شاہ تاج خان : پونے
اُس پیڑ کے نشاں آج بھی باقی ہیں ۔جس کے سائے تلے پونے کی شان حضرت بابا جان نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے ۔نیم کے درخت کی چھاؤں میں خمیدہ كمر ،کمزور بوڑھی عورت جنہیں آج حضرت بابا جان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اُن کے والد محترم نے اُن کا نام گل رُخ رکھا تھا ۔ہمارے ملک ہندوستان میں شمال سے لے کر جنوب تک ، مشرق سے لے کر مغرب تک اللہ کے ولیوں کی درگاہیں اور آستانے موجود ہیں ۔آج بھی اِن آستانوں پر بندگانِ خدا کا ہجوم دیکھنے کو ملتا ہے ۔
خدا کے عاشق ہوئے ہیں ہزاروں
بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو
خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
صوفیوں کے آستانوں اور درگاہوں پر دعاؤں کے لیے اُٹھنے والے ہاتھ کسی خاص مذہب سے تعلق نہیں رکھتے۔یہاں ٹیکہ- ٹوپی کی کوئی قید نہیں ہوتی ۔اگر پورے ملک کی تہذیب و ثقافت کسی آنگن میں ایک ساتھ نظر آتی ہے تو وہ بزرگانِ دین کے آستانے اور درگاہیں ہیں۔
فقیر اور مجذوب
پونے کے چار باؤڈی علاقے کے بھیم پرا سلم بستی میں حضرت بابا جان نے نیم کے درخت کے نیچے تقریباً پچیس سال گزارے ۔21 ستمبر 1931 میں اُنہوں نے اِس دنیا سے پردہ کر لیا ۔جس مقام پر اُن کی زندگی کے آخری دن گزرے اُسی جگہ پر اُن کی درگاہ موجود ہے۔جہاں بلا تفریق مذہب و ملت عقیدت مندوں کا ہجوم دعاؤں کی درخواست لیے پہنچتا ہے ۔حضرت بابا جان کو فقیر اور مجذوب کہا جاتا ہے ۔حضرت بابا جان رحمت اللہ علیہا کا تعلق کسی بھی صوفی سلسلے سے نہیں ہے ۔ تقریباً ہر مكتب فکر کے پیروکار حضرت بابا جان رحمت اللہ علیہا کی درگاہ پر حاضری دیتے ہیں ۔حضرت بابا جان کی درگاہ پر عقیدت و احترام کا نذرانہ پیش کرنے والوں میں غیر مسلم افراد کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
اللہ بھی اپنے اُن بندوں سے محبت کرتا ہے جو اُس کے بندوں سے محبت کرتے ہیں۔حضرت باباجان کی زندگی میں ہی اُن کےعقیدت مندوں کی کثیرتعدادپونےاوراُس کے اطراف سے ہرروزپہنچتی تھی۔ اور وہ لوگ تحائف پیش کرکے اپنےخلوص اورعقیدت کااظہار کیاکرتے تھے۔لیکن حضرت بابا جان وہ تحائف غریبوں اورضرورت مندوں کےدرمیان تقسیم کردیاکرتی تھیں۔اُن کی اسی دریادلی کو دیکھتے ہوئے اُنہیں خواجہ سلطانہ کا لقب بھی دیا گیا تھا ۔متعدد معجزات بابا جان سے منسوب کیے جاتے ہیں ۔حضرت بابا جان رحمت اللہ علیہا کی پیدائش کے تعلق سے کوئی مستند تاریخ موجود نہیں ہے ۔
مختلف مؤرخین نے الگ الگ تاریخ پیدائش قلم بند کی ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ 1790سے1820 کے درمیان حضرت بابا جان بلوچستان (افغانستان) میں پیدا ہوئیں ۔ 1905 میں وہ پونے تشریف لائیں ۔پونے آنے سے قبل انہوں نے دو حج بھی ادا کیے ۔ایران ،ترکی ،شام ،لبنان ،بغداد ، عراق ہوتے ہوئے 1903 میں حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد پہلے اجمیر شریف اور پھر ممبئی آئیں ۔ ممبئی سے حضرت بابا جان نے 1905میں پونے کا رخ کیا اور پھر یہیں کی ہو رہیں ۔اُن کی حیات میں ہی لوگ بڑی تعداد میں اُن سے ملنے اور دعاؤں کی درخواست لیے پہنچتے تھے ۔1930میں صحافی پال بروٹون نے پونے کا دورہ کیا اور اپنی کتاب" اے سرچ آف سیکرٹ انڈیا میں بابا جان سے اپنی مختصر ملاقات کا ذکر کیا ہے ۔
وہ لکھتے ہیں کہ"وہ راہگیروں کو آتےجاتےدیکھتے ہوئے، ایک چار پائی پرسر کے نیچے تکیوں کا سہارا لیے لیٹی رہتی ہیں ." ملاقات مختصر تھی۔ پھر بھی برنٹن جذباتی طور پر بابا جان سے متاثر ہوئے۔ برنٹن نے بابا جان کے ریشمی سفید بالوں اور چہرے پر شدید جھریوں کا بھی ذکر کیا ۔ حضرت بابا جان نے 1914 میں بیس سالہ پارسی نوجوان، مروان شہر یار ایرانی کو اپنا جانشین نامزد کیا تھا ۔جو آج مہر بابا کے نام سے ملک و بیرون ممالک میں مشہور ہیں ۔
جس تن لگیا عشق کمال
جھکی ہوئی کمر،کمزور لاغر بوڑھی عورت، جس کا لباس ایک گدڑی تھا۔اُن کی مقبولیت بڑھتی جارہی تھی اُن کے ارد گرد لوگوں کا ہجوم رہتا اور وہ سب سے بے نیاز اپنے وظائف اور مراقبے میں مصروف رہتیں۔پونے کے کیمپ علاقہ میں آج وہ جگہ بابا جان چوک کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت بابا جان کو قلندری مرتبے پر فائز ہونے والی دوسری خاتون قرار دیا جاتا ہے ۔اِس لیے بزرگوں نے اُنہیں رابعہ بصری ثانی بھی کہا ہے ۔
تجھ سے لفظوں کا نہیں روح کا رشتہ ہے میرا
اسلامی کیلنڈر کے مطابق جمادی الاول ماہ میں حضرتِ بابا جان کے عرس مبارک کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔آٹھ روز تک چلنے والے عرس میں جمادی الاول کی 8 تاریخ کو صندل ہوتا ہے ۔اِس کے علاوہ زیارت ،وعظ ،میلاد شریف ،قوالی اور لنگر کا بھی انتظام کیا جاتا ہے ۔عرس مبارک میں کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں ۔