گھنگھروؤں کی جھنکار،بن گئی آزادی وطن کی تلوار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 10-08-2022
گھنگھروؤں کی جھنکار،بن گئی آزادی وطن کی تلوار
گھنگھروؤں کی جھنکار،بن گئی آزادی وطن کی تلوار

 

 

 فاروق ارگلی 

مہذب دنیا کی ہر قوم اور ہر مذہب کی تعلیمات میں حب الوطنی کے جذبے کو جزوایمان او رانسانی ضمیر کی پاکیزگی کا درجہ دیا گیا ہے۔ خطہ ارض میں بسنے والی تمام اقوام کو اپنی سرزمین کی آزادی اور حرمت پر اپنا سب کچھ قربان کردینے والے فرزندوں پر ناز ہے۔وطن کی محبت او رقومی غیرت کا یہ والہانہ جذبہ مذہب، عقائد، تہذیب، زبان وعلاقہ کی تفریق سے ماوریٰ ہے۔ اس جگہ جب ہم ہندوستان کے مسلم محبان وطن اور مجاہدین شہدائے آزادی کی داستانیں دہرارہے ہیں تو اس کامطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ہم عظیم مہارانا پرتاپ کو بھول گئے ہیں یا ہمیں لکشمی بائی،تاتیاٹوپے،ناناصاحب،کنور سنگھ،راؤ تلارام،بھگت سنگھ،رام پرشاد بسمل،چندر شیکھر آزاد او رخودی رام بوس او رلاکھوں غیر مسلم شہدان وطن یاد رنہیں ہیں جن کی قربانیاں قرنوں تک ہر ہندوستانی کے لیے باعث افتخار رہیں گی۔

فخر وطن کے عنوان سے مسلم مجاہدین آزادی کے ان قصہ ہائے پارینہ کی باز خوانی محض اپنے عظیم سیکولر جمہوری وطن کی مخصوص تنگ نظر ذہنیت کی بیداری ضمیر کے لیے ہے جو مصلحتاً،ساز شایا ارادتاً تاریخ آزادی ہند کی اس تابناک حقیقت سے صرف نظر کرتی آئی ہے اور آج بھی کررہی ہے۔

دنیا کی تمام قوموں کی طرح ہندوستانی مسلمانوں کو بھی اپنے مجاہدین وطن پر فخر ہے۔ ملک کی جنگ آزادی میں دوسروں کی طرح مسلم سماج کے ہر طبقے نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ علماء،فقہا، صوفیا، اہل علم و دانش،رؤساء، غرباء یہاں تک کہ وہ طبقہ بھی وطن کے لئے مرمٹنے والوں میں پیچھے نہیں رہا جسے معاشرے میں نفرت اور حقارت سے دیکھا جاتاہے۔ اس کی ایک روشن مثال اوّلین تحریک آزادی کی ایک عظیم مجاہد خاتون کی حب الوطنی،شجاعت اور قربانی ہے۔

ایک ناچنے گانے والی رونق بازار عورت کو اس کے جذبہ جہاد آزادی نے اس طرح سر بلند کردیا کہ اس کے آگے تمام شرافتوں،نجابتوں اور سماجی تفاخر نے بھی سرخم کیا۔ عزیزن بائی 1857ء کی خونیں تاریخ سے جھانکتا ہوا کانپور کی ایک طوائف کاکم واضح اور عمداً یا سہواً نظر انداز کیا گیا نام ہے جسے آب زر سے لکھا جائے تب بھی توقیر کا حق ادا نہ ہو۔

گزشتہ سنہ2007ء میں ملک نے اوّلین جنگ آزادی 1857 ء کی ڈیڑھ سوسالہ تقریبات منعقد کر کے مجاہدین و شہدائے آزادی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر ملک کے گوشے گوشے میں مورخین اور مصنّفین نے اپنی کتابوں او رمضامین کے ذریعے آزادی کی تاریخ کواجاگر کیا۔

اردو زبان میں بھی بہت کچھ لکھا گیا لیکن ایک آدھ مضمون کے سوا عزیزن بائی کے حوالے سے زیادہ کچھ نظر نہیں آیا۔ اس وقت بہت جی خوش ہوا جب ہندی کی ایک ڈرامہ نویس خاتون محترمہ ترپوراری شرمانے ”سن سنتاون کا قصہ،عزیزن“ کے عنوان سے اپناڈرامہ کتابی شکل میں شائع کیا جو اگر چہ ایک تخلیقی تمثیل ہے لیکن مجاہدآزادی عزیزن بائی کے تئیں ایک جذباتی خراج عقیدت بھی ہے۔ اس ڈرامے کے پیش لفظ میں محترمہ نے بالکل درست لکھا ہے:

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس جنگ آزادی میں بے شمار افراد نے جان کیبازی لگائی اور جدوجہد آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،ایسے ہزاروں مجاہدین آزادی ہیں جن کے نام او رکارناموں سے ہم آج بھی واقف نہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی قیمتی جانوں کی پرواہ نہیں کی اور ہنستے ہنستے تختہ دار پر چڑھ گئے۔ان کے ساتھ ساتھ وہ مقامی مجاہد بھی ہیں، جنہوں نے اپنے شہروں،قصبوں اور دیہاتوں میں علم بغاوت بلند کر کے عوام کے اذہان و افکار دکو تحریک دی اور ان کے دلوں میں حب الوطنی کا جذبہ پیدا کیا۔

ظاہر ہے کہ 1857ء کی بغاوت کا مرکز دلّی تھی مگر اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تقریباً تمام ملک اور خصوصاً شمالی ہندوستان میں قریہ،قریہ،شہر شہر یہ لڑائی لڑی گئی او رمقامی سطح پر بڑے بڑے معر کے سر ہوئے مگر یہ بھی ایک بڑا المیہ ہے کہ ان مقامی مجاہدین کے کارنامے صفِ اوّل کے سورماؤں کے کارناموں میں دب کر رہ گئے اور شاذ و نادر ہی ان کا ذکر ڈیڑھ سوسالہ تقریبات میں کیا گیا۔

ایسے ہی کانپور، جو کہ ناناصاحب کامیدان عمل تھا، کی ایک طوائف عزیزن کاذکر بھی بہت کم لوگوں کی زبان پر آیا، حالانکہ اس کی قربانیاں،جذبہ حب الوطنی او رباقاعدہ میدان جنگ میں اس کے عملی کارنامے اس لائق ہیں کہ انہیں بار بار یاد کیا جائے، عام اردو والوں کے لیے یہ نام خاصا اجنبی ہوکر رہ گیا ہے باوجود یہ کہ عزیزن اردو تہذیب و تمدن کاایک جیتا جاگتا نمونہ تھی۔

عزیزن بائی کانپور کی نامور طوائف حسن بانو گوہر کے بطن سے 1833ء میں پیدا ہوئی، اس کا باپ کون تھا یہ جاننا اس لیے ضروری نہیں کہ اس قبیل میں شجرہ نسب صرف ماں کے نام سے چلتا ہے۔ حسن بانو کی ماں مذہباًہندو تھی، لیکن اس نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ وہ اپنے زمانے کی مشہور رقاصہ اور مغنیہ تھی اور کسی رئیس سے اس کا تعلق تھا۔ بہر حال عزیزن بائی کی ماں ایک متمول او راپنے معاشرے کی معززڈیرے دار طوائف تھی جسے ا س لیے بے حد خوش نصیب سمجھا جاتا تھا کہ اس نے عزیزن جیسی حسین و جمیل او رذہن وفطین لڑکی کو جنم دیا تھا۔ ماں نے اپنی ہونہار بیٹی کو اچھی تعلیم اور رقص و مو سیقی کے ماہر استادوں کی تربیت سے آراستہ کی، چودہ برس کی عمر میں ہی اس کا ملکوتی حسن و شباب تماشائیو ں کے دلوں پر بجلیا ں گرانے لگا۔ اس کے دلفریب رقص او رجادوئی آواز نے بڑے بڑے رؤسا کو یہ دیوانہ وبنادیا۔

اہل دولت اس کو پانے کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کو بے قرار تھے۔ وہ ناچتی تھی، مجرا کرتی تھی، اپنے عشوہئ ناز سے تماشا ئیوں کا دل بہلاتی تھی لیکن فطری طور پراسے اپنی دادی یا ماں کی اس روایت سے سخت نفرت تھی کہ نتھ اترائی کی رسم کے تحت کوئی بوالہوس امیر اپنی دولت کے عوض اس کی عصمت کا خریدار بنے یا وہ کسی رئیس کی تنخواہ دار داشتہ بن کر خود کو فروخت کرے۔یہ تعلیم یافتہ تھی، اس نے تاریخ اور ادب کا مطالعہ کیا تھا۔ میر، غالب اور مومن جیسے عظیم شعرا کا کلام وہ گاتی ہی نہیں تھی بلکہ اشعار میں پوشیدہ فلسفہ حیات کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتی تھی۔

عورت کی عظمت اور عزت نفس کا احساس اس کے دل میں جاگزیں ہوچکاتھا۔ اس وقت بھی جب سارے شہر میں اس کے ناچ گانے او رحسن و شباب کا چرچا تھا اس کی ایک ایک ادا پر دولت کی بارش ہورہی تھی، اس کے دل میں یہ جذبہ سر اٹھا رہا تھا کہ دنیااسے ایک ایسی ہندوستانی عورت کے نام سے جانے جس نے انسانیت اور سماج کے لیے کوئی بڑا کام کیا ہو، وہ کسی ایسے شوہر کی شریک حیات بنے جو اس کے جسم سے نہیں اس کی روح سے محبت کرے، ایسے بچوں کی ماں بنے جو بڑے ہوکر ملک و قوم کے لیے باعث فخر ہوں۔

ایک نامور رقاصہ او رمغنیہ ہوتے ہوئے بھی اس طرح کی سوچ اس کے مزاج کا حصہ بن گئی تھی۔ اسی مزاج نے اسے ملک و قوم کی صورت حال کی طرف راغب کیا۔ ہندوستان انگریزوں کی کمپنی کاغلام تھا۔ غیر ملکی گوروں کا ہندوستانیوں کے ساتھ توہین آمیز برتاؤ،کھلی نا انصافی او رمظالم کے خلاف بغاوت او رمزاحمت کی خبروں او رعوام کی بے چینیوں نے اسے بے حد متاثر کیا او رملک کو غلام بنانے والے سفید فام انگریزو ں سے شدید نفرت کا جذبہ عزیزن بائی کے دل میں طوفان برپا کرنے لگا۔

اگرچہ ہندوستانی شرفاء ورؤساء کی طرح بڑے بڑے انگریز افسر بھی اس کے قدردانوں میں شامل تھے۔ ان کی محفلوں میں اسے بڑے احترام کے ساتھ بلایا بھی جاتا تھا یہاں تک کہ بہت سی انگریز خواتین تک اس سے دوستی کا دم بھرتی تھیں۔ لیکن یہ احساس اس کے ذہن پر حاوی تھا کہ غیر ملکی انگریز ناجائز طور پر اس کی سرزمین پر حکومت کررہے ہیں۔

ہر باشعور ہندوستانی کی طرح بغاوت کے جذبات عزیزن کے دل میں بھی امنڈ نے لگے او راس جذبے کو ابھرکر باہر آنے کا موقع اس وقت ملا جب کمپنی کی فوج کا ایک نوجوان سپاہی شمش الدین ان کی آنکھوں میں سما کر دل میں اتر گیا۔پہلی نظر میں ہی عزیزن نے محسوس کرلیا تھا کہ یہ فوجی ان ہزارو ں تماشائیو ں سے الگ ہے جو اس کے بالا خانے کا طواف کرتے ہیں۔

شمس الدین کی آنکھوں نے عزیزن کی آنکھوں کاپیغام پالیا، وہ اکثر اس کے کوٹھے پر آنے لگا،مجرا ختم ہونے بعد بھی عزیزن اسے روکنے اور خاطر مدارات کرنے لگی، پھرباتوں باتوں میں محبت کا رشتہ استوار ہونے لگا۔ دونوں جانب سے اظہار یگانگت ہوا تو عزیزن نے دل کھول دیا۔ ”شمس الدین، میں جانتی ہوں کہ تم ایک غریب سپاہی ہو، لیکن مجھے دھن دولت نہیں عزت و احترام کی زندگی چاہیے،تم چاہو تو میں تم سے شادی کرسکتی ہوں۔

شمس الدین ایک خاموش طبع او رسنجیدہ مزاج انسان تھا لیکن اس نے عزیزن کی بات سن کر کہا: ”تم اتنی خوبصورت اور نیک دل عورت ہو کہ جس کی شریک حیات بنوگی وہ اپنی تقدیر پر ناز کرے گا، لیکن میں تو چاہ کر بھی ایسا نہیں سوچ سکتا۔ کیونکہ۔۔

کیا ا س لیے کہ میں طوائف ہوں؟ ”عزیزن نے اس کی بات کاٹ دی۔ شمس الدین نے غور سے اس کی طرف دیکھا پھر آہستہ سے کہا: ”یہ بات نہیں ہے عزیزن،دراصل میں جس راستے پر چل رہا ہوں اس پر قدم قدم پر موت کا سامنا ہے، تم نے سوسال پہلے پلاسی کی لڑائی اور میسور کے ٹیپوسلطان کے بارے میں بھی شاید پڑھایا سنا ہوگا، تو سمجھ لو میرا راستہ وہی ہے، انگریز کی غلامی سے ملک کو آزاد کرانے کا راستہ،تم مجھے انگریزی فوج کا سپاہی سمجھتی ہوگی جب کہ میں درپردہ نانا صاحب اور تاتیا توپے صاحب کے ساتھ ہوں۔ملک بھر میں بغاوت کی آگ بھڑکنے والی ہے،مجھے ملک کی آزادی کے لیے لڑنا ہے، ایسے میں۔۔۔۔

عزیز ن نے پھر اس کی بات کاٹ دی، اسے ایسا محسوس ہوا تھاجیسے اس کا دل اُچھل کر باہر آجائے گا۔“ ایسے میں عزیزن تمہارے ساتھ ہوگی،آزادی کی اس لڑائی میں تم سے پیچھے نہیں رہوگی۔

شمس الدین کے بازو اٹھے اور عزیزن اپنی زندگی میں پہلی بار کسی مرد کی آغوش میں سما گئی لیکن یہ صرف ایک لمحے کے لیے تھا چشم زدن میں وہ اس سے الگ ہوئی،مضبوط او ربدلی ہوئی آواز میں اس نے کہا: تو پھر یہ طے رہا، تم مجھے تلوار او ربندوق چلانا سکھاؤ گے۔“شمس الدین خاموشی سے اسے دیکھے جارہا تھا۔

اور اس کے بعد یہ افسانہ حقیقت میں تبدیل ہوگیا۔ عزیزن کا کوٹھا ہر رات مجرے کے بعد انقلابیوں کااڈا بن جاتا، شمس الدین کے ساتھ بھی شریک ہونے لگے، مشورے ہوتے، حالات کا جائزہ لیا جاتا، عزیزن ایک انقلابی کی طرح اس کی گفتگو میں شامل ہوتی۔ وہ 1857ء کا آغاز تھا۔ چوبیس برس کی حسین و جمیل عزیزن ایک پختہ کار سپاہی کی طرح خود کو متوقع بغاوت کی آگ میں جھونکنے کے لیے تیار کر چکی تھی جو کانپور کی فضاؤں میں اندر ہی اندر سلگ رہی تھی۔

کمپنی کی حکومت نے بٹھور کے راجہ کے متبنی بیٹے نانا صاحب کو باجی راؤ پیشوا کا وارث ماننے سے انکار کردیا تھا۔ نانا صاب کے معتمد عظیم اللہ نے ولایت تک پیروی کی تھی لیکن کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ عوام میں بغاوت کے جذبات پہلے ہی ا بھررہے تھے۔ اس وقت نانا صاحب،ان کا بھتیجا راؤ صاحب،عظیم اللہ او ربہادر مرہٹہ سپہ سالار تاتیاتوپے برطانوی استعمار کے خلاف فیصلہ کن جنگ کے لیے خو دکو تیار کررہے تھے۔ اس دوران عزیزن ایک انقلابی فریضہ ادا کررہی تھی۔ چونکہ کئی انگریز افسراس کے پرستاروں میں سے تھے ان کی عورتو ں سے بھی عزیزن کی دوستی تھی۔ اس لیے وہ ان سے مل کر انگریزوں کی نقل و حرکت او رارادوں کے بارے میں معلومات فراہم کرکے انقلابیو ں تک پہنچاتی تھی۔

مارچ 1857 ء میں بیرک پور میں منگل پانڈے کی بغاوت اور شہادت کی خبروں نے ماحول گرم کر دیا تھا اور پھر 10مئی کو میرٹھ کے فوجیوں کی بغاوت اور دہلی میں جنگ آزادی کے ہنگاموں نے یہ آگ دور دور تک بھڑکادی۔ 15مئی 1857ء کو دہلی کی خبر کانپور پہنچی تو پورے شہر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے بڑے بڑے جلسے منعقد ہونے لگے۔ انگریزوں کی چھاونیوں میں دیسی سپاہیوں کی خفیہ میٹنگیں ہونے لگیں۔

شہر کے بازاروں او رگلی کوچوں میں ہر جگہ انگریزوں کے خلاف بغاوت اور آزادی کا تذکرہ ہونے لگا۔ اس وقت کانپور میں جنرل ہیووہیلر کمپنی کی فوج کا کمانڈر تھا جس میں ایک سو انگریز اور 3000ہندوستانی سپاہی تھے۔شہر میں بغاوت کے آثار دیکھ کر انگریزوں نے گنگا کے جنوبی علاقے میں قلعہ بندی کرکے اس کا انتظام کیا کہ حالات خرا ب ہونے پر تمام انگریزوہاں پناہ لے سکیں۔

اس وقت کی حیرت ناک بات یہ ہے کہ نانا صاحب پرانگریزں کا بھروسہ قائم تھا۔ جنرل وہیلر نے نانا صاحب کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ کانپور کی حفاظت کیجئے۔ 22مئی کو نانا صاحب کچھ فوجیوں او رتوپوں کے ساتھ کانپور پہنچے۔ وہیلر نے کمپنی کا خزانہ نانا صاب کے سپرد کردیا۔ نانا صاحب نے سو فوجی حفاظت کے لیے مقرر کردیے۔

انگریزی فوج میں ہندوستانی سپاہیوں کے دو اہم لیڈر تھے۔ صوبے دار شمس الدین خاں اور صوبے دار ٹیکا رام جو نانا صاحب کے خاص معتمد محمد علی او رجوالا پرشاد سے ملے ہوئے تھے۔ یہ چاروں نانا صاحب اور عظیم اللہ سے بھی خفیہ طور پر ملاقاتیں کرچکے تھے۔ یہ انقلابی اکثر عزیزن کے مکان پر بھی ملتے تھے او رباہمی مشورے کرتے تھے۔

عزیزن بائی نہ صرف ان کی راز دار تھی بلکہ ان کے راستے پر اپنا سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ انقلابی بن چکی تھی۔ خفیہ طور پر اس کی ملاقات نانا صاحب سے بھی کرائی جاچکی تھی۔ ناناصاحب اس سے بہت متاثر تھے۔ کہا جاتاہے کہ وہ اسے بہن کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔

4جون 1857ء کی نصف شب میں چھاؤنی کی طرف سے تین دھماکے سنائی پڑے۔ ہندوستانی سپاہیوں کے لیے بغاوت کے آغاز کا یہ خفیہ طو رپر طے شدہ سگنل تھا۔ صوبے دار شمس الدین خاں اور ٹیکارام گھوڑوں پر سوار ہوکر نکلے تو ان کے ہمراہ سینکڑوں سوار اور پیدل ہندوستانی سپاہی میدان میں نکل آئے۔پروگرام کے تحت انگریزوں کے بنگلوں میں آگ لگادی گئی۔

کمپنی کے جھنڈے سرکاری عمارتوں سے اتار کر بہادر شاہ ظفر کا سبز پرچم لہرادیا گیا، جو انگریز سامنے آیا باغیوں کے قہر کاشکار ہوگیا۔ نانا صاب نواب گنج میں کیمپ کیے ہوئے تھے،ان کے ساتھ آئے ہوئے سپاہی بھی باغیوں کے ساتھ ہوگئے۔5جون کی صبح تک انگریز وں کا خزانہ،میگزین اور چھاؤنی مجاہدین آزادی کے قبضے میں تھے۔ کانپور کے ہزاروں عام باشندے،رؤسا او رمتمول لوگ مجاہد ی کا استقبال کررہے تھے۔

”ملک بادشاہ کا او رحکم نانا صاحب کا“ کے نعرے شہر کی فضاؤں میں گونج رہے تھے۔ شہر میں بہادر شاہ ظفر کے سبزپرچم کا بہت بڑا جلوس نکالا گیا۔ کانپور انگریزی قبضے سے آزاد ہوچکاتھا۔ عزیزن اب ایک نازک اندام حسینہ نہیں رہ گئی تھی،زیور اور آرائش ترک کرکے مردانہ لباس پہن کر آزادی کی سپاہی بن چکی تھی۔ شہر میں موجود تمام انگریزموت کے گھات اتار دیئے گئے۔ اس جدال و قتال میں عزیزن شمشیر بکف عملی حصہ لے رہی تھی۔

6جون 1857ء کی صبح کو جنرل وہیلر کو پیغام بھیج دیا گیا کہ قلعہ ہمارے سپرد کردے ورنہ شام کو اس پر حملہ کردیا جائے گا۔ وہیلر نے اس پرعمل نہیں کیا لہٰذا مجاہدین کی فوج نے قلعے پر گولہ باری شروع کردی۔ تاریخ  آزادی کے نامور محقق پنڈت سندر لعل لکھتے ہیں:

نانا صاحب کی توپوں نے اس طرح گولے برسانے شروع کیے کہ،انگریزتیزی کے ساتھ مرنے لگے،لکھا ہے کہ انہیں دفن کرنامشکل ہوگیا۔ قلعے کے اندر ایک کنواں تھا۔ نانا صاحب کی فوج کی مسلسل گولہ باری کے کنویں سے پانی لینا ناممکن ہوگیا۔

انگریز پیاس سے تڑپنے لگے،یہ گولہ باری 21دنو ں تک جارہی رہی۔ بہت سے انگریز ی فوج بھی برابر توپیں چلاتی رہیں۔ محاصرہ اتنا سخت تھا کہ انگریزوں کو قلعے سے باہر کوئی پیغام بھیجنا مشکل تھا۔ پھر بھی جنرل وہیلر کا ایک وفادار ہندوستانی ملازم اپنے آقا کا پیغام لے کر لکھنؤ پہنچا او ریہ پیغام ایک پرندے کے پروں میں چھپا ہوا تھا۔ زبان کچھ انگریزی،کچھ لاطینی او رکچھ فرانسیسی تھی جس کا مفہوم کچھ اس طرح تھا:

''Help! Help!! Help!!! Send us help or we are dying, if we get help, we will come and save Lucknow''

(مدد! مدد!!مدد!!! ہمیں مدد بھیجو،ورنہ ہم مررہے ہیں، ہمیں مدد ملی گئی تو آکر لکھنؤ بچالیں گے)“ (بھارت میں انگریزی راج)

جس وقت انگریز کیمپ کی یہ حالت تھی نانا صاحب کو چارو ں طرف سے امیروں اور زمینداروں سے روپیہ اور انسانی مدد مل رہی تھی۔مجاہدین آزادی کے حوصلے بلند تھے،کانپور شہر کے مرد ہی نہیں ہندو مسلم خواتین بھی میدان میں اتر آئی تھی۔ وہ گولہ بارود ادھر ادھر لے جانے، سپاہیوں کو کھانا فراہم کرنے اور زخمیوں کو دیکھ بھال کا کام کررہی تھیں۔ ان خواتین کی سردار تھی عزیزن بائی۔ ایک انگریز نے اپنی یاد داشت میں لکھا ہے:

عزیزن ہتھیار باندھے ہوئے،گھوڑے پر سوار بجلی کی طرح شہر کی گلیوں او رچھاؤنی کے درمیان دوڑتی پھرتی تھی۔ کبھی وہ زخمی سپاہیوں کی خبرگیری کرتی، دودھ او رمٹھائیاں تقسیم کرتی او رکبھی انگریزوں کے قلعے کی دیوار کے ٹھیک نیچے لڑنے والے مجاہدین کے حوصلے بڑھاتی۔

جن دنوں انگریزوں کے قلعے کا محاصرہ جاری تھانانا صاحب نے شہر کا نظم ونسق بڑی خوبی کے ساتھ سنبھالا۔انہوں نے عمائدین شہر کے مشورے سے ہلاس سنگھ نامی ایک لائق شخص کو چیف مجسٹریٹ مقرر کیا۔ فوج کو رسد پہنچا نے کی ذمہ داری ملا خاں کے سپر دہوئی، دیوانی امور کے لیے عظیم اللہ اور بابا صاحب کا تقرر کیا گیا۔ برطانوی  مورّخ ٹامس نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ 

مجرموں کو سخت سزا دی جاتی تھی، کانپور میں امن و امان پوری طرح قائم تھا۔

مجاہدین آزادی کا محاصرہ طویل ہوتا گیا۔مال کار25جون 1857ء کو انگریزوں نے قلعے پر سفید جھنڈا لگادیا۔ ناناصاحب نے اپنے فوجیو ں کو فوری طور پر گولہ باری روک دینے کاحکم دیا اور جنرل وہیلر کو تحریری پیغام بھیج دیا:

ملکہ وکٹوریہ کی رعایا کے نام، جن لوگوں کا ڈلہوزی کی پالیسیوں سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے او رجو لوگ ہتھیار ڈال دینے او رخود سپردگی کے لیے آمادہ ہوں انہیں حفاظت کے ساتھ الہٰ آباد پہنچا دیا جائے گا۔

26جون کو انگریزوں سے صلح کی شرائط پر گفتگو ہوئی۔ انگریز نانا صاحب سے بالعموم انگریزی زبان میں ہی بات کرتے تھے او رکئی زبانوں کے ماہر عظیم اللہ ترجمانی کے فرائض انجام دیتے تھے لیکن اس وقت عظیم اللہ نے جنرل وہیلر کے سامنے شرط رکھی کہ گفتگو ارود زبان میں ہی ہوگی۔ جنرل وہیلر نے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں معافی او رامان طلب کی جزدے دی گئی۔انگریز وں نے قلعے کے تمام سازو سامان اور ہتھیار اور گولہ بارود مجاہدین کے حوالے کردیئے۔ قلعے سے انگریزوں کاجھنڈا اتار کر بہادر شاہ ظفر کا سبز پرچم لہرادیا گیا۔ ناناصاحب کی طرف سے انگریزوں سے کہا گیا کہ انہیں کشتیوں کے ذریعہ الہٰ آباد پہنچا دیا جائے گا۔

چالیس کشتیاں تیار کی گئیں۔انگریزوں پالکیوں او رہاتھیوں پر سوار کرکے دریائے گنگا کے ستی چور ا گھاٹ پہنچا دیا گیا۔ یہ وہی وقت تھا جب الہٰ آباد اور نواحی علاقو ں میں جنرل نیل کو فوجوں نے ہندوستانیوں کا قتل عام شروع کردیا تھا۔

سینکڑوں لوگ جانیں بچا کر کانپور پہنچے تھے جن کی زبانی معلوم ہوا کہ وہاں انگریزوں نے ہزاروں بے گناہ ہندوستانیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا ہے، گاؤں کے گاؤں جلا کر راکھ کردیئے گئے ہیں۔

یہ خبریں اس قدر تکلیف دہ تھیں کہ ستی چورا گھاٹ پر موجود ہزاروں شہریوں او رنانا صاحب کے فوجیوں میں غم و غصہ کی لہر پیدا ہوگئی او رلوگ انگریز وں پر ٹوٹ پڑے،نانا صاحب نے ہر چند کوشش کی کہ کم از کم انگریز عورتوں او ربچو ں کو بخش دیا جائے لیکن ان کی ہر کوشش ناکام رہی۔ الہٰ آباد میں جنرل نیل کے لرزہ خیز مظالم کا خمیازہ کانپور کے ایک ہزار انگریزوں کو بھگتنا پڑا جنہیں ستیچورا گھاٹ پر ہی ختم کردیا گیا۔

ان میں صرف چار انگریز کسی طرح بھاگ کر بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے جب کہ ناناصاحب کی کوشش سے 140 انگریز عورتیں اور بچے بچالیے گئے۔ ستی چوراگھاٹ کے اس واقعے کو مغربی مورّخین نے انقلابیوں کی غیر اخلاقی حرکت قرار دیا ہے کیونکہ نانا صاحب انگریزوں کی حفاظت کاقول دے چکے تھے، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ الہٰ آباد کے قتل عام کی خوفناک خبروں نے ہندوستانیوں کے ہوش وحواس زائل کردیئے تھے اور ناناصاحب،سپہ سالار تاتیاٹوپے،عظیم اللہ اور دوسرے اہم افراد مجاہدین کی بھیڑ کے آگے بے بس ہوگئے تھے۔

ناناصاحب نے جن 140انگریز عورتوں او ربچوں کو بچالیا تھا انہیں ایک عمارت ”بی بی گھر“ میں حفاظت سے رکھا گیا اور ان کے ہر طرح کی سہولت کا انتظام کیا گیا۔ 28جون 1857ء کو نانا صاحب نے دربار عام منعقد کیا، جس میں ہزاروں مجاہدین آزادی،رؤساو زمیندار شامل ہوئے۔ اس موقع پر مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے نام پر 151 توپیں سرکی گئیں،فوج نے آزادی کے سبز پرچم کو سلامی دی۔ نانا صاحب کی باقاعدہ تاج پوشی عمل میں آئی۔

الہٰ آباد او رکانپور کے درمیان واقع فتح پور میں بھی انقلاب کی آگ بھڑک رہی تھی۔ وہاں کے مجاہدین کی مدد کے لیے نانا صاحب نے صوبے دار شمس الدین خاں کی قیادت میں تازہ دم سپاہیوں کا ایک بڑا دستہ روانہ کیا۔ اس دن شمس الدین خاں اور عزیزن کی ملاقات ہوئی۔

عزیزن بی بی گھر میں قید انگریز عورتوں اور بچو ں کے محافظ دستے کی انچارج تھی۔عزیزن نے اپنے محبوب کو خندہ پیشانی کے ساتھ الوداع کہا، لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ ان کی آخری ملاقات ہے۔ شمس الدین فتح پور پہنچ کر آلہٰ آباد کی طرف آتی ہوئی جنرل ہیولاک کی فوج سے جا بھڑا اور اپنے وطن ک لیے لڑتے ہوئے میدان جنگ میں شہید ہوگیا۔فتح پور کے مجاہدین آزادی ایک حوصلہ مند شخص ڈپٹی حکمت اللہ کی قیادت میں انگریز وں سے لڑرہے تھے۔

مجاہدین انگریزی فوج کی بہت بڑی تعدا د اور بھاری توپ خانے کے سامنے بے بس ہوگئے۔جنرل ہیولاک کی فوجوں نے فتح پور پر فتح حاصل کرلی اور پورے شہر اور نواحی دیہات میں ہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ فتح پور شہر کو پوری طرح جلا کر خاک کردیا۔ ہیولاک نے فتح پور میں بالکل جنرل نیل کی طرح درندگی اور حیوانیت کامظاہرہ کیا۔

جس وقت فتح پور کی تباہی کی خبر نانا صاحب تک پہنچی پورے کانپور میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔نانا صاحب نے فوری طور پر خود اپنی قیادت میں آگے بڑھ کر ہیولاک سے مقالہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی دن انگریزوں کے لیے جاسوسی کرتے ہوئے کچھ لو گ گرفتار کیے گئے تھے جن سے معلوم ہوا کہ بی بی گھر میں قید انگریز عورتوں میں کچھ لکھنؤ میں انگریز افسروں سے خفیہ طور پر مراسلت کے ذریعہ رابط قائم کیے ہوئے ہیں۔

1857ء میں کانپور کی وہ رات بے حد خوفناک تھی جب عزیزن بائی اپنے محبوب شمس الدین کی شہادت کے جانکاہ صدمے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس نے سچے دل سے اس جوانمرد سپاہی سے پیار کیا تھا۔ اس کے دل میں یہ ارمان انگڑائی لینے لگا تھاکہ آزادی کی لڑائی ختم ہوتے ہی ہمیشہ کے لیے شمس الدین کی ہوجائے گی۔بڑے بڑے حسین سپنے اس کی آنکھوں میں سجے ہوئے تھے، لیکن اب تو اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔

شمس الدین دنیا سے جاتے ہوئے اس کی زندگی کا سارا سرمایہ اپنے ساتھ لے گیا تھا او رایسے میں ہی اس نے یہ بات سنی کہ بی بی گھر میں قید جن انگریز عورتوں کی وہ حفاظت کررہی تھی او رانہیں ہر طرح کا آرام پہنچانے کی کوشش کررہی تھی، وہ اپنے لوگوں سے کانپور پر حملہ کرنے کی سازش کررہی تھیں تو اس کا ذہن ایک طرح سے ماؤف ہوگیا۔ انگریزوں کے ہاتھوں اس کے محبوب کے قتل نے پہلے ہی اسے انتقام کی آگ میں جھلسا رکھا تھا۔ اس نے ایک ایسا فیصلہ کرلیا جو تحریک آزادی کی تاریخ میں نانا صاحب او ران کے ساتھی مجاہدین آزادی کے دامن پر دھبہ قرار دیا گیا۔ عزیزن نے اسی وقت کمانڈرتاتیاٹوپے سے ملاقات کی اور صاف الفاظ میں ان سے کہا:

تاتیا صاحب! بی بی گھر کی سازشی انگریز عورتو ں کو سزادی جانی چاہئے۔مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کام کو انجام دوں۔

تاتیا نے کہا:

عزیزن! میں جانتا ہو ں کہ تمہارے دل میں ہزارو ں ہم وطنوں اور شمس الدین کی موت سے انتقام اور غصے کی آگ بھڑک رہی ہے لیکن یہ ناانصافی ہوگی، سزا اسی عورت کی دی جاسکتی ہے جس پر سازش کا جرم ثابت ہوجائے اس کی جانچ کی جائے گی۔

عزیزن غصے سے دیوانی ہورہی تھی۔ اس نے تاتیا صاحب سے کہا:

ہم فرنگیوں سے آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں،یہ ناانصافی نہیں انصاف ہے، یہ عورتیں قلعے میں بندوقیں بھر بھر کر اپنے فوجیوں کو دے رہی تھیں جن کی گولیاں ہمارے لوگوں کی جانیں لے رہی تھیں۔کیا انگریزوں نے ہم پررحم کیاہے؟

کچھ بھی ہو عزیزن،میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔“ تاتیاٹوپے نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ عزیزن وہاں سے واپس آگئی لیکن اب اس پر انتقام کی دیوانگی سوار ہوچکی تھی۔ اسی رات عزیزن نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے ان تمام انگریز عورتوں او ربچوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا۔

کانپور کے اس سانحے کے حوالے سے مغربی مورّخین نے نانا صاحب کے بشمول تمام مجاہدین آزادی کو درندہ اور حیوان ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ برطانوی دور حکومت میں اسکولی نصاب کی کتابوں تک میں اس واقعے کو بڑھا چڑھا کر شامل کیا گیا چنگیز او رہلاکو سے ہزار ظالم انگریزوں کے ذریعہ لاکھوں ہندوستانیوں کا خون بہانے کاذرا سا بھی ذکر نہیں کیا جاتاتھا۔ بی بی گھر کے اس واقعے کو مزید خوفناک او رغیر انسانی ثابت کرنے کے لیے انگریز مورّخوں نے لکھا ہے کہ:

انگریز عورتوں او ربچو ں کے قتل کے لیے شہر سے قصائی بلوائے گئے، قتل سے پہلے سب کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے اور دھیرے دھیرے تڑپا تڑپا کر مارا گیا۔“ اس میں شک نہیں کہ عزیزن بائی اور اس کے ساتھیوں کا یہ اقدام کسی طرح جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا تاہم انگریزو ں نے اس واقعے کو جس انتہائی مبالغہ آرائی سے بیان کیا وہ بے بنیادتھا۔

جنگ آزادی میں ہندوسانیوں کی شکست اور برطانوی اقتدار کے باقاعدہ قائم ہوجانے پر خود انگریزوں کے انکوائری کمیشن نے اس پروپیگنڈے کو غلط قرار دیا تھا۔’لندن ٹائمز‘ کے نامہ نگار ولیم رسل نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا:”بہت سے جعل ساز او رپست ذہن لوگوں نے اس معاملے میں فرضی باتیں جوڑ دی ہیں جن کا مقصد صرف یہ تھا کہ انگریزوں کی آتش انتقام اور شدت سے بھڑکے۔

علاوہ ازیں برطانوی پارلیمنٹ کا ایک رکن مسٹر لیئر ڈ جو اس واقعے کی جانچ کے لیے ہندوستان آیاتھا، اس نے 25جون 1858 ء کے ’ٹائمز‘ اخبارمیں لکھا:”نہایت غور وخوض کے ساتھ تحقیقات کرنے اور معتبر ذرائع سے اطلاعات حاصل کرنے کے بعد مجھے یقین ہوگیا ہے کہ جن خوفناک مظالم کاذکر کیا جاتا ہے کہ دہلی، کانپور، جھانسی اور دوسرے مقامات پر انگریز عورتوں او ربچوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا،قطعی غلط ہے۔

ایسی باتیں گھڑنے والوں کو شرم آنی چاہئے۔“ جو بھی عزیزن کو بی بی گھر کے واقعے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے بھی اسے مجرم او رگناہ گار نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اگر پورے ملک میں انگریزوں نے جس طرح لاکھوں ہندوستانیوں کاخون بہا یا جس کی مثال دنیا کے کسی ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی اس کے مقابلے میں عزیزن بائی اقدام بہت چھوٹا سا واقعہ ہے، جو اپنے عوام ہم وطنوں کی بربادی کا ردّ عمل ہی تھا۔

10جولائی 1857ء کو جنرل ہیولاک کانپور او رفتح پور کے درمیان واقع قصبوں او ردیہاتوں میں بے قصور ہندوستانیوں کے خون سے ہولی کھیلتا ہوا اپنی فوج کے ساتھ کانپور پہنچا۔ ناناصاحب نے پوری قوت کے ساتھ انگریزوں کامقابلہ کیا لیکن انگریز فوج کی بھاری تعداد اور زبردست گولہ باری نے مجاہدین کے قدم اکھاڑ دیئے۔ 17جولائی کو جنرل ہیوک فاتحانہ شان سے کانپور میں داخل ہوا اور سارے شہر کو مقتل بنادیا۔

جگہ جگہ پھانسیاں کھڑی کردی گئیں، ہزارو ں انسانوں کو مار ڈالا گیا۔ گھرو ں کو لوٹ لیا گیا، تاریخ کی دستاویزوں کے مطابق کانپور میں جنرل ہیولاک کی فوجوں نے ہزار بارہ سو انگریز وں کے خون کا انتقام سوگنا ہندوستانیوں کو اپنی درندگی کا شکار بنا کر لیا۔تذکرہ نگارو ں کے مطابق عزیزن اس وقت میدان جنگ میں بہادری کے ساتھ لڑتی ہوئی شہید ہوگئی۔

جب نانا صاحب کی فوج ہیولاک کی حملہ آور فوج سے مقابلہ کررہی تھی لیکن عزیزن کی شہادت کے بارے میں یہ روایت بھی پائی جاتی ہے کہ شکست کے بعد نانا صاحب تاتیا ٹوپے اورعظیم اللہ اپنی بچی کھچی فوج کے ساتھ کانپور سے رخصت ہوگئے لیکن عزیزن گرفتار کرلی گئی۔

روایت کے مطابق جنرل ہیولاک عزیزن کے حسن و جمال پر مرمٹا اس نے عزیزن سے کہا کہ اگر وہ معافی طلب کرلے تو وہ اپنی حیثیت کا استعمال کرکے اس کی جان بچا سکتا ہے،مگر شرط یہ ہے کہ وہ اس کی بیوی بن جائے،ہیولاک نے یہ بھی کہا کہ وہ اسے لندن لے جاکر دنیا کی تمام خوشیاں اس کے قدموں میں ڈال دے گا۔ کہا جاتاہے کہ عزیزن بائی نے جنرل ہیولاک کو ہوسناک پیشکش بے حد حقارت سے ٹھکرا  دیا، جس کے بعد اسے قتل کردیا گیا۔ یہ روایت ہویا حقیقت لیکن یہ ناقابل تردید سچ ہے کہ عزیزن بائی ایک بہادر او رغیرت مند مجاہد آزادی تھی جو وطن کی آن پر قربان ہوگئی۔