران، ترکی اور قطر سے سعودی عرب کے خراب رشتے جگ ظاہر ہیں۔ لہٰذا یہ معاملہ بھی دونوں ملکوں کے باہمی رشتوں کے مزید بگاڑ کا سبب بن گیا۔ بگڑتے باہمی رشتوں کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب نے پندرہ سو پاکستانی شہریوں کو ملک بدر کرنے کے لیے ڈپورٹیشن سینٹرس میں ڈال دیا ہے۔ پاکستان کے تجزیہ کار بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب میں فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یمن جنگ میں پاکستان کا شامل نہ ہونا بھی سعودی عرب کی ناراضگی کا باعث بنا ہے۔ بہر حال پاکستان کو بھی اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ اب سعودی عرب اس کا پہلے جیسا دوست ملک نہیں رہا۔ ورنہ وہ ایسے کڑے وقت میں جبکہ پاکستان کی معیشت بری طرح ڈانواڈول ہے نہ تو اس سے قرض کی واپسی کا تقاضہ کرتا اور نہ ہی اسے مصیبت میں ڈالنے والے فیصلے کرتا۔

جہاں تک ہندوستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی بات ہے تو دونوں میں تاریخی رشتے رہے ہیں۔ تاہم اب وہ رشتے جو ابھی تک ہندوستانیوں کے وہاں کام کرنے اور ہندوستان کی جانب سے تیل اور گیس کی درآمد تک محدود تھے اب اسٹریٹجک رشتوں میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب ہندوستان کے لیے عراق کے بعد تیل کا دوسرا سب سے بڑا سپلائر ہے۔ مالی سال 2018-19 میں اس نے ہندوستان کو 40.33 ملین میٹرک ٹن خام تیل فروخت کیا تھا۔ ہندوستان اپنے خام تیل کا تقریباً 18 فیصد حصہ سعودی عرب سے درآمد کرتا ہے۔

 گزشتہ دنوں ہندوستان کے آرمی چیف جنرل ایم ایم نرونے نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کا بھی دورہ کیا۔ قابل ذکر ہے کہ کسی بھارتی آرمی چیف کا ان دونوں ملکوں کا یہ پہلا دورہ تھا۔ دورے میں انھوں نے سعودی عرب کے اپنے ہم منصب اور دیگر دفاعی اہلکاروں سے تبادلہ خیال کیا۔ مذاکرات کے دوران دونوں ملکوں میں دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور دفاعی ساز و سامان کو مشترکہ طور پر تیار کرنے کے معاملے پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ ان کے اس دورے کو سیاسی و سفارتی حلقوں میں بہت اہمیت دی گئی ہے۔ اس دورے سے یہ اندزہ ہوتا ہے کہ ہندوستان سعودی عرب سے اپنے رشتوں کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔

سعودی عرب ہندوستان کا چوتھا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ وہاں تیس لاکھ سے زائد ہندوستانی کام کرتے ہیں جو بڑی مقدار میں زرمبادلہ ہندوستان بھیجتے ہیں۔وزیر اعظم ہند نریندر مودی نے برسراقتدار آنے کے بعد سعودی عرب کا دو بار دورہ کیا۔ 2016 کے دورے میں سعودی حکومت نے انھیں اپنے ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز دیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے 2019 میں ریاض کا دورہ کیا۔ جب سے نریندر مودی برسراقتدار آئے ہیں خلیجی اور دیگر اسلامی ملکوں سے ہندوستان کے رشتوں کو کافی اہمیت دی جا رہی ہے۔ جبکہ ہندوستان ان ملکوں کے لیے ایک بہت بڑا بازار بن کر ابھرا ہے۔ اس لیے سعودی عرب سمیت دیگر تمام اسلامی ممالک ہندوستان سے اپنے رشتوں کو اور مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہر حال حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب میں فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں تو ہندوستان اور سعودی عرب میں قربتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔