بُلّی ڈیل مسلمانوں سے زیادہ خواتین کا مسئلہ

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 06-01-2022
 بُلّی ڈیل مسلمانوں سے زیادہ خواتین کا مسئلہ
بُلّی ڈیل مسلمانوں سے زیادہ خواتین کا مسئلہ

 



 

awazthevoice

 ثاقب سلیم،نئی دہلی

آج میں اداس ہوں اور میرے دل کو سکون نہیں ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ ہمارا معاشرہ کس طرف جا رہا ہے؟  سچ پوچھیئے تو یہ سوچ کر بھی میں پریشان ہوں کہ جس بھیڑ میں ہم رہ رہے ہیں کیا اسے معاشرہ کہنا  درست ہے۔ کچھ مہینے پہلے، یہ خبر آئی تھی کہ سلی ڈیل نامی ایک انٹرنیٹ ایپ نے کچھ خواتین کی تصاویر شیر کران کے نیلامی کی بولی لگائی تھی۔ یہ تمام خواتین مسلمان بتائی جاتی ہیں، جو اپنے سیاسی اظہار خیال کے لیے معروف ہیں۔ 

سوشل میڈیا پرہنگامہ برپا ہوا، سیاسی الزامات لگائے گئے، پولیس میں ایف آئی آر درج ہوئیں اور کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ ابھی دو دن پہلے ایک خبراسی طرح کی پھر آئی کہ اس بار بُلّی ڈیل کے نام سے ایک ایسی ہی ایپ بنائی گئی ہے جس میں 100 سے زائد مسلم خواتین کو نیلامی کے لیے رکھا گیا ہے۔اس ایپ کو بنانے والے ٹوئٹر ہینڈل نے دعویٰ کیا کہ یہ خالصتانی نظریے سے ہے۔ ایک بار پھر سیاسی الزامات لگے، ایپ بند کر دیے گئے اور پولیس میں ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی۔

یہیں سے میری پریشانی شروع ہوتی ہے۔ ٹویٹر پر سرسری نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسلم خواتین کا معاملہ ہے اور کسی خاص مذہب اور جماعت کے لوگوں نے یہ شرارت کی ہے۔اس الزام میں صرف مرد ہی نہیں خواتین بھی اپنی سیاسی روٹیاں سینکتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہم اتنے گر چکے ہیں کہ اپنے ایجنڈے کو حاصل کرنے کے لیے خاتون کی عزت کی پرواہ نہیں کرتے؟اگر ان خواتین کا مذہب اسلام ہے تو کیا دوسرے مذہب والوں کو ان خواتین کی عزت کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے؟ بار بار خواتین کے اس مسئلے کو ایک مخصوص مذہب، نظریے اور سیاسی جماعت کے سانچے میں ڈھال کر دیکھا جا رہا ہے اور اصل مسئلہ کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ 

اصل مسئلہ ہمارا پدرانہ معاشرہ ہے جس میں خاتون کے جسم کو میدان جنگ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ مردوں کی جنگ میں خاتون کو کس طرح جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش ہو، بوسنیا ہو، کشمیر ہو یا تقسیم ہند کے فسادات، ہر جگہ مردوں نےخواتین کی عصمت دری کی ہے۔ پہلےایک گروہ زیادتی کرتا ہے، پھر دوسرا اس کا بدلہ لینے کے لیے خاتون کو نشانہ بناتا ہے۔ سنہ1966 کی فلم 'جوہران کشمیر' میں ایک خاتون کردار کہتی ہے کہ  خاتون تشدد نہیں کرتی، وہ ماں ہے جو جنم دیتی ہے، وہ کسی کی جان کیا لے گی۔ لیکن مرد ہمیشہ خاتون کے جسم کو نشانہ بناتا ہے۔

انٹرنیٹ کے دور میں دوسرے مذاہب کی خواتین کو ہوس کی نظر سے دیکھ کر جو تشدد فحش فلموں میں دکھایا جا رہا ہے وہ سب جانتے ہیں۔ امریکہ میں جہاں نسل پرستانہ سیکس پیش کیا جاتا ہے، ہمارے ملک میں ہندو مسلم سیکس کی پورن مارکیٹ میں بہت زیادہ مانگ ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ یہ مطالبہ کیوں ہے؟کیا ہم خواتین کو ہندو، مسلمان یا سکھ میں تقسیم کر کے ترقی کر سکتے ہیں؟

یہ کیا کوشش ہے کہ خواتین پر ہونے والے مظالم کو مختلف مذاہب یا نظریات میں تقسیم کر دیا جائے۔ ساحر نے یہ بھی کہا ہے:

 "مردوں نےبنائی جورسمیں،ان کو حق کا فرمان کہا"

ایسا لگتا ہے کہ آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ خواتین کو  طبقوں میں بانٹ کراس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ یہ جنسی استحصال صرف ایک نظریے یا مذہب کے لوگ ہی کریں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ خواتین ہر جگہ مردانہ جبر کا شکار ہیں۔ اسے آج سمجھنا ہوگا کہ اس تشدد خاتمہ اتحاد سے ہوگا۔ آپ کا تعلق کسی بھی دھڑے سے ہو، آپ کے اندر کے مردوں کی ہوس بھری نظروں کو کھرچنے کی ضرورت ہے۔ اس جھوٹے غرور پر قابو پانے کی ضرورت ہے کہ تم  آسمان سے اترے ہوئے آدمی ہو؟

اس جھوٹ کو بھی نوچ کر پھینک دیجئے کہ آپ پرہوس کی نظر صرف سیاسی وجہ سے ہے۔ مرد ہر نظریے کا ایسا ہی ہے جو خاتون کا جسم حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی چادر اوڑھنے کو تیار رہتا ہے۔ وہ خاتون کو قید میں رکھنے کی کوشش کرے گا۔ آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ میں یہ کیسے لکھ رہا ہوں؟ تو میں جون ایلیا کا ایک شعرپڑھنا چاہوں گا:

ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی

تو خود پر بھی بھروسہ کیوں کریں ہم؟