سید علی شاہ گیلانی:رکن اسمبلی سے پاکستان نواز کیسے بنے

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 02-09-2021
 سید علی شاہ گیلانی
سید علی شاہ گیلانی

 


آشا کھوسا، نئی دہلی

حریت کانفرنس کے سابق رہنما سید علی شاہ گیلانی یکم ستمبر 2021 کو جموں و کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں واقع اپنے مکان میں 92 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔چند گھنٹوں کے دوران انہیں سری نگر کے حیدر پورہ قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سید علی شاہ گیلانی ایک پاکستان نواز کشمیری رہنما کی حیثیت سے دنیا سے رخصت ہوئے۔

پچھلے چند سال کے دوران گیلانی کی صحت ایک معمہ بنی رہی۔ نہ وہ کچھ بولتے تھےاور نہ ہی اُنھیں عوامی تقاریب میں دیکھا جاتا تھا ۔ ان کی علمی سرگرمیاں بھی ختم ہو چکی تھی اور اُنھیں اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان نے انھیں اپنا سب سے بڑا شہری اعزاز 'نشانِ پاکستان' سے نوازا ہے۔وہ اس بات کو نہیں جانتے تھے کہ اسلامی دہشت گردی کے جس جن کو نکال کر انھوں نے کشمیری پرڈالا ہے، وہ اب اپنا راستہ کھو چکا ہے۔

ایک نوجوان صحافی کی حیثیت سے میں نے گیلانی کو جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی میں متعدد دفعہ بولتے ہوئے سنا تھا۔

وہ جموں و کشمیر میں تین بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ رکن اسمبلی کے طور پر وہ اکثر ان اسکولوں کے سائنسی نصاب میں تبدیلی کے خواہاں تھے، جہاں ڈارون کا نظریہ ارتقا پڑھایا جاتا تھا، ان کا یہ ماننا تھا یہ اسلام مخالف ہے۔وہ کہا کرتے تھے کہ ہم اپنے بچوں کو یہ کیسے سکھا سکتے ہیں کہ انسان بندر کی نسل سے پیدا ہوا ہے؟

یہ ان کا پسندیدہ سوال ہوتا تھا، جس پر ایک مرتبہ اس وقت کے جموں و کشمیر کے وزیر اعلی فاروق عبداللہ مشتعل ہوگئے تھے۔

ایک رکن اسمبلی اور ایک سیاست داں کی حیثیت سے گیلانی ایک اسلامی سوچ رکھنے والے اور نرم گو رہنما کے طور پر سامنے آئے۔

ان دنوں پاکستان ان کے ذہن میں کہیں بھی نہیں بستا تھا۔ تاہم جب 1989 میں یہ سوچ بدل گئی، جب کشمیر میں شدت پسندی کی تحریک اٹھی۔

اسلام آباد نے گیلانی جیسے نوجوان کشمیری رہنما کو اچک لیا اور انھوں نے آل پارٹیز حریت کانفرنس(All Parties Hurriyat Conference) بنیاد رکھی۔بالآخر یہی پارٹی اس نوجوان کشمیری کی سیاسی آواز بنی، جس نے آزادی کے لیے بندوق اٹھائی تھی۔

گیلانی کی سوچ حریت کانفرنس کے دیگر رہنماؤں سے ہمیشہ مختلف ہی رہی۔حریت کے دیگررہنما انھیں'اسلام آباد کے پسندیدہ نمائندے کی حیثیت سے دیکھتے تھے، جس کا کام دوسروں کے بارے میں ’بڑے بھائی‘ کو رپورٹ کرنا تھا۔

دہشت گرد تنظیم حزب المجاہدین کے ہاتھوں ایک عوامی ریلی میں حریت رہنما عبدالغنی لون کے قتل کے بعد گیلانی سب کی نظر میں آ گئے۔ بالآخر اس کے نتیجے میں حریت کانفرنس دو حصوں میں منقسم ہوگئی۔ایک کی قیادت میرواعظ مولوی عمر فاروق اور دوسرے کی گیلانی کر رہے تھے۔گیلانی نے اپنی تنظیم کو 'تحریک حریت کشمیر' کا نام دیا تھا۔

شروع میں اسلام آباد کے ساتھ ان کے روابطہ اچھے تھے تاہم رفتہ رفتہ رابطے خراب ہوتے چلے گئے۔ جب کہ آئی ایس آئی ان کی حکمت عملی سے پریشان تھی۔ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کے دورہ ہند میں ان کےساتھ زبانی جھگڑا کشمیر میں بحث کا موضوع بن گیا تھا۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ گیلانی ایک گردے کے کینسر میں مبتلا تھے، جب وہ رانچی جیل میں قید تھے،ان کی صحت خراب ہو رہی تھی۔حکومت ہند کی سخاوت کی بدولت ایمس میں ان کا آپریشن سرکاری خرچ پر کیا گیا۔

انھوں نے صحت یاب ہو نے کے بعد کشمیری نوجوانوں کو'اسلامی تحریک' میں شامل ہونے کی مہم شروع کردی، جس نے بالآخر پاکستان کو کشمیر میں شورش کی بحالی میں مدد دی۔

 گیلانی کی اس مہم نے لاکھوں نوجوان کشمیریوں کو شدت پسند بنا دیا اور اس کے اثرات اب بھی وادی میں محسوس کیے جارہے ہیں۔انہوں نے نوجوانوں کو واضح پیغام دیا کہ اسلام اور سنت کی پیروی کریں اور سیکولرازم سے دور رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان کو وادی سے باہر نکال دو اور اپنا حق چھین لو۔

تاہم جب مسلح نوجوانوں کی ہلاکتیں بڑھنے لگیں تو گیلانی اور حریت کے دیگر رہنماوں سے سوالات کئے جانے لگے کہ ان کے بچے اس تحریک کا حصہ کیوں نہیں ہیں۔

خیال رہے گیلانی نے دو شادیاں کی تھیں، اور ان کے تمام بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔اس وقت کی مفتی حکومت نے ان کے بیٹوں اور پوتوں کو سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے میں مدد دی تھی اور ان میں سے کچھ بچوں کو ترکی بھیج دیا گیا تھا تاکہ وہاں وہ آرام دہ زندگی گزار سکیں۔

گزشتہ برسوں میں گیلانی کے بیٹوں اور بیٹیوں سمیت حریت رہنماؤں کے جمع کردہ دولت اور جائیدادوں پر بھی سوالات اٹھائے گئے تھے۔ گیلانی اس اونچائی سے گر پڑے، جس پر وہ کبھی کھڑے تھے۔

انہوں نے اپنی کوئی میراث نہیں چھوڑی ہے حتیٰ کہ اپنے نظریات کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی تنظیم بھی نہیں۔اس کے باوجود وہ ایک کشمیری کی حیثیت سے اس دنیا سے رخصت ہوئےجس کا دل پاکستان کے لیے دھڑکتا تھا۔