.jpg)
ڈاکٹر عمیر منظر
ایسوسی ایٹ پروفیسر
مانو لکھنؤ کیمپس
ہمارے ذہنوں میں ہمیشہ سے ایک صاف و شفاف دنیا تصور رہا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ یہ دنیا بہت صاف و شفاف تھی۔ایک طویل زمانہ گذر جانے کے بعد بھی قدرتی مناظر ہمارے دل و نگاہ کواپنی طرف متوجہ ہی نہیں کرتے دل و نگاہ کو اپنی قید میں لے لیتے ہیں۔سیرو تفریح کے لیے لوگ آج بھی انھیں مقامات کا رخ کرتے ہیں جہاں قدرت کا حسن بے بہااپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ دنیا کے بے شمار علاقے قدرت کی جمالیاتی فیاضیوں کے گواہ ہیں۔یہ مناظر آج بھی دنیا کے تروتازہ ہونے کی گواہی پیش کرتے ہیں۔ لیکن انسان کو کیا کہا جائے۔اس کی خواہشوں نہ کل قابومیں تھیں اور نہ آج۔اپنی انھی بے جا خواہشوں کے سبب وہ اس دنیا کو آلودہ کرتا رہتا ہے۔اور اب تو صورت بے حد بھیانک رخ اختیار کرتی جارہی ہے۔صنعتی ترقی نے فضا پر جو ظلم ڈھائے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں دلی کا شمار ہوتا ہے۔حالانکہ اس فہرست میں بیجنگ،کراچی،لاہوراور تہران کے نام بھی شامل ہیں۔ فضائی آلودگی خودسے نہیں آتی بلکہ انسانوں نے اپنے ہاتھوں سے اسے کمایا ہے۔کارخانے،دھواں،گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ،جنگلات کی کٹائی وغیرہ اس کے اہم اسباب ہیں۔شاعروادیب اس صورت حال سے بے خبر کیسے رہ سکتاہے۔آج دنیا کا یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔مشہور شاعر عالم خورشید نے بھی اس کرب کو محسوس کیا اور اپنے جذبات کا اظہار لفظوں کے وسیلے سے کچھ اس طرح کیا ۔بقول عالم خورشید
پوچھ رہے ہیں مجھ سے پیڑوں کے سوداگر
آب و ہو ا کیسے زہریلی ہوجاتی ہے
عالم خورشید نے اس صورت حال پر کیا عمدہ شعر کہا ہے۔اس شعر میں تبصرہ بھی ہے اور طنز بھی۔بلکہ شعر میں اک نوع کی تجاہل عارفانہ کی کیفیت ہے۔آب و ہوا کے زہریلے ہونے کاسبب معلوم ہے۔یعنی جو سبب ہے وہی معلوم کررہا ہے کہ آخر ایسا کیسے ہورہا ہے۔پیڑوں کے سوداگر کا استعمال بھی خوب کیا ہے۔اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتاہے کہ کس سبب سے آلودگی ہے یہ سب کو معلوم ہے مگر جان بوجھ کر سوال کیاجارہا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔شعر کا یہ بھی ایک حسن اور کہنے والے کا طور اسے قرار دیا جاسکتاہے۔استفہام میں ہی جواب پوشیدہ ہے۔
غزل میں مضمون کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے اس لیے اس کے مختلف پہلوؤں کو شعرا نے باندھنے کی کوشش کی ہے۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ آلودگی کی زیادتی سے وہ خوشبو اور نکہت ختم ہوجاتی ہے جو قدرت نے اپنی فیاضیوں کے سبب زمین کی عطا کی ہے۔مٹی اور فضا کی ایک خاص خوشبو ہوتی ہے۔آسمان جب دھل دھلاجائے تو اس کا خاطر خواہ اندازہ ہوتا ہے بصورت دیگر کچھ پتا نہیں چلتا۔قطب سرشار کا شعر ہے۔
آلودگی میں لذت نکہت فنا ہوئی
خوشبو کا مول کچھ نہیں سرشار شہر میں
جون ایلیا کی ایک مشہور غزل کا شعر ہے جس کو اس تناظر میں پڑھا جاسکتا ہے۔
ہے نسیم بہار گرد آلود
خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا
شعر و ادب میں آلودگی اور فضائی آلودگی جیسے سنگین مسائل پر تبصرے اور اشارے موجود ہیں۔نظموں میں اس دکھ کا اظہار کچھ زیادہ ہی ہے۔شعرا نے مختلف انداز میں اس مسئلے کو باندھا ہے۔اور کسی حد تک عوامی بیداری لانے کی کوشش کی ہے۔یہاں شاعری پر گفتگو کرنے سے پہلے ضرروری معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت فضائی آلودگی کے حوالے سے دلی کا جو حال ہے اس پر ایک نظر ڈال لی جائے تاکہ اندازہ کیا جاسکے کہ حالات کس قدر سنگین ہوچکے ہیں۔ملاحظہ فرمائیں:
”دہلی اور قومی راجدھانی علاقہ (این سی آر) ایک بار پھر شدید فضائی آلودگی کی لپیٹ میں ہے۔ ہفتہ کی صبح بھی بیشتر علاقوں میں اے کیو آئی ’بہت خراب‘ سے ’سنگین‘ درجے تک ریکارڈ کی گئی، جس نے شہریوں کی روزمرہ زندگی اور صحت دونوں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ ماہرین کے مطابق موجودہ حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ پورا خطہ تیزی سے ایک ’گیس چیمبر‘ میں تبدیل ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔ایئر کیوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) متعدد علاقوں میں 400 سے اوپر پہنچ چکا ہے اور کئی مقامات پر یہ سطح 500 کے قریب درج کی گئی، جسے آلودگی کا انتہائی سنگین درجہ تصور کیا جاتا ہے۔رپورٹوں کے مطابق این سی آر کے مختلف شہروں میں آلودگی کی صورتحال مسلسل بگڑ رہی ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق اس درجے کی آلودگی نہ صرف مریضوں بلکہ صحت مند افراد کے لیے بھی خطرہ بن جاتی ہے۔ مسلسل ’بہت خراب‘ فضا میں سانس لینے سے دمہ، الرجی، کھانسی، آنکھوں میں جلن اور سانس کی تکالیف میں اضافہ ہوتا ہے۔ ’سنگین‘ سطح کے آلودہ ماحول میں یہ اثرات کہیں زیادہ شدید ہو جاتے ہیں اور پہلے سے بیمار افراد—خصوصاً بزرگوں، بچوں اور دل کے مریضوں —کی صحت پر اس کے خطرناک نتائج مرتب ہوتے ہیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق آئندہ چند روز میں کم از کم درجہ حرارت 10 سے 11 ڈگری اور زیادہ سے زیادہ 25 سے 26 ڈگری سیلسیس کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔ ہوا کی رفتار میں کمی اور درجہ حرارت کے اتار چڑھاؤ نے فضائی آلودگی کے ذرات کو فضا میں جم جانے کا موقع فراہم کیا ہے، جس سے آنے والے دنوں میں حالات مزید بگڑنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

دلی تعمیر و تخریب کامرکز کہی جاسکتی ہے۔اس سے محبت کرنے والوں نے اسے سجایا بھی اور انسانیت کے دشمنوں نے اس کو برباد وتاراج کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔مصحفی کا یہ شعر آج بھی دلی پر صادق آتا ہے۔
دلی پہ رونا آتا ہے کرتا ہوں جب نگاہ
میں اس کہن خرابے سے تعمیر کی طرف
مذکورہ صورت حال ایک دوسری طرح کی تاراجی ہے۔یعنی ترقی کے نام پر کچھ ایسے اسباب سامنے آگئے کہ جو پورے ماحول کے لیے ایک سنگین صورت حال بن چکے ہیں۔عاصم واسطی نے اپنے شعر میں عام شہری مسائل کو آئینہ دکھایا ہے مگر محسوس یوں ہوتا ہے کہ جیسے یہ شعر دلی والوں کے لیے کہا گیا ہو۔
نہیں ہے شہر میں چہرہ کوئی تروتازہ
عجیب طرح کی آلودگی ہوا میں ہے
اس مضمون سے قریب تر دلی کو شامل کرکے پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کا ایک شعر بہت مشہور ہوا اور اسے دلی کی آلودگی کے حوالے سے خبروں کی زینت بھی بنا۔
چہرے پہ جس کے دیکھیے گرد ملال ہے
جو دل کا حال ہے وہی دلی کا حال ہے
دلی سے متعلق خبر میں فضائی آلودگی کے سبب جن مسائل سے عام انسان دوچار ہے اس کی شعری تصویر عاصم واسطی کے یہاں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔اسی تناظر میں عزیز لکھنؤی کا ملاحظہ کریں ؎
دل کی آلودگی زخم بڑھی جاتی ہے
سانس لیتا ہوں تو اب خون کی بو آتی ہے
اردو نظموں میں یہ صورت بالکل تبدیل ہوجاتی ہے کیونکہ وہاں براہ راست کہنے کی گنجائش زیادہ ہے حالانکہ جدید شعرا نے شعری علائم کے سہارے ا س موضوع کو اد ا کرنے کی کوشش کی ہے۔
امجد اسلام امجد کی ایک معری نظم مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے کے نام سے ہے۔ان کا خیال ہے کہ قدرت نے جو نعمتیں اس دھرتی کو صاف پانی،بارش،ہوا اور چاندنی کی شکل میں عطاکی ہیں یہ کسی ایک کی نہیں بلکہ یہ ابن آدم کی جاگیر ہیں ان پر سب کا حق ہے۔چند مصرعے ملاحظہ فرمائیں
اک ذرا سوچیے اب کہ کیا صاف ہے
موت سے پر خطر ہے یہ آلودگی
دوستو دل میں تھوڑی کسک چاہیے
مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے
افضال ندیم سید اپنی ایک نثری میں لکھتے ہیں ؎
ماحولیاتی آلودگی کا خیال کرتے ہوئے
وہ کوئی بوسہ نہیں دیتی
اس کا تکیہ
دنیا کے تمام عاشقوں کے آنسو
جذب کرسکتاہے
کوثر صدیقی نے اپنی ایک نظم آلودگی مٹائیں میں واضح پیغام دینے کی کوشش کی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح ماحول کو آلودگی سے بچایا جاسکتاہے۔
آلودگی مٹائیں
ماحول کو بچائیں
ہریالیاں بڑھا ئیں
پھل پھول خوب اگائیں
یہ نظمیں اپنے عہد اور زمانے کے نوحے سے بھی تعبیر کی جاسکتی ہیں اور یہ بھی کہ یہ شعرا جن ادبی قدروں اور رجحانوں سے وابستہ تھے نظم میں اس کی بھی جھلک موجود ہے۔
شاعری کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنے عہداور زمانے کی ترجمان ہو لیکن اس کی اگر کوئی بہتر صورت نکل جائے تو اس سے کوئی مضائقہ نہیں۔اس وقت دنیا جن سنگین مسئلوں سے دوچار ہے ان میں فضائی آلودگی کا مسئلہ بہت سنگین ہے اس کو شاعری کی صورت میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔