جسٹس مارکنڈے کاٹجو کا اردو شاعری سے لگاو

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 21-11-2022
جسٹس مارکنڈے کاٹجو کا اردو شاعری سے لگاو
جسٹس مارکنڈے کاٹجو کا اردو شاعری سے لگاو

 

 

  شاہ عمران حسن ، نئی دہلی

آج کل لکھی جانے والی زیادہ تر اردو شاعری کوڑا کرکٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اردو کے زیادہ تر مشاعرے محض پیسہ کمانے یا خانہ پوری کے لیے ہوتے ہیں،اور نام نہاد شاعر تیسرے درجے کی چیزیں لکھتے اور سناتے ہیں،اگرچہ وہ اس کے عوض بھاری رقم وصول کرتے ہیں۔

یہ باتیں گذشتہ دنوں رابطہ عامہ کی سائٹ ٹوئیٹر پر سپریم کورٹ آف انڈیا کے سابق جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے لکھی ہے۔ان دنوں وہ اردو زبان کے حوالے سے سُرخیوں میں ہیں۔انہوں نے پے در پے کئی باتیں رواں ماہ اردو کے حوالے سے کہی ہیں۔

انہوں نے سوانح حالی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر مرزااسداللہ خاں غالب نے کبھی بھی کسی شاعر کے کلام کو ’داد‘ نہیں دی جب تک کہ وہ ان کی شاعری سے مطمئن نہ ہوگئے۔ مگر یہ المیہ ہے کہ موجودہ سامعین ہلکی اور معمولی بات پر واہ واہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہی حال موجودہ ہندی شاعری، ہندی شاعر اور کوی سمیلنوں کا ہے۔

جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اپنے ایک اور ٹوئٹ میں  دعویٰ کیا ہے کہ سنہ1947 سے پہلے ہندوستان کے ایک بڑے حصے بلاامتیاز مذہب و ملت(ہندو، مسلم، یا سکھ) پڑھے لکھے طبقے کی زبان اردو تھی۔ تاہم بعد کے دنوں میں بعض مفاد پرستوں نے جھوٹا پروپیگنڈہ کیا کہ یہ صرف مسلمانوں کی  زبان ہے اور غیر ملکی زبان ہے۔جس کی وجہ سےاردو کی تقریباً نسل کشی ہوئی۔

 

آپ کو بتاتے چلیں کہ جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اردو کے تعلق سے سنہ 2014 میں ایک کتاب جسٹس وتھ اردو (Justice to Urdu) لکھی تھی، جس کا اس وقت کے نائب صدر حامد انصاری نے اجرا کیا تھا۔

انہوں نے سپریم کورٹ میں دیے گئے اپنے کئی فیصلوں میں اردو شاعری کا بھی حوالہ دیا کرتے تھے۔ جو کہ ان کی کتاب میں موجود ہے۔ انہوں نے جن شعرا کرام کے اشعار اپنے فیصلے میں نقل کئے تھے، ان میں سے یہاں ان میں سے کچھ نقل کئے جاتے ہیں۔

 امیرمینائی

قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیوں کر

 جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

یہ شعر انہوں نے  اجیت سنگھ ہرنام سنگھ گجرال بمقابلہ ریاست مہاراشٹرا  میں فیصلہ دیتے ہوئے نقل کیا تھا۔

 فراق گورکھ پوری

ہر ذرے پہ اب کیفیت نیم شبی ہے

اے ساقی دوراں یہ گناہوں کی گھڑ ی ہے

یہ شعر ارموگم سروائی بمقابلہ ریاست تامل ناڈو میں نقل کیا گیا تھا۔

فراق گورکھ پوری

سر زمین ہند پر اقوام عالم کے فراقؔ

قافلے بستے گئے ہندوستاں بنتا گیا

یہ شعر ہنسا ویرودک سنگھ بمقابلہ مرزا پور موتی قریش جماعت معاملے میں نقل کیا گیا۔

awazthevoice

جسٹس کاٹجو کی کتاب

مرزا غالب

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی

موت آتی ہے پر نہیں آتی

یہ شعرارونا رام چندر شان بیگ بمقابلہ یونین آف انڈیا کے معاملے میں نقل کیا گیا۔

مرزا غالب

ہے موجزن اک قلزم خوں کاش یہی ہو

آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے

یہ شعر بھگوان داس بمقابلہ ریاست دہلی میں نقل کیا گیا ہے ۔

مرزا غالب

پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے

اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے

 یہ شعر بدھ دیو کرماسکر بمقابلہ ریاست مغربی بنگال معاملے میں نقل کیا گیا ۔

 فیض احمد فیض

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

 محبوب بچہ بمقابلہ بمقابلہ پولیس معاملے میں نقل کیا گیا۔

فیض احمد فیض

قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو

کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے

یہ شعر  گوپال داس تھرو  اور بھائی آنند ویر معاملے میں نقل کیا گیا۔

 ساحر لدھیانوی

بلاؤ خدایان دیں کو بلاؤ

یہ کوچے یہ گلیاں یہ منظر دکھاؤ

ثناخوان تقدیس مشرق کو لاؤ

ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں

یہ اشعار بدھ دیو کرماسکر بمقابلہ ریاست مغربی بنگال میں نقل کیا گیا۔ اس کے علاوہ ساحر لدھیانیو کی نظم چکلے سے مزید یہ شعر بھی نقل کیا گیا تھا:

مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی

یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی

اپنی کتاب جسٹ وتھ اردو (اردو کے ساتھ انصاف) میں انہوں نے جگہ بہ جگہ اردو کی نظمیں اور اشعار نقل کئے ہیں۔

جسٹس مرکنڈے کاٹجو لکھتے ہیں کہ  اردو شاعری اکثر براہ راست زبان میں کلام نہیں  کرتی بلکہ یہاں اردو اشعار میں اشارے و کنائے اور تمثیلی زبان بالواسطہ طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اردو کے سب سے بڑے شاعر غالب کی شاعری عام لوگوں کے لیے نئی لکھی گئی ہے۔ ان کے اکثر اشعار سمجھنا مشکل ہے۔ اگرچہ جسٹس مرکنڈے کاٹجو کا خیال ہے کہ اردو شاعری میں یہ منفرد خوبی ہے کہ قاری ایک شعر کو وہ معنی دے سکتا ہے جس کا شاعر تصور بھی نہیں کر سکتا۔