ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
دہلی ہائی کورٹ کی ایک ڈویژن بنچ ، جو جسٹس راجیو شکدھیر اور جسٹس سی ہری شنکر پر مشتمل ہے ، آج کل ایک پٹیشن کی سماعت کررہی ہے ، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بیوی سے زبردستی مباشرت کو قابلِ تعزیر جرم قرار دیا جائے۔ اسے ازدواجی عصمت دری کا نام دیا گیا ہے انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 375 میں بیوی سے زبردستی جنسی تعلق کو 'زنا بالجبر' (ریپ) سے باہر رکھا گیا ہے اور اسے جرم نہیں مانا گیا ہے۔ پٹیشن دائر کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس استثنا کو ختم کیا جائے اور جس طرح عورت کی مرضی کے بغیر کسی اجنبی شخص کا اس سے جنسی تعلق جرم ہے اسی طرح بیوی کی مرضی کے بغیر شوہر کے اس سے زبردستی مباشرت کرنے کو بھی قانونی طور پر جرم قرار دیا جائے ۔ یونین گورنمنٹ نے دہلی ہائی کورٹ سے کہا ہے کہازدواجی عصمت دری کو مجرمانہ عملپھ۰ نہیں قرار دیا جاسکتا ، جب تک تمام فریقوں سے اس موضوع پر بات چیت نہ کرلی جائے
میرے بعض احباب کا تقاضا ہے کہ اس موضوع پر میں اسلام کا نقطۂ نظر پیش کروں ۔کیا اسلام میں بیوی سے زبردستی جنسی تعلق قائم کرنے کی اجازت ہے؟
اس سلسلے میں چند نکات پیشِ خدمت ہیں
۔ (1) اسلام بعض باتوں کا محض اجمالی تذکرہ کرتا ہے اور ان کی تفصیلات انسانوں کی فطرت پر چھوڑ دیتا ہے ۔ البتہ جو سوالات لوگوں کی طرف سے آتے ہیں ان کا جواب وہ ضرور دیتا ہے ، چاہے وہ ایسے سوالات ہوں جن کے کرنے میں عموماً شریف لوگوں کو حیا دامن گیر ہوتی ہو
بعض صحابیات نے اللہ کے رسول ﷺ سے جنسی معاملات سے متعلق کوئی سوال کیا ، یا آپ نے خود کوئی وضاحت کی تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا :" اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا ۔" ( بخاری :6091 ، 6121 ، احمد : 21854 ،21858۔)
۔ (2) مغرب میں یہ موضوع کافی عرصہ سے زیر بحث ہے _ وہاں کے بعض ممالک میں قوانین بھی بن گئے ہیں کہ بیوی کی مرضی کے بغیر اس سے جنسی تعلق قائم کرنا غیر قانونی اور قابلِ تعزیر جرم ہے _ وہاں تو اس کا پس منظر محابا آزادی ہے کہ ہر شخص کو مطلق آزادی حاصل ہے ، کسی دوسرے کو اس پر قدغن لگانے کا حق نہیں ہے _ جنسی تعلق کسی سے اس کی مرضی سے ہی قائم کیا جاسکتا ہے ، اس کی مرضی کے بغیر نہیں ، حتی کہ بیوی کے معاملے میں شوہر کو بھی نہیں _ اب یہ موضوع ہندوستان میں بھی زیر بحث ہے _ آزادی کے متوالے یہاں بھی عورت کو مطلق آزادی دینا چاہتے ہیں ۔
۔(3) اسلام نے بالغ مرد اور بالغ عورت کے جنسی جذبہ کو تسلیم کیا ہے اور انہیں اس کی تسکین کا حق دیا ہے ، لیکن اس نے اس کے لیے واحد جائز صورت نکاح کو قرار دیا ہے _ نکاح کے بغیر کھلے اور چھپے ہر طرح کے جنسی تعلق کو اس نے حرام قرار دیا ہے
۔(4) زوجین کا باہم عملِ مباشرت ایک پسندیدہ اور مطلوب عمل ہے _ اس سے دونوں کو جسمانی اور نفسیاتی سکون ملتا ہے _ اللہ کے رسول ﷺ نے اس کو 'صدقہ' سے تعبیر کیا ہے ۔
آپ کا ارشاد ہےپھ’۰ وفي بضع أحدكم صدقة " تمھارا اپنی بیوی سے مباشرت کرنا صدقہ ہے ۔
یہ بات صحابۂ کرام کو عجیب سی لگی ۔ انھوں نے سوال کیا : " اے اللہ کے رسول ! کیا ہم میں سے کوئی اپنی جنسی خواہش پوری کرے تو اس پر بھی اسے اجر ملے گا ؟" آپ نے اس سوال کا بڑا پیارا سا جواب دیا آپ نے فرمایا : " اگر وہ حرام کاری کرتا تو اسے اس کا گناہ ملتا اسی طرح اگر اس نے جائز طریقے سے اپنی خواہش پوری کی تو اس پر اسے ضرور اجر ملے گا
( مسلم : 1006۔) ۔ (5) اگر شوہر اور بیوی جنسی عمل مکمل موافقت اور ہم آہنگی سے کریں تو اس میں بہت زیادہ لذّت اور سرور حاصل ہوتا ہے _ حدیث میں اسے 'عُسَیلة' (شہد جیسی مٹھاس) سے تعبیر کیا گیا۔ ایک عورت کو اس کے شوہر نے تین طلاق دے دی ۔ اس عورت نے دوسرے سے نکاح کرلیا ، لیکن اسے اس کے پاس تسکین حاصل نہیں ہوئی تو اس نے دوبارہ پہلے شوہر کے پاس جانا چاہا ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : نہیں ، اس کے لیے ضروری ہے کہ تمھاری اس سے مباشرت بھی ہوجائے ، پھر وہ تمہیں طلاق دے دے۔
لَا ، حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ( بخاری : 2639 ، مسلم : 433)
نہیں ، یہاں تک تم اس کا مزہ چکھ لو اور وہ تمھارا مزہ چکھ لے ۔
۔ (6) حدیث میں بیوی کو حکم دیا گیا ہے کہ جب شوہر اس سے مباشرت کا تقاضا کرے تو اگر اسے کوئی عذر نہ ہو تو انکار نہ کرے _ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : " شوہر بیوی کو بلائے تو وہ فوراً چلی جائے ، چاہے وہ تنّور پر بیٹھی ہو۔
" ( ترمذی : 1160) ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا : " اگر شوہر رات میں اپنی بیوی کو مباشرت کے لیے بلائے ، لیکن وہ نہ جائے تو فرشتے صبح تک اس پر لعنت کرتے ہیں ۔" ایک روایت میں ہے کہ " اوپر والا اس سے اُس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک شوہر کی ناراضی دور نہ ہوجائے ۔" (مسلم : 1436)
ٹھیک یہی حکم شوہر کے لیے بھی ہے کہ اگر بیوی کو مباشرت کی خواہش ہو اور وہ اس کا اشارہ کرے تو شوہر اس کی خواہش پوری کردے اور انکار نہ کرے ۔ یہ بات اگرچہ احادیث میں صراحت سے نہیں کہی گئی ہے ، لیکن یہ عین مطلوب ہے نکاح جنسی تقاضے کی جائز تسکین کے لیے مشروع کیا گیا ہے _ اس لیے شوہر اور بیوی دونوں کی ذمے داری ہے کہ اپنے جوڑے کے جنسی تقاضے کی تکمیل میں تعاون کرے
۔ (7) زوجین کے درمیان جنسی تعلق کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اس میں اعتدال ہونا چاہیے _ اس میں زیادتی سے شوہر اور بیوی دونوں کی صحت پر برے اثرات پڑتے ہیں اعتدال کی کوئی حد قائم نہیں کی جا سکتی _ بعض اطباء نے ہفتہ میں ایک بار مباشرت کو صحت کے لیے بہتر قرار دیا ہے ، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس معاملے میں زوجین خود فیصلہ کرسکتے ہیں اور اپنی مرضی سے اس میں کمی بیشی کرسکتے ہیں ۔
۔ (8) اگر اس معاملے میں زوجین میں سے کسی کی طرف سے آمادگی نہ پائی جائے شوہر کی خواہش ہو ، لیکن بیوی آناکانی کرے ، یا بیوی کی خواہش ہو ، لیکن شوہر کسی دوسرے کام میں مصروف ہو تو دوسرے فریق کو کچھ رعایت دینی چاہیے اور اس پر اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے _ اس معاملے میں شوہر پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صبر و ضبط کا مظاہرہ کرے ۔ اس لیے کہ عورت مختلف مزاجی کیفیات سے گزرتی ہے ۔ حیض سے قبل اس میںچڑچڑاپن ہوسکتا ہے ، بچے کو دودھ پلانے کی مشقّت ہوسکتی ہے ، یا دوسرے گھریلو مسائل درپیش آسکتے ہیں
۔ (9) اگر کوئی عورت عملِ مباشرت پر آسانی سے آمادہ نہیں ہوتی اور مسلسل انکار کرتی ہے تو اس کے اسباب جاننے کی کوشش کرنی چاہیے ، پھر ان اسباب کو دور کرنا چاہیے ۔۷ اِس موضوع پر اُس سے کھل کر بات کرنی چاہیے _ بسا اوقات عورت کی شرم گاہ بہت تنگ ہوتی ہے ، جس کی بنا پر مباشرت سے وہ شدید اذیت محسوس کرتی ہے ۔اگر ایسا ہے تو معمولی آپریشن سے اس کی اصلاح ہوسکتی ہے ۔
۔ (10) اگر زوجین میں سے ایک کی جنسی ضرورت دوسرے سے مستقل طور پر نہیں پوری ہوپارہی ہو تو شریعت نے اس مسئلے کو بھی حل کیا ہے ۔رتف۵۴ اگر بیوی کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو جس کی وجہ سے وہ شوہر کی جنسی خواہش کی تکمیل سے قاصر ہو تو شوہر دوسری شادی کرسکتا ہے اور اگر شوہر کسی مرض کی وجہ سے بیوی کی جنسی خواہش کو پورا نہ کر پارہا ہو تو عورت خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے ۔
۔ (11) خلاصہ یہ کہ بیوی کو آمادہ کیے بغیر اس سے زبردستی جنسی تعلق قائم کرنا اگرچہ پسندیدہ نہیں ، لیکن اسے قابلِ تعزیر جرم قرار دینا اسلامی نقطۂ نظر سے درست نہیں ہے _ اسلام اس کی تائید نہیں کرتا