ڈاکٹر عمیر منظر
ایسوسی ایٹ پروفیسر
مانو لکھنؤ کیمپس
مرزا غالب (1797۔1869)کا نام اردو غزل کی تاریخ میں معیار و اعتبار کی ضمانت ہے۔شمس الرحمن فارقی نے غالب کو آخری کلاسیکی شاعر اورپہلا بڑا جدید شاعر قرار دیا ہے۔انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ غالب کا کلام اس صدی کااستعارہ اور ان کے بیان کردہ مسائل اس صدی کے مسائل کا جوہر ہیں۔غالب کی شاعری اردو غزل کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کے طور پر جانی جاتی ہے۔ انھوں نے کائنات، انسان اور اس کے مسائل پر عام شعری رویے سے الگ طرز اختیار کیا۔ چیزوں کو عام انداز سے دیکھنے اورقبول کرنے کے بجائے ان پر سوال قائم کیا۔ غالب کے یہاں استفہام کی کثرت ہے۔ یہ کثرت عمومی انداز کی حامل نہیں بلکہ اس میں حسن بیا ن اور ندرت دونوں چیزیں شامل ہیں۔ اسی چیز نے غالب کے تخلیقی مرتبے کو بلند کیا ہے اور آج تک ان کی شاعری نہ صرف تازہ ہے بلکہ اپنی طرف بار بار متوجہ بھی کرتی ہے۔غالب نے جس طرح سوالات قائم کیے ہیں کلاسیکی شاعروں میں اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ان کے استفہامیہ طرز کی کثرت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ دیوان غالب کا مطلع ہی استفہامیہ ہے جو کہ دنیا میں انسان کی حیثیت اور اس کی بے بسی کا آئینہ دار ہے۔چنداشعار ملاحظہ ہوں۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا
کلام غالب کی اہم خصوصیت حسن بیان یا طرز ادا ہے۔مرزا نے یونہی نہیں کہاہے کہ غالب کا انداز بیان اور ہے بلکہ جگہ جگہ کلام میں یہ خوبی نظر آتی ہے۔وہ رمز،ایما،اشارت سے زیادہ کام لیتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ اپنے خیالات براہ راست پیش کرنے کے بجائے ان کا سہارا لیتے ہیں۔اسی سبب ان کے کلام میں ایک نیا انداز پیدا ہوجاتاہے۔
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں
جب میکدہ چھٹا تو پھر کیا جگہ کی قید
مسجد ہو مدرسہ ہو کوئی خانقاہ ہو
کہیں کہیں تو یہ محسوس ہوتاہے کہ یہ بہت عام اور سادہ سا شعر ہے مگر غور کرنے پر کھلتا ہے کہ اس میں معنی کی بہت سی جہتیں پوشیدہ ہیں۔
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کرگھر یاد آیا
کیاخوب تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا
پس چپ رہو ہمارے بھی منھ میں زبان ہے
کلام غالب میں حسن و عشق اور تصوف کے مضامین بھی ہیں مگر مرزا کا کمال یہی ہے کہ ہر جگہ انھوں نے اپنی انفرادیت اور فنی ہنر مندی کو قائم رکھا ہے۔بقول حالی:
”وہ جس عام روش پر اپنے ہم فنوں کو چلتا دیکھتے ہیں اس پر چلنے سے ان کی طبیعت کی ابا کرتی ہے.... مرزا کی طبیعت اس قسم کی واقع ہوئی تھی۔وہ عام روش پر چلنے پر ہمیشہ ناک بھوں چڑھاتے تھے۔“ (یادگار غالب الطاف حسین حالی ص: 129)
حالی کی یہ بات درست ہے کہ مرزا نے شار ع عام پر چلنا پسند نہیں کیا اور اپنے لیے الگ راستہ اختیار کیا۔ غالبا اسی وجہ سے غالب کو ان کے معاصرین نے ابتدا میں اہمیت نہیں دی۔بلکہ ان کی شاعری کوقابل اعتنا ہی نہ سمجھا۔ اس کی وجہ وہی عام روش سے جداگانہ طریقہ تھا، جو مرزا نے اختیار کررکھا تھا۔ دوسرے یہ کہ اس وقت کا عام شعری رویہ دل سے نکلے اور دل میں اتر جانے والی شاعری کا تھا جسے غالب نے من وعن قبول نہیں کیا۔شاید اسی وجہ سے غالب نے خود کو’عندلیب گلشن ناآفریدہ‘ کہا تھا۔ کلام غالب میں استعارہ کنایہ اور تمثیل کی بیش از بیش کارفرمائی ہونے کے ساتھ ساتھ شوخی و ظرافت بھی ہے مگر اس کا حسن یہ ہے کہ اس میں زبان و شعر کی صناعی کو تہذیبی تناظر میں پیش کیا گیا ہے ؎
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقت سفر یاد آیا
دام ہر موج میں ہے حلقہ صدکام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے کو گہر ہونے تک
میں نے کہا کہ بزم ناز چاہئے غیر سے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیاکہ یوں
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر
نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کے لیے
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئے
اٹھا اور اٹھ کے قد م میں نے پاسباں کے لیے
کلام غالب میں فارسی آمیز غزلیں بھی ہیں بلکہ مرزا کے اردو دیوان کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جن میں ایک دو الفاظ ہی اردو کے ہیں۔ اسی طرح کلام غالب میں شعری مرکبات بھی بہت ہیں۔ ان شعری مرکبات سے غالب کی قوت تخلیق کا اندازہ لگایا جاسکتاہے:
لوں وام بختہ خفتہ سے یک خواب خوش ولے
غالب یہ خوف ہے کہ کہاں سے ادا کروں
شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
تماشائے بیک کف بردن صد دل پسند آیا
یک قدم وحشت سے درس دفتر امکاں کھلا
جادہ اجزائے دوعالم دشت کا شیرازہ تھا
غالب کا کلام زندگی کے تجربوں اور رویوں کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہر فرد اپنی بساط اور مزاج کے مطابق استفادہ کرتا ہے۔غالب کے کلام میں تہہ داری،پیچیدگی،شوخی،مضمون آفرینی اور معنی آفرینی کے ساتھ ساتھ ضرب الامثالیت بھی پائی جاتی ہے۔ان کے آسان شعروں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ بہت جلد حافظے کا حصہ بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے موقع بہ موقع مرزا کے اشعار لوگ سناتے بھی ہیں۔
غالب کے غزلیہ کلام میں زندگی کے رموز و نکات اور تہذیب و معاشرت کے مسائل اس طرح دست و گریباں ہوگئے ہیں کہ یہ بنی نوع انساں کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کے حامل قرار دیے جاسکتے ہیں۔انسانی زندگی کی محرومیوں مایوسیوں اور پیچیدگیوں کا بیان ہی نہیں بلکہ نشاط و کیف کی ترجمانی بھی مرزا کی غزلوں میں موجود ہے۔لیکن سب سے خاص بات یہ ہے کہ مرزا کے کلام میں چاہے وہ جو بھی مضمون باندھیں یا ادا کریں اس میں زبان و بیان کی صناعی اور فن کی ہنر مندی ہمیں ضرور ملے گی۔
گنجینہ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے