کورونا کی وبا: چند معروضات

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-05-2021
 وبا کے اس   دور میں ایسا لگتا ہے کہ موت ہمہ وقت ہمارے بیچ رقصاں ہے
وبا کے اس دور میں ایسا لگتا ہے کہ موت ہمہ وقت ہمارے بیچ رقصاں ہے

 

 

 

  پروفیسر اخترالواسع  

ایک بار پھر رمضان کا مبارک مہینہ کورونا کی مہاماری کے دوران آیا ہے۔ کون سا ایسا دن ہے جب موت کی خبریں نہ آتی ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ موت ہمہ وقت ہمارے بیچ رقصاں ہے اور ہم جو زندہ ہیں وہ صرف ماتم کرنے کے لئے بچے ہوئے ہیں۔ ابھی ایک موت کی خبر سن کر آنکھ کی نمی دور نہیں ہو پاتی کہ کسی دوسری موت کی خبر ہماری آنکھوں کو ایک بار پھر گیلا کر دیتی ہے۔ ہمارے چاروں طرف وہی حال ہے جسے کبھی میر تقی میرؔ نے یوں بیان کیا تھا کہ

مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

ایک ایسے وقت میں جب کہ زندگی کے بازار میں موت کے علاوہ کچھ ارزاں نہیں رہا۔ اسپتال میں بستر نہیں، آکسیجن نہیں، دوائیاں نہیں، شمشان گھاٹ اور قبرستانوں میں صرف اتنا ہی نہیں کہ جگہ ہی نہیں بلکہ آخری رسومات ادا کرنے والے بھی نہیں۔ کیسا وقت آیا ہے کہ جب اپنوں کو اپنے کندھا اور تین مٹھی مٹی بھی نہیں دے سکتے۔ اور یہ سب کچھ مجبوری کا نتیجہ ہے کہ یہ بے بسی اس لئے ہے کیوں کہ کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ کورونا کا دوسرا حملہ اتنا بے محا با اور شدید ہوگا۔

اس صورتحال کا مقابلہ ہمیں اسی طرح کرنا ہے جس طرح ملک کے طول و عرض میں بہادر لوگ مشنری جذبے کے ساتھ کر رہے ہیں اور بلا تفریق مذہب و ملت کر رہے ہیں۔ دکھ کے ان لمحوں اور بپتا کی ان گھڑیوں میں کوئی کسی کے مذہب اور ذات پات کو پوچھ رہا ہے اور نہ ہی ان رسومات کو جن کی ادائیگی سے گریزاں ہے جن کو عام دنوں میں وہ خود نہیں مانتا تھا۔ رمضان کے مبارک مہینے میں جو خدا سے لو لگانے، اپنے نفس پر قابو پانے اور لوگوں کے کام آنے کا مہینہ ہے ہر مسلمان اسی مہینے میں زکوٰۃ، صدقات اور فطرے کی ادائیگی کرتا ہے، غریبوں کے کام آتا ہے، کورونا کی اس وبا کے زمانے میں ہمارا یہ سماجی فرض بھی ہے اور مذہبی بھی کہ ہم بھی ان لوگوں کی مدد کو آگے آئیں جو اس وبا کا شکار ہیں اور جن کے گھر والے اس مہاماری کے دور میں گھروں کے روزمرہ کے اخراجات اٹھانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں، جن کے یہاں کمانے والے نہیں رہے اور اگر ہیں بھی تو علاج معالجے کے لئے مدد کے منتظر ہیں۔ 

ایسے وقت میں بیماروں، ضرورت مندوں کی مدد کے لئے ہمیں آگے آنا چاہیے، انفرادی اور اجتماعی کوششوں سے مل جل کر ایسا نظم قائم کرنا چاہیے کہ لوگوں کی مدد بھی ہو سکے اور کورونا کو شکست بھی دی جا سکے۔ بحیثیت مسلمان کے ہمیں خاص طور پر سراپا رحمت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حسن عمل کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب مکہ والوں کی انتہائی دشمنی کے باوجود ان کے قحط کا شکار ہونے پر آپ نے مدینہ منورہ سے ان کے لئے سامان رسد مدد کے طور پر بھیجا۔ ہمیں بھی اس وقت اسی طرح سب کی مدد کے لئے آگے آنا چاہیے کیوں کہ یہاں تو خیر سے سب ہمارے اپنے ہیں۔

خدا کا شکر ہے کہ ایک ایسے زمانے میں جب نفسہ نفسی کا عالم ہے، ملک کے الگ الگ حصوں میں انسان دوستی جذبے کی صداقت اور جوش و خروش کے ساتھ لوگ آگے آ رہے ہیں، عباد گاہوں جن میں مساجد بھی شامل ہیں کو کورونا کے علاج کے لئے اسپتالوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے، گرودواروں اور مسجدوں سے آکسیجن لنگر میں تقسیم کی جا رہی ہے۔ گیان دیو پربھاکر جیسا پولیس ہیڈ کانسٹبل بمبئی میں ان میتوں کی آخری رسومات مرنے والے کے عقیدے کے مطابق انجام دے رہا ہے جن کا کوئی ولی وارث نہیں یا کورونا کے خوف سے جن کے اپنے آگے آنے کو تیار نہیں اور گیان دیو ہی نہیں معین مستان گروپ اورنگ آباد میں، انور پٹھان بھوپال میں، ایوت محل میں چار مسلم نوجوان اس خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور اسی طرح ناگپور میں ایک مخیر ٹرانسپورٹر پیارے خاں نے اب تک ایک کروڑ کی آکسیجن کا ذاتی طور پر انتظام کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انسانیت ابھی زندہ ہے اور کورونا کے قہر سامانی جیسی بھی ہو وہ انسانی دردمندی کو شکست نہیں دے سکتی۔

حاجت مندوں کی ہر ممکن مدد کرنے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ان تمام ضروری ہدایتوں کی پابندی کریں جو ڈاکٹروں اور سرکاری ایجنسیوں نے ہمیں بتائی ہیں۔ ماسک کا دکھاوے کے لئے نہیں بلکہ سچ مچ اور مؤثر استعمال کرنا چاہیے۔ بلا وجہ گھروں سے نہ نکلیں، ضروری جسمانی فاصلہ بنا کر رکھیں، اپنے آپ کو سینیٹائز کرتے رہیں اور ان سب کے ساتھ ہی کورونا کا ٹیکہ ترجیحی بنیادوں پر لگوائیں۔ یہ بڑے خوشی کی بات ہے کہ علمائے دین نے جن میں کہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا ابوالقاسم نعمانی نے خود ٹیکہ لگوا کر ایک مثال بھی قائم کی اور ہم سب کو ایک راستہ دکھایا۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ مفتیان شرمتین یہ فتویٰ دے چکے ہیں کہ روزے کی حالت میں بھی ٹیکہ لگوایا جا سکتا ہے۔

 

یہاں وہ تمام لوگ جو ٹیکہ کے بارے میں کسی وسوسے اور واہمے کا شکار ہیں انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور زندگی ہمارے پاس خدا کی امانت ہے جس کی حفاظت ہمارا فرض اولین ہے۔ وہ لوگ جو اس سلسلے میں افواہیں پھیلا رہے ہیں، غلط فہمیوں کو عام کر رہے ہیں، کورونا سے متعلق دائیوں اور آکسیجن کی کالا بازاری کر رہے ہیں وہ انسانیت کے دشمن ہیں۔ ہمیں ان تمام لوگوں سے ہوشیار رہنا چاہیے اور ان کے شر اور فریب سے سماج کو محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ ان بکھرے بکھرے خیالات اور معروضات کے ساتھ آخر میں ایک گزارش یہ بھی ہے کہ ہم سب خدا کے سامنے سر بہ سجود ہو کر گڑگڑائیں، توبہ و استغفار کریں، اور دعا کریں کہ وہ اس وبا سے تمام انسانیت کو نجات دے، سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)