دستورہند اور اقلیتوں کے حقوق

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
دستورہند اور اقلیتوں کے حقوق
دستورہند اور اقلیتوں کے حقوق

 

 

awazthevoice

ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی

استاد دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنوَ

پچیس۔جنوری1950ء ہندوستان کی تاریخ کا ایک یادگار دن ہے۔ یہ ہم سب کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن دستور ہند نافذ ہواتھا۔ دنیا کے دوسرے آئینوں کے مقابلہ ہندوستان کا آئین سب سے بہترین تصور کیا جاتاہے۔ یہ ایک تحریری اور جامع دستاویز ہے جس میں 395دفعات (اب404) اور12 ترتیب کار ہیں۔ آر سی مجومدار کہتے ہیں:’’آئین تمام شہریوں کوعوامی تحفظ وسلوک کی شرط پر آزادیَ گفتار وخیال کی ضمانت دیتاہے ۔ تمام شہری، مذہب ، نسل، برادری، جنس اور جائے پیدائش سے قطع نظر قانون کی نظر میں برابر ہوں گے اور کوئی بھی معذوری کسی بھی معاملے میں ان پر عائد نہیں ہوگی ۔ ’’چھواچھوت‘‘ کو کالعدم قراردیاجاتاہے اوراس پر کسی بھی شکل میں عمل ممنوع ہے ۔ کسی بھی شخص کو اس کی زندگی، جائداد یا نجی آزادی سے محروم نہیں کیاجائے گا الا یہ کہ کسی قانونی کاروائی کے تحت ہو۔

(An Advanced History of India,P.992)

       ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ ہندوستان مختلف تہذیبوں، ثقافتوں اور مذاہب کا گہوارا رہا ہے۔اس کا ایک اجتماعی معاشرہ ہے۔

یہ امن، میل جول، بھائی چارہ ، اخوت، اتحاد اور یگانگت کے لئے جاناجاتاہے ۔ یہ مختلف کوہ پیکرہستیوں جیسے گوتم بدھ، مہاویر، گرونانک، مہاتما گاندھی، کبیر، جواہر لال نہرو، راجہ رام موہن رائے، ایشور چندر ودیا ساگر، ڈاکٹر بی آرامبیڈکر، رابندرناتھ ٹیگور، مولاناحسین احمد مدنی، قاضی نظر الاسلام، سوامی وویکانند، نیتا جی سبھاش چندر بوس، ٹیپو سلطان، مولاناحسرت موہانی، خان عبد الغفار خان،مولانا محمد علی جوہر، سرسید احمد خان،ڈاکٹر ذاکرحسین، مولاناسید ابو الحسن علی حسنی ندوی وغیرہ کی جائے پیدائش ہے۔

ان سبھی روشن میناروں نے اپنے اپنے عہد اور دور میں بھائی چارہ اور اخوت کا درس دیاہے ۔ وہ آج نہیں ہیں ، لیکن ان کی ہدایات اور ان کے پیغامات آج ہ میں اس سرزمین پر پرامن زندگی گزارنے کا حوصلہ عطاکرتے ہیں۔’’ہندوستان ایک قابل ذکر جمہوری ملک ہے،اسے اقلیتوں کا وفاق بھی کہاجاسکتاہے ۔ اس کے دستور میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق، آزادی، وجاہت اور انصاف کی ضمانت دی گئی ہے ۔نسل، مذہب،علاقہ کے نام پر تعصب اور امتیاز کی نفی کی گئی ہے ۔ جمہوریت، روادری اور سیکولرزم یعنی غیر مذہبی جانب داری کو حکومت کا سنگ بنیادبنایاگیاہے ۔ یہ بجائے خود اقلیتوں کے ساتھ، تنگ نظری، امتیاز، تعصب اور تشدد کے رویہ کی اجازت نہیں دیتا ۔ اس کے علاوہ دستور میں خاص طورپر اقلیتوں کے مذہبی ،ثقافتی اور تعلیمی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے.

دستور کی دفعہ 25تا 28 میں اقلیتوں کو اپنا پسندیدہ مذہب اختیار کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی آزادی شامل ہے، جب کہ دستور کی دفعہ29 تا 30 میں زبان اور تہذیب کی حفاظت کرنے اور اپنی پسند کے تعلیمی ادارے کھولنے اور چلانے کی خصوصی رعایت دی گئی ہے اور ان اداروں کو حکومت کی امداد فراہم کرنے کی بھی حمایت کی گئی ہے۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی حکومت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر ایسے ذراءع اختیار کرتی ہے اور ایسی مراعات دیتی ہے جو ان کو عام شہریوں کے مساوی لے آئیں تواسے اقلیت نوازی نہیں کہاجاسکتا، کیونکہ حکومت نے ملک کے دیگر پسماندہ طبقات کو تعلیم اور ملازمت میں ریزرویشن عطاکرکے سماج کے ترقی یافتہ طبقات کے برابر لانے کی سعی کی ہے۔

اسی طرح اگرکوئی اقلیت اپنے مذہبی، گروہی، لسانی حقوق کے تحفظ کے لئے پرامن جدوجہد کرتی ہے ، اپنے تہذیبی تشخص اور تعلیمی نظام کے قیام کے لئے کوشش کرتی ہے اور اپنی خوشحالی اور سماجی مساوات کے حصول کے لئے سرگرمیاں انجام دیتی ہے تواسے قومی دھارے سے علیحدگی اور قومی مفادات کی مخالفت سے تعبیر نہیں کیاجاسکتا۔اس کے مقابلہ میں اگر حکمراں جماعت اقلیت کے مذہبی حقوق پردست درازتی کرتی ہے، اس کے تہذیبی تشخص کو پامال کرنے کی اور اس کی زبان کو کاٹنے کی کوشش کرتی ہے اور اس کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہے تواسے اقلیتوں کے حقوق کے قومی اوربین الاقوامی دستور اور آئین کی خلاف ورزی قراردیاجائے گا۔

آئینی پیش بندیوں اور دستوری یقین دہانیوں کے باوجود یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ عملی طورپر اقلیتوں کو بالعموم حکومت اور اکثریت دونوں کی جانبداری اور معاندانہ طرز عمل کا سامنا کرناپڑتاہے ۔ گویامحض دستوری یقین دہانی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کافی نہیں ہوئی جب تک کہ قانون اور پالیسی بنانے والے اداروں اور افراد کا رویہ اقلیت کے بارے میں درست نہ ہو، اور انتظامیہ کا ذہن تعصب، تنگ نظری اور معاندانہ جذبے سے پاک نہ ہو ۔ یعنی نظریہ جب تک عمل میں نہ ڈھلے اس کی افادیت بے معنی رکھتی ہے ۔اپنے ملک بھارت میں گزشتہ ستر سالوں کا تجربہ بتاتاہے کہ دستورکی دفعات کے حروف تو بہت سنہرے ہیں مگر اقلیتوں کو زندگی کے مختلف شعبوں میں حکومت اور اکثریت کی طرف سے جو زخم لگے ہیں وہ بہت گہرے ہیں ، یہاں تک کہ ایک حساس دانشور کو یہ کہنا پڑاہے:

ایک دو زخم نہیں جسم ہے سارا چھلنی

درد بیچارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے

اس دردناک صورتِ حال کی حقیقی تصویر سچر کمیٹی کے رپورٹ ہے جسے گورنمنٹ آف انڈیا نے 2005ء میں شاءع کی ہے ۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی طاقت مسلمانوں کے ساتھ ساٹھ سالوں میں مختلف سطح پر جونا انصافی اور حق تلفی ہوئی ہے اس نے مسلمانوں کو ملک کے سب سے کمزور طبقہ میں پہنچادیاہے اور ان کی معاشی حالت کو قابل رحم بنادیاہے اس نا انصافی کی ایک شکل تو دستور کے علی الرغم ایسے قانون اور پالیسیوں کا نفاذ ہے جن کی زدبراہ راست اقلیت کے حقوق پر پڑتی ہے۔ مثلًا دستور میں کسی بھی مذہب کو اختیار کرنے اور تبلیغ کرنے کی آزادی دی گئی ہے مگریہ آزادی1950ء کے صدارتی حکم نامہ کے تحت سلب کرلی گئی ہے ۔ اس طرح کہ جب کوئی سرکاری مراعات یافتہ دلت اسلام یا عیسائیت قبول کرلیتاہے تو تعلیم اور ملازمت میں دلتوں کو دی گئی مراعات چھین لی جاتی ہیں ۔ یعنی یہ مراعات ہندومذہب کے لئے مخصوص ہوگئی ہے ۔ جبکہ دستور کی دفعہ نمبر 14جوملک کے تمام شہریوں کو مساوات عطاکرتی ہے کسی مذہبی وابستگی کو غیر متعلق قراردیتی ہے ۔ اس لئے تبدیلیَ مذہب کی صورت میں مراعات چھین لینا دستور کی مکمل خلاف ورزی ہے اور اس کے ساتھ یہ اقلیتوں کی حق تلفی ہے ۔

اس قانون کا مضحکہ خیز عنصر یہ ہے کہ1956ء میں اس حکم نامہ میں ترمیم صرف سکھ مت اور بدھ مت کے لئے کی گئی ۔ اگر کوئی دلت بدھ مت یاسکھ مت قبول کرلے تو مراعات ختم نہیں کی جائیں گی بلکہ صرف اسلام اور عیسائیت اختیار کرنے کی صورت میں ختم کی جائیں گی اسی طرح قومی ملازمتوں بالخصوص، فوج، نیم فوجی دستوں ، پولیس اورانتظامی محکموں میں اقلیتوں کو کم سے کم نمائندگی دینے سے متعلق حکومت جو پالیسی اختیار کرتی ہے یا جو سرکاری اہل کاروں کے نام سرکلر جاری کرتی ہے یا اقلیتوں کے اداروں اور تنظیموں پر خصوصی نگاہ رکھنے کی جوہدایت دیتی ہے اس سے اقلیتوں کے خلافی سیاسی، معاشی اور سماجی سطح پر تعصب اور حق تلفی کا ماحول پیداہوتاہے۔

نئی دہلی کی فوجی تربیت کے ایک سرکاری ادارہ سے جب یہ سوال کیاگیاکہ اقلیتوں کو فوج میں کیوں نظرانداز کیاجاتاہے;238; کیاکوئی قانونی ہدایت ہے;238; تو سربراہ کا جواب تھا کہ قانون نہیں غیر تحریری پالیسی ہے‘‘ ۔ (اقلیتوں کے حقوق اور اسلاموفوبیا، صفحہ 386-388) ’’ہندوستان کے موجودہ ماحول میں ہندوتوکے علمبردار مسلم اقلیت کے ساتھ جس ظلم وبربریت کا ننگاناچ کررہے ہیں ، وہ بھی دراصل اسلاموفوبیا ہے ۔ یہ جلتے ہوئے مکانات، یہ جھلسی ہوئی لاشیں ، یہ لٹنے والا مال واسباب، یہ سنگینوں پر اچھالے جانے والے ننھے منے بچے، یہ حاملہ ماؤں کی لٹتی ہوئی آبروئیں ،یہ ہوس پرستوں کا ہجوم، یہ شہید ہونے والی مساجد ، یہ اکھاڑے جانے والے مقابر، یہ بے روزگاری کا علانیہ کھیل، یہ نہ ختم ہونے والا افلاس، یہ نہ ختم ہونے والی درندگی،یہ انصاف کے متوالوں سے صادر ہونے والے ظالمانہ فیصلے، یہ پرسنل لا میں مداخلت کرنے کا کھلم کھلا اعلان، یہ یکساں سول کوڈ کی لٹکتی تلوار، یہ مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ بتانے والے لوگ، آتنگ واد کے نام پر نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھے جانے کا غیرقانونی اقدام، یہ ملت اسلامیہ کو مجموعی طورپر تعلیم سے محروم رکھنے کا خفیہ منصوبہ۔

چھپاکرآستیں میں بجلیاں رکھی ہیںگردوں نے

عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں

گزشتہ ستر سالوں سے ہندوستان کی مسلم اقلیت کے ساتھ یہ ظلم ہورہاہے ۔ آزادی کے بعد سے ہی ہندوتو کے علمبرداروں نے مسلمانوں کے ساتھ اپنے ناپاک منصوبوں کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کرلیاتھا ۔ ان کے ارادہ ومنشا کو پوراکرنے کے لئے فرقہ وارانہ فسادات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیاتھا ۔ جبلپور کووہ خونیں منظر کس کو یاد نہیں ؟ مرادآباد میں عین عید کے موقع پر شہید ہونے والے ہزاروں بچوں کو کوئی بھول سکتاہے؟ بھیونڈی میں کارخانوں میں آگ لگانے والوں کو کوئی معاف کرسکتاہے؟ میرٹھ کے فساد میں خودپولیس کے ذریعہ دریا میں بہائی جانے والی مسلم نوجوانوں کی لاشوں کو کوئی فراموش کرسکتاہے؟جمشید پور میں کام کرنے والے مسلمانوں کو تہ تیغ کرنے کی کہانی کو کیا بھلایاجاسکتاہے؟اورگجرات میں بیس ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو آگ میں زندہ جلادئیے جانے کا واقعہ کیا تاریخ سے مٹایاجاسکتاہے؟’’ربنا اَخرجنا من ھذہ القریۃ الظالم اَھلھا‘‘ کی صدائے احتجاج کیا ہمارے کانوں سے نہیں ٹکرارہی ہے؟

ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ کہاں گیا وہ دستوری تحفظ؟کہاں گئے اقلیتوں کے حقوق کے تئیں وہ آئینی قوانین؟ اور کہاں غائب ہوگئیں وہ ہندوستان کے تمام باشندوں خاص طورپر اقلیتوں کو ان کے مذہب پر چلنے، عمل کرنے اور ان کے بنیادی حقوق کے تحفظات کی یقین دہانیاں؟‘‘(ایضا، صفحہ255-254) ۔ یہ بھی حرماں نصیبی کی بات ہے کہ نیا پاس شہری ترمیمی ایکٹ(CAA) مسلمانوں کو چھوڑکران ہندووَں ، سکھوں ، بدھسٹوں ، عیسائیوں ، جینیوں اور پارسیوں شہریت فراہم کرتاہے جو 31 دسمبر2014ء تک ہندوستان میں پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آئے ۔ اعتراض صرف مسلمانوں کے اخراج پر ہے ۔ مسلمان ہندوستان کے جزء لازم ہیں پھر بھی انہیںCAAمیں ترک کردیاگیا ۔ یہ آئین ہند کے آرٹکل 14کی مکمل خلاف ورزی ہے جو خصوصی طورپر مذہبی بنیاد پر کسی بھی قسم کے امتیاز کو ممنوع قراردیتاہے۔

ہندوستان قانونی طورپر ایک سیکولر جمہوریت ہے جہاں تمام مذاہب کے لوگ یکساں حقوق اور مذہبی آزادی رکھتے ہیں ۔ ملک کی جمہوری اقدار اور سیکولر ڈھانچے کو باقی رکھنا وقت کی ضرورت ہے ۔ لہذٰا مرکزی حکومت کے لئے یہ نیک شگون نہیں ہے کہ وہ لوگوں کے خیال وگفتارکی آزادی کودبائے اور ان کے دستوری حقوق واختیارات کو سلب کرلے۔بطور ہندوستانی ہمارے لئے لازمی ہے کہ ہم اس کے اتحاد اور اخوت کو برقرار رکھیں قومی یگانگت کو مضبوط کرکے اور پورے ہندوستان میں انسانیت کا پیغام عام کریں ۔ ملک کا آئین بھی ہ میں یہی پیغام دیتاہے اور یوم جمہوریہ کابھی یہی پیغام ہے۔