کورونا :مردوں سے زیادہ خواتین بن رہی ہیں نفسیاتی مریض

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 16-05-2021
کورونا سے غیر معمولی اموات کی وجہ سے نفسیاتی امراض میں اضافہ
کورونا سے غیر معمولی اموات کی وجہ سے نفسیاتی امراض میں اضافہ

 

 

 بیشالی ادھاک / نئی دہلی

کورونا کے نتیجے میں ہونے والے لاک ڈاؤن نے جہاں ایک طرف لوگوں کو گھروں کا قیدی بنا دیا وہیں اس نے ایک بڑی تعداد میں نفسیاتی مسائل بھی پیدا کیے ۔ متعدد ماہرین صحت کے مطابق دوسری لہر کے نتیجے میں کورونا سے غیر معمولی تعداد میں ہونے والی اموات کی وجہ سے نفسیاتی امراض میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے ۔

ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ذہنی صحت کے مریضوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ دیکھا گیا ہے ۔ جیسے جیسے کنبے کے بالغ افراد کی طرف سے اموات ، ملازمتوں کے ضیاع یا معاشی صورتحال کے بگاڑ کی اطلاعات آ رہی ہیں ، اسی تناسب میں بچے اور خواتین امتحان سے متعلق تشویش، افسردگی اور گھر چلانے کے دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں۔

آواز دی وائس نے مول چند میڈسیٹی میں محکمہ نفسیات کے سینئر کنسلٹنٹ اور ایچ او ڈی ڈاکٹر جتیندر ناگ پال سے بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یقینی طور پر پچھلے چھ ماہ میں مریضوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ سب سے عام شکایت بے خوابی کی ہوتی ہیں ، اس کے بعد زندگی کے خاتمے کے بارے میں خواب آنے کی شکایتیں بھی آتی ہیں ، اس کی علاوہ تنہائی کا احساس اور کورونا ہو جانے کا خدشہ بھی ایک بہت بڑا نفسیاتی مسلہ بنتا جا رہا ہے ۔

ڈاکٹر جتیندر ناگ پال بتاتے ہیں کہ ان کو نوجوانوں کی بھی کالس موصول ہوتی ہیں ۔ ہندوستان میں دس سے انیس سال کی عمر والے افراد کی تعداد تقریبا 30 کروڑ ہے۔ اس عمر کے افراد کے اوپر امتحانات میں کامیاب ہونے ، نوکریاں حاصل کرنے اور اپنے اہل خانہ کا مالی تعاون کرنے کا ایک اخلاقی دباؤ ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر ناگپال نے کہا کہ ان تینوں چیزوں سے محرومی کے احساس سے ایک نفسیاتی مرض پیدا ہونے کا خدشہ ہے جسے ہم اصطلاح میں مایوسی / جارحیت سنڈروم کہتے ہیں۔ سول سروسز ایسوسی ایشن آف انڈیا اور دہلی کے وژن دیواانگ فاؤنڈیشن کے زیر انتظام چلنے والی کارونا جیسی دماغی صحت کی ہیلپ لائنز بھی اسی قسم کی اطلاعات دے رہی ہیں۔

کرونا ہیلپ لائنز کی ماہر نفسیات نیہا گپتا کہتی ہیں کہ ہمیں روزانہ 50 زائد کالز آرہی ہیں۔ ان میں سےزیادہ تر چھوٹے بچوں سے پریشان والدین کی ہوتی ہیں۔ اس عمر کے بچوں کو اسکول جانا چاہئے اور قدرتی ماحول میں اپنی عمر کے بچوں کے ساتھ کھیلنا کودنا چاہئے۔ اس کے بجائے وہ زیادہ تر وقت موبائل اور ٹیلی ویژن اور لیپ ٹاپ کے سامنے گزارتے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں انٹرنیٹ ، سوشل میڈیا اور پرتشدد ویڈیو گیمز کی لت میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں حال ہی میں ایک کیس موصول ہوا جہاں قریب 12 سال کے ایک بچے کو صرف اس کے والد دیکھ رہے تھے کیوں کہ کنبے کے باقی افراد کورونا مثبت ہونے کی وجہ سے ہسپتال میں داخل تھے ۔ اس دوران غفلت کی وجہ سے بچے میں نفسیاتی مسایل پیدا ہونے شروع ہو گیۓ ۔ بچہ اس حد تک چلا گیا کہ وہ مکمل طور پر قابو سے باہر ہو گیا اور آخر کار اس کی والدہ کو اس کے پاس واپس آنا پڑا جب کہ وہ خود بھی شدید بیمارتھیں ۔ ڈاکٹر ناگپال نے نشاندہی کی کہ کوو ڈ / لاک ڈاؤن کی وجہ سے خواتین میں ہونے والے ڈپریشن میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ان کے مطابق خواتین تین سے چار گنا زیادہ متاثر ہو رہی ہیں ۔ اگر وہ گھر سے بھی کام کر رہی ہوں تو بھی انہیں کھانا بنانا ، صفائی کرنا ، بچوں اور بوڑھوں کی دیکھ بھال کرنا ہوتا ہے ۔ گھریلو تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔

دہلی میں مقیم انسٹی ٹیوٹ آف ہیومین بیویئر اینڈ الائیڈ سائنسز کے ڈائریکٹر ماہر نفسیات ڈاکٹر نمیش دیسائی کا کہنا ہے کہ انھیں شبہ ہے کہ جو معاملات ان تک پہنچ رہے ہیں وہ حقیقی معاملات کے مقابلے میں عشر عشیر ہوں ۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ابھی جو معاملات ہمیں موصول ہورہے ہیں وہ واقعی شدید نوعیت کے ہیں۔ جو مریض پہلے سے ہی دماغی عارضوں کا شکار تھے ان پر کورونا نے بہت برا اثر ڈالا ہے ۔ کرفیوکی پابندیوں یا پکڑے جانے کے خوف کی وجہ سے بہت سارے لوگ تو ہم سے رابطہ بھی نہیں کر پا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ کاش زیادہ سے زیادہ لوگ ٹیلیفونیک مشورے کے بارے میں جانتے ، لیکن ہمیں شبہ ہے کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد اگلے 6 ماہ میں ہمارے پاس نفسیاتی مریضوں کی ایک بہت بڑی تعداد آے گی ۔

ان سب کے ساتھ یہ سوال بھی موزوں ہے کہ ان مشکل حالت میں ڈاکٹر لوگوں کو کیا مشورہ دے رہے ہیں؟ وژن دیویانگ فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر مکیش گپتا کہتے ہیں کہ ہم اپنی ہیلپ لائن پر کال کرنے والے لوگوں کو ٹی وی یا سوشل میڈیا پر کم وقت گزارنے کے لئے کہہ رہے ہیں ۔ دنیا میں کہیں بھی ہونے والی اموات اور نئی بیماریوں اور جنگ سے متعلق خبروں کو جذب کرنے سے آپ کے دفاعی نظام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم کال کرنے والے مریضوں سے کہتے ہیں کہ وہ معمول کی زندگی گزاریں، اپنے دن کی شروعات منصوبہ کے مطابق کریں ، اچھی نیند لیں ، صاف ستھرا لباس پہنیں ، صحتمند کھانا کھائیں اور مستقل ورزش کریں۔ اپنے دوستوں اور عزیزوں سے رابطہ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ خوف کے ساتھ حقیقت سے پوری طرح آگاہی بھی ہونی چاہئے کیوں کہ حالات سے مکمل آگاہی با اختیار بناتی ہے اور کم تناؤ کا باعث بنتی ہے ۔