بلبل شاہ:وادی کشمیر کے اولین صوفی

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 16-03-2023
بلبل شاہ:وادی کشمیر کے اولین صوفی
بلبل شاہ:وادی کشمیر کے اولین صوفی

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

سرینگر (کشمیر) کے نواں کدل کے علاقے میں جہلم ندی کے ساحل پر واقع ایک درگاہ میں اکثر لوگوں کا ہجوم دیکھا جاتا ہے مگر شعبان المعظم کی ستائیسویں تاریخ کو یہاں ازدہام بڑھ جاتا ہے۔ پوری وادی سے بڑی تعداد میں عقیدت مند پہنچتے ہیں۔ قرآن خوانی، اوراد ووظائف ، فاتحہ خوانی، دعاودرود اور لنگر کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ یہاں یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے اور امید ہے کہ آگے بھی جاری رہے۔ اس علاوہ بھی سال میں کئی تقریبات ہوتی ہیں۔ یہ کشمیر کے اولین صوفی بزرگ بلال شاہ کی درگاہ ہے جنہوں نے وادی کے لوگوں کو انسانیت وروحانیت کا درس دیا۔ قومی ہم آہنگی اور بھائی چارہ کا پیغام دیا۔

کشمیراور تصوف کا ایک دوسرے سے گہرا ربط ہے۔یہی سبب ہے کہ وادی کے ذرہ ذرہ پر تصوف کے اثرات نظر آتے ہیں۔ اس وادی گل ولالہ کو جس شخص نے سب سے پہلے تصوف آشنا کیا، اس کا نام شرف الدین عبدالرحمٰن بلال شاہ تھا۔ وہ کشمیر کی عوامی زندگی میں ’بلبل شاہ‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ان کی آخری آرامگاہ سرینگر کے عالی کدل علاقے میں آج بھی انسانوں، جنوں اور فرشتوں کی زیارت گاہ ہے۔

کشمیرکو روحانیت سے قریب لانے کا جو کام جناب بلال شاہ نے شروع کیا تھا،اسے امیر کبیرسید علی ہمدانی اور میرمحمد ہمدانی نے نکتہ عروج تک پہنچایا۔ صوفیوں نے اسلام وتصوف کی تاریخ اور فکر کو نمایاں طور پر تشکیل دیا ہے۔ انہوں نے اسلامی ادب میں بہت زیادہ تعاون کیا ہے اور افریقہ، ہندوستان اور مشرق بعید میں اسلامی روحانیت کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

حضرت بلال شاہ، بھی ایسے ہی صوفی تھے۔ انہوں نے تبلیغ واصلاح کے کام کے لئے کشمیر جنت نظیر کا اس عہد میں انتخاب کیا، جب یہاں اہل اسلام کی آبادی ایک فیصد بھی نہیں تھی۔بعض مورخین کے مطابق سید شرف الدین عبدالرحمن شاہ، 14ویں صدی کے ایک ترکستانی صوفی تھے ،جب کہ بعض سوانح وتذکرہ نویس انہیں ایران یا بغداد کا باشندہ لکھتے ہیں۔

وہ سہروردی سلسلہ طریقت سے تعلق رکھتے تھے،جس کی بنیاد شیخ ابو نجیب سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے رکھی تھی۔ بلال شاہ کی تعلیمات سے متاثر ہوکر کشمیر کے تب کے راجہ رنچن نے اسلام قبول کیا اور ان کا مرید ہوگیا۔ راجہ کی تقلید اس کے دوسرے درباریوں اور سپاہیوں نے بھی کی۔راجہ نے اپنا اسلامی نام صدر الدین شاہ رکھا۔

بعض تاریخی روایات کے مطابق 1321یا1324ء میں حضرت بلال شاہ، اپنے دوست ملا احمد کے ساتھ کشمیر پہنچے تھے۔ راجہ رنچن نے اپنے مرشد کے لیے ایک خانقاہ، ایک مسجد اور بہت سی دوسری عمارتیں بنوائیں۔ خانقاہ میں وہ مریدوں کی روحانی تربیت کیا کرتے تھے۔کشمیر میں حضرت بلال شاہ کی کرامتیں مشہور ہیں۔ وہ صوفی کے ساتھ ساتھ ایک عظیم عالم، مبلغ اور دینی رہنما بھی تھے۔

انہوں نے نماز، مراقبہ اور زہدوعبادت میں کافی وقت گزارا۔ اس درویش نے دنیاوی لذتوں کو ترک کر کے اپنی زندگی تصوف کے لیے وقف کر دی۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے توہمات اور دیگر غیر سائنسی طریقوں کے خلاف عوامی بیداری پیدا کی جو اس وقت کشمیر میں رائج تھیں۔

اسی کے ساتھ انہوں نے خطے میں سیاسی استحکام کے لئے کام کیا اور عوام کو بھاری ٹیکسوں سے نجات دلانے کی کوشش کی۔ حالانکہ قدرت نے انہیں زیادہ وقت نہیں دیا اور1326ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اس صوفی بزرگ کو آنے والی نسلیں عزت کی نگاہ سے دیکھتی رہیں گی، کیونکہ ان کی تعلیمات کے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوئے۔