تعلیم و تربیت:ہماری سماجی ضرورت

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-02-2022
تعلیم و تربیت:ہماری سماجی ضرورت
تعلیم و تربیت:ہماری سماجی ضرورت

 

 

ارشد غازی،علی گڑھ

جب ہم کالج کے طالب علم ہوا کرتے تھے تو ہماری ایک دوست سُمن سہائے نے سوال کیا کہ تعلیم سے کیا مراد ہے؟

سبھی نے اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق جواب دیا۔ مگر سُمن کا جوا ب وہ تھا جس نے سب کو لاجواب کر دیا:

سُمن نے کہا: ہم پرائمری، سیکنڈری اور پھریونیورسٹی تک بیس بائیس برس تک پڑھتے ہیں۔ اس میں سے ہمیں کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ لیکن جو بچتا ہے وہ تعلیم ہے۔

مطلب یہی وہ تہذیب، سنسکرتی، سبھیتا اورثقافت وتمدّن ہے جو انسان کو انسان بناتا ہے اور سکھاتا ہے کہ مل جُل کر معاشرے میں کیسے رہا جاتا ہے، یہی ادب آداب اور تربیت ہمیں مستقبل میں بڑا بناتی ہے۔ سُمن کے پاس بات سمجھانے کے لئے الفاظ نہیں تھے،مگر اُس نے سادہ لفظوں میں تعلیمی فلسفے کو بیان کیا ہے۔

کوئی صنعت کار جاپان پہنچا، وہاں کی ترقیات دیکھ دیکھ کر حیران ہوا۔ اس نے ایک جاپانی سے پوچھا:آپ کی ترقی کا راز کیا ہے؟ جاپانی کا مختصر جواب تھا:ہم سکھا دیتے ہیں۔یعنی اسے تعلیم کردیتے ہیں۔

سنہ 2005 ء سچّر کمیٹی کی رپورٹ میں مسلم معاشرے میں خواندگی کی شرح کو قومی اوسط سے تشویشناک حد تک کم بتایاہے۔ مسلمان اس سے بہت دلبرداشتہ ہوا اور انھوں نے اس کا الزام حکومت کے سر ڈالا۔ کیا بات حیرت کی نہیں کہ بیس کروڑ مسلمانوں میں صرف تین تعلیمی ادارے ان کے پاس ہیں، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ ہمدرد۔ کیا مسلمانوں کے پاس وسائل کی کمی ہے؟ ادارہ سازی پر ہماری اجتماعی نظر کیوں نہیں رہی؟

ان اداروں کو شعوری بینک (تھینک ٹینک)کا کام کرنا چاہئے تھا جو نہیں ہوا۔ کسی بھی قوم کو موجودہ سائنسی دور کا مقابلہ کرنے کے لئے اجتماعی مغز کی ضرورت ہے، جس سے ہمارا دامن تہی ہے۔قول ہے کہ جہاں معلم یا کوئی تعلیمی ادارہ اپنے کردار کی فعالیت و افادیت کھو دیتا ہے،وہ معاشرہ کبھی ترقی یافتہ معاشرہ نہیں بن سکتا۔

یاد رکھئے!معاشرے میں کسی بھی فرقے کے مقام و احترام کا تعلق اس کے علمی و تعلیمی معیار کے ساتھ وابستہ ہے۔ ایک کمی یہ بھی رہی کہ مسلم سیاست دانوں نے کبھی قوم کے تعلیمی مسائل کو لے کر سرکار کے سامنے کوئی واضح اسکیم یا تجاویز نہیں رکھیں۔

یہ جانتے ہوئے کہ کسی بھی سیاسی نظام سے مکمل استفادہ تعلیم یافتہ معاشرہ ہی کر سکتا ہے، بھیڑ نہیں۔انتہا یہ ہے کہ مسجد کے منبر کو بھی ہم نے تعلیم کے فروغ کے لئے استعمال نہیں کیا۔کیا یہ بات عجیب نہیں کہ ہم اپنے اولاد کے لئے اعلا سے اعلا تعلیم کے خواہش مند ہوں لیکن آنے والی نسلوں کے لئے ہمارے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں۔

تھامس پین نے اپنی کتاب ”آدمی کے حقوق اور عقل“ میں لکھا ہے کہ انسان جو حقوق اپنے لئے تلاش کرتا ہے،وہی اسے دوسروں کے لئے بھی تلاش کرنا چاہئے۔ایسا نہ کرنے سے معاشرے میں مہیب مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ ہمارے آئین کے مطابق ہر دس ہزار کی آبادی پر ایک اسکول قائم کرنا حکومت کی ذمّہ داری ہے۔ لیکن دوسری طرف اسکول قائم کرنے سے آپ کو کوئی روک بھی نہیں رہا ہے۔ مسلمانوں کواپنی غفلت پر نظر کرنی چاہئے۔ اچھے پرائمری اور برسری اسکول ہی اعلی تعلیم کے معیار کا تعین کرتے ہیں ان اداروں پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ چند ایک ہیں جن کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔ عمومی طور پر مسلمان دانشورتعلیمی ضرورت کی طرف متوجہ نہیں۔

شمالی ہند میں چودھری ریاست علی صاحب نے متعدد اسکول کھولے، بیس سے زیادہ کالج قائم کئے۔ مہاراشٹرا میں مولانا غلام محمد وستانوی نے بہت سے جدیدمدرسے، اسکول، کالج قائم کئے ہیں۔ وہ قابل ستائش ہے۔ سید حامد، سلمیٰ حامدانصاری، ضمیر الدین شاہ پروفیسرمحمد امین کی ذاتی کوششوں سے چند اچھے اسکول قائم ہوئے۔

اس ضمن میں عوامی بیداری کی ضرورت ہے۔ پندرہ برس قبل جب حیدرآباد میں اردو یونیورسٹی قائم ہوئی تو اس کے پہلے شیخ الجامعہ پروفیسر شمیم جیراجپوری نے بتایا کہ جب یہ یونیورسٹی قائم ہوئی تو انھوں نے پانچ سال کے عرصے میں پچیس ہزار گھروں کو پیدل جاکر دستک دی کہ لوگ اپنے بچوں کو اردو ذریعہ تعلیم سے ہنر مند بنائیں، ان کی یہ کوشش جلد ہی برگ و بار لائی۔

دراصل کام تو کرنے سے ہی ہوتا ہے۔ تعلیمی میدان میں جو لوگ منہمک ہیں ان کے درمیان باہم رابطہ ہونا ضروری ہے۔ بلکہ تعلیمی بیداری کے لئے سر سید احمدخان کی طرح ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس ہر شہر اور قصبے میں پھر منعقد کئے جائیں۔

ہندوستان کی جدید تعلیمی پالیسی سے متعلق منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر راجپوت نے کہاتھا: پھیلتی وبا کے اس دور میں والدین،اسکول کے پرنسپل صاحبان، جملہ اساتذہ اپنے آپ کو اسکول سے غیر متعلق نہ سمجھیں۔عالمی وبا نے ہمیں رسائی، سیکیورٹی، معیاری تدریس، استاد و طالب علم کے تناسب کے اعتبار سے اسکول کے ماحول کو بہتر بنانے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔انھوں نے تقریر کے آخر میں کہا:ہندوستان میں تعلیمی ورثہ کی عظمت کو بحال کرنے کے لئے تین چیزیں اہمیت رکھتی ہیں۔عمر بھر سیکھنا، سیکھنے کے لئے سیکھنا، اور مل جُل کر رہنے کے لئے سیکھنا۔

تعلیم میں بچے کی کردار سازی بہت اہمیت رکھتی ہے۔بچے کی صلاحیتوں کو ان کے مزاج کر مطابق پروان چڑھانا چاہئے نہ کہ اپنے مذاق اور عادت کے مطابق۔ اساتذہ کو روزانہ خوب تیاری کے بعد کلاس میں آنا چاہئے۔

کسی سوال کے جواب میں بچے کو جھڑکنا اس کی شخصیت کو تباہ کرتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس یہ کہا جائے کہ سوال نہایت عمدہ اور خاص ہے بچے کی شخصیت کو نکھارتا ہے۔ اسی طرح شخصیت سازی میں استاد کا حوصلہ افزائی میں ہلکا سا تبسم بچے میں خود اعتماد ی پیدا کرتا ہے۔ ہندوستان بہت وسیع و عریض ملک ہے اس کے ہر شہر اور علاقے میں مختلف ہنر مندیاں وافر نظر آتی ہیں۔

ایک اچھے استاد کا کام یہ بھی ہے کہ وہ اپنے علاقے کی ہنرمندی سے بچوں کو واقف کرائے۔اسکول کے بچوں کو علاقے کے بڑے بڑے کارخانوں کا دورہ بھی کروانا ان کے ذہنوں کو نکھارنے میں مدد گار ہوتا ہے۔یہی نہیں بلکہ بچے جب کارخانے پہنچیں تو استاد سوال کرنے پر بچوں کو اُکسائے۔ اس عمل سے بچوں میں موجود جھجک ختم کی جا سکتی ہے۔ایسے ہی بچے تفسیر و حدیث کے عالم یا تعلیم تدریس، تحقیق یا سائنٹفک ریسرچ میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

تعلیم سے متعلق ایک بنیادی نکتہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے۔تعلیم کے تین ادوار ہیں۔ پرائمری، سیکنڈری اور جامعہ۔ پرائمری میں کیسے پڑھا جاتا ہے ہم یہ سیکھتے ہیں۔ سیکنڈری میں کیسے لکھا جاتا ہے یہ سکھا جاتا ہے اور یونیورسٹی پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ سوچا کیسے جا تا ہے،لیکن علم لائبریری میں بیٹھنے سے حاصل ہوتا ہے۔

موجودہ دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اب بچہ لائبریری نہیں جاتا۔ یہ ایک اچھے استاد کی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ بچے کو پرائمری ہی سے کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا کرے۔ خواہ وہ کتاب اسے سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ دوسری مشکل ہے ہمارے گھروں کا بے دینی اور غیر ادبی ماحول! جہاں پڑھنے لکھنے کا ذوق مفقود ہو چکا ہے۔ کسی مفکر کا قول ہے کہ وہ گھر قبرستان کی مانند ہے جہاں کوئی کتاب نہ ہو۔ اندلس (اسپین) ایک وقت میں اپنے شہروں میں موجود لائبریریوں کی کثرت پر ناز کیاکرتا تھا۔ یہی حال بغداد و قاہرہ کا تھا۔مغل عہد میں ہندوستان میں علم کا دور دورہ تھا۔ لائبیریریوں کی کثرت،مدرسوں کی بہتات تھی۔

قرآن کریم میں سات سو مقامات پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے اوریہ حکم تعلیم سے مشروط ہے۔ ظاہر ہے جو پڑھا لکھا ہوگا غور و فکر بھی وہی کرے گا۔ یعنی بغیر علم حاصل کئے اس عالم آب و گِل کے اسرار نہیں کھلیں گے۔حضرت معاذ ابن جبل سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ علم سے محرومی بدبختی ہے۔ ہر خشک و تر علم کے سبب مغفرت طلب کرتا ہے۔ یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں،خشکیوں کے چرند، پرند،درند اور حشرات علم ہی کی بدولت اللہ کی اطاعت و عبادت کرتے ہیں۔ ریاض الصالحین کی ایک حدیث کے مطابق فرشتے آسمانوں میں، چیونٹی اپنے بل میں، مچھلیاں سمندر میں معلم کے حق میں دعا کرتی ہیں۔

مسلمان جب بھی تعلیم سے دور ہوئے وہ بحیثیت قوم اپنی شناخت کھو بیٹھے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ علم مال اور سلطنت میں سے جسے چاہو منتخب کر لو۔ پیغمبر نے علم کو اپنے لئے پسند فرمایا۔ اللہ نے علم کی بدولت مال اور سلطنت کو حاصل کرنا آسان کر دیا۔

اس پر بھی سیمینار ہونے چاہئیں کہ عصری علوم کی ترسیل اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں۔ جس طرح ہم مدارس کے فارغین کے لئے خواہش مند ہیں کہ وہ جدید علوم کو شجرہ ئ ممنوعہ نہ سمجھیں۔ وہیں ہمیں اس بات کی تبلیغ بھی کر نی چاہئے کہ اسکول اور کالج کے طلبہ و طالبات دینی تعلیم سے بہر ہ ور ہوں۔ مرحوم الیا س تبسم فرماتے ہیں:

علم کا مقصد ہے سِرّ زندگی سے آگہی

زندہ رہنے کے شعور و آگہی سے آگہی

زیست کے لمحے بہت شوریدہ سر ہوتے تو ہیں

علم کا مقصد ہے شوریدہ سری سے آگہی