چار جون 1857کو علامہ شبلی نعمانی موضع بندول اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے اور 18نومبر 1914کو جان جاں آفریں کے سپرد کردی-اتنی مختصر سی زندگی میں انھو ں نے جو کارنامے انجام دیے وہ غیر معمولی ہی نہیں بلکہ ناقابل تصور ہیں۔وہ جامع الکمال شخصیت کے مالک اور ایک ادارہ جاتی حیثیت کے حامل تھے۔انھوں نے مختلف جہات میں علم و ادب کی جو خدمت انجام دی اسے دیکھ کر اندازہ نہیں کیاجاسکتا کہ یہ ایک شخص کا کام ہے۔انھوں نے شعرو ادب،تاریخ و سیرت،تحقیق وتنقید، اور تعلیم وتبلیغ غرض یہ کہ جس طرف بھی قدم اٹھایا اسے بلندی تک پہنچا دیا۔
شبلی کی علمی سرگرمیوں کا مرکزی محور تعلیم اور مذہب ہے۔تعلیم اور تعلیمی افکار پر ان کی گہری نظر تھی۔ان کی زندگی اپنے زمانے کی تعلیمی سرگرمیوں سے عبارت تھی۔علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے لے کر ندوۃ العلما تک تعلیم کے میدان میں ان کی بے پناہ قربانیاں ہیں۔ان کی نظر صرف ہندستان پر نہیں تھی بلکہ عالم اسلام کی تعلیمی سرگرمیوں اور ضرورتیں بھی ان کی نگاہ میں تھیں۔قدیم تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ جدید علوم کے قائل تھے اور ندو العلما میں جب انھیں معتمد تعلیم بنایا گیا تو اس کے نصاب میں انھوں نے الدروس الاولیۃ فی الفلسفۃ الطبیعۃ کو شامل کیا۔یہ کتاب ایک عیسائی عالم الن جیکسن کی تصنیف ہے،جو1882میں بیروت سے شائع ہوئی تھی۔ اپنے زمانے کی بنیادی سائنس اور اس کے عملی مباحث(پریکٹیکل)پر ایک باتصویر کتاب ہے۔اس میں مادہ،حرکت، گریوٹی , لیکویڈ ، اوپٹیم، حرات الیکٹر سٹی جیسے مباحث شامل ہیں۔ اس کی تدریس کے لیے شبلی نے علامہ محمد حمید الدین فراہی اور مرزا محمد ہادی رسوا کو مقرر کیا تھا۔اس کا اندازہ شبلی کے خطوط سے ہوتا ہے۔اس کے علاوہ 1901میں پندرہ روپیہ ماہانہ تنخواہ پر شبلی نے ندوۃ العلما میں ایک انگریزی کا استاد مقرر کیا ہے۔یہ اسی انگریزی کا فیض کا تھا کہ مولانا عبدالباری ندوی نے جدیدفلسفہ کی متعدد کتابیں ترجمہ کیں۔نصاب کے تئیں شبلی کا یہ ایک انقلابی قدم تھا مگر 1913میں شبلی کےمستعفی ہونے کے بعد یہ دونوں مضامین بھی یہاں کے نصاب سے خارج کردیے گئے۔
شبلی کی تمام عمر علم وادب کی آبیاری میں گزری۔کتابیں تصنیف کیں دوسروں کوتعلیم کے لیے جوش دلایااور ساتھ ہی ساتھ قومی جذبے سے سرشار ہوکر قوم کے نونہالوں کو نہ صرف تعلیم کی طرف راغب کیا بلکہ نصاب تعلیم کے سلسلے میں بھی ان کی رہنمائی کی۔شبلی کے تعلیمی نظریات کی کشادگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ عورتوں کی اعلی تعلیم کے قائل تھے اور ان کے پیش نظر ایسا نصاب تعلیم تھا جو لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے یکساں ہو۔عطیہ فیضی کو ایک خط میں انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیاتھا کہ آپ مشہور عورتوں کی طرح اسپیکر اور لیکچرر بن جائیں۔
مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی کوایک خط میں لکھا تھا کہ بمبئی میں تعلیم نسواں کے عجیب حیرت انگیز نمونے دیکھے۔اسی طرح روم و مصر و شام کے سفر کے دوران جب ترکی میں انھوں نے خواتین کی تعلیم و تربیت کا نظام دیکھا تو بے ساختہ ترکوں کے حق میں انھوں نے ستائشی کلمات لکھے۔ شبلی مسلم خواتین کی تعلیم اور ان کی سماجی بیداری کے لیے مستقبل کوشاں رہے۔1908میں جب نواب بہاولپور کی دادی نے ندوہ کی تعمیر کے لیے پچاس ہزار روپے کا چندہ دیا تو علامہ شبلی نے الندوہ میں ایک نہایت پرجوش مضمون لکھا۔علامہ نے انھیں ”زندہ زبیدہ خاتون“کے عنوان سے یا دکیا ان کی فیاضی کو زبیدہ خاتون،برامکہ اور تیمور سے نسبت دی اور لکھا:
خاتون محترم نے جو فیاضی فرمائی ہے اس نے دارالعلوم ندوۃ العلماء کی نہ صرف بنیاد مستحکم کردی ہے بلکہ اس کی آئندہ ترقیوں کے لیے راستہ صاف کردیا ہے۔
شبلی کے غیر معمولی جذبہ و احساس سے مملو یہ عبارت بھی ملاحظہ فرمائیں:
اے صبح الہ آباد،اے اودھ تو نہایت وسیع،نہایت ممتاز معزز ملک ہے لیکن سچ یہ ہے اور اب اس سے خود تجھ کو انکار نہیں کرنا چاہیے کہ پنجاب نہیں بلکہ اس کی ایک ریاست نہیں بلکہ اس کی ایک خاتون محترم کے آگے تیری گردن ہمیشہ کے لیے جھک گئی،تونے کبھی برہان الملک اور آصف الدولہ پیداکیے ہوں گے لیکن تو کسی زبیدہ خاتون کا نام نہیں لے سکتا۔“(مقالات شبلی جلد 8ص 80)
شبلی کا سفرنامہ ”سفرنامہ روم ومصر وشام“ دراصل ایک تعلیمی رپورٹ ہے ۔اس کے مطالعہ سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ شبلی تعلیم کے تئیں کیا جذبہ رکھتے ہیں اور وہ کس طرح کی تعلیم چاہتے تھے۔صرف ہندستان ہی نہیں عالم اسلام کی تعلیمی صورت حال پر ان کی نظر تھی۔شبلی کے تعلیمی مشن میں کشادگی اور وسعت فکر و نظر کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔وہ قدیم علمی روایات کے یکسر اسیر بھی نہیں تھے مگر علم و دانش کے تازہ جھونکوں سے خود کو الگ کرنا بھی انھیں گوارا نہیں تھا۔ جدید و قدیم تعلیمی نظریات کے تناظر میں سفرنامے کا یہ اقتباس سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے:
ترکوں میں تعلیم کا آغاز سلطنت کے ساتھ ہوا یہ وہی تعلیم تھی جس کو ہم آج قدیم تعلیم کے نام سے یاد کرتے ہیں........لیکن موجودہ تعلیم کی پستی اس حد تک پہونچ گئی ہے کہ اس کے مقابلے میں ہمارے ہندستان کی تعلیم غنیمت ہے۔اس سفرنامے میں جس چیز کا تصور میری تمام مسرتوں اور خوشیوں کو برباد کردیتا تھا وہ اسی قدیم تعلیم کی ابتری تھی... ہمارے ملک کے نئے تعلیم یافتہ پرانی تعلیم پر جو رنج و افسوس ظاہر کرتے ہیں وہ درحقیقت رنج نہیں بلکہ استہزا اور شماتت ہے۔میں اگرچہ نئی تعلیم کو پسند کرتا ہوں تاہم پرانی تعلیم کا سخت حامی ہوں اور میرا خیال ہے کہ مسلمانوں کی قومیت قائم رہنے کے لیے پرانی تعلیم ضروری اور سخت ضروری ہے اس کے ساتھ جب یہ دیکھتا ہوں کہ یہ تعلیم جس طریقے سے جاری ہے وہ بالکل بے سود اور بے معنی ہے تو خواہ مخواہ رنج ہوتا ہے۔“ (سفرنامہ روم و مصرو شام ص:56)
تعلیم کے میدان میں مستقل غور و فکر کی وجہ سے شبلی اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قدیم و جدید تعلیم اور تعلیمی اداروں کے درمیان اگر دوریاں کم ہوں اور ایک دوسرے سے استفادہ کا رجحان پیدا ہو تو یہ ہمارے لیے بہتر ہوگا۔شبلی کا خیال تھا کہ موجودہ عہد میں صرف انگریزی تعلیم ہمارے درد کا مداوانہیں بن سکتی اسی طرح قدیم طرز تعلیم بھی موجودہ عہد میں پوری طرح ہمارا ساتھ نہیں دے سکتا۔ان کے خیال میں:
یہ ہم نے بار بار کہا اور اب پھر کہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے لیے نہ صرف انگریزی مدرسوں کی تعلیم کافی ہے نہ قدیم عربی مدرسوں کی۔ہمارے درد کا علاج ایک معجون مرکب ہے جس کا ایک جزمشرق اور دوسرا مغربی ہو۔(مقالات شبلی جلد سوم ص:57)
قسطنطنیہ کے ذکر میں شبلی نے ایک کلیدی نکتہ یہ پیش کیاہے کہ حریت فکر حکومت کے زیر سایہ پروان نہیں چڑھ سکتی۔انھوں نے یورپ کی ان دانشگاہوں کا بھی ذکر کیا ہے جن کے قیام میں حکومت کے بجائے اہل قوم کا حصہ ہے۔ انھوں نے لکھا ہے:
اس سے بڑھ کر یہ افسوس کہ قسطنطنیہ کے تمام کالج اور دارالعلوم جن کا میں نے ذکر کیا ہے حکومت سے طرف سے ہیں۔قوم نے ابھی تک اس طرف کچھ توجہ نہیں کی۔یعنی اتنے بڑے دارالسلطنت میں ایک بھی قومی کالج نہیں۔کوئی گورنمنٹ گو کتنی مقتدر اور دولت مند ہو لیکن تمام ملک کی علمی ضرورتوں کی کفیل نہیں ہوسکتی۔اگر ہو بھی تو چنداں مفید نہیں۔جس قوم کی تمام ضرورتیں گونمنٹ انجام دیا کرتی ہے اس کی دماغی اور روحانی قوتیں مردہ اور بے کار ہوجاتی ہیں۔“ (40)
قسطنطنیہ کے مکتب حربیہ کی رپورٹ میں وہاں کے طلبہ کی خوش سلیقگی، اساتذہ کا اخلاق اور تعلیم کی متعدد شاخوں کے ذکر کے بعد شبلی لکھتے ہیں:
حقیقت یہ ہے کہ وسعت عمارت،فراہمی آلات علمی،وسعت تعلیم اور خوبی انتظام کے لحاظ سے تمام قسطنطنیہ میں اس سے عمدہ کوئی کالج نہیں ہے۔البتہ یہ افسوس ہے کہ اس کی اعلا کلاسوں میں تعلیم پانے والے زیادہ تر عیسائی ہیں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے۔“ (59)
ترکی کی علمی حالت،وہاں کے مصنفین،کتب خانوں،اخبارات و رسائل حکماء اور ائمہ فن کی تصنیفات کے ذکر کے بعد شبلی کا یہ تجزیہ کسی تبصرے کا محتاج نہیں:
حقیقت یہ ہے کہ کل دنیائے اسلامی میں تعلیم کا طریقہ ایسا ابتر اور ذلیل ہوگیا ہے کہ چند درسی کتابوں کے سوا لوگوں کو کسی قسم کی جدید معلومات کی طرف رغبت ہی نہیں ہوتی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جدت اور ایجاد کامادہ قوم سے مسلوب ہوتا جاتا ہے اور جس قدر کہیں کہیں کچھ رہ گیا ہے آیندہ اس کی بھی امید نہیں“(69)
جامعہ ازہر کے طلباء کے اخلاق کے بارے میں شبلی نے لکھا ہے:
مجھ کو اپنے تمام سفر میں جس قدر جامعہ ازہر کے حالات سے مسلمانوں کی بدبختی کا یقین ہوا کسی اور چیز سے نہیں ہوا.....لیکن افسوس ہے کہ وہ بجائے فائدہ پہنچانے کے لاکھوں مسلمانوں کو برباد کرچکا ہے......طالب علموں کی دنائیت اور پست حوصلگی کا یہ حال ہے کہ بازار میں پیسے کی ترکاری خریدتے ہیں تو کنجرے کو قسم دلاتے ہیں کہ براس سیدنا الحسین یعنی تجھ کو امام حسین کے سر کی قسم واجبی قیمت بتانا کیا اس قسم کے تربیت یافتہ لوگوں سے یہ امید ہوسکتی ہے کہ و وہ اسلام کی عظمت و شان بڑھائیں گے۔“ (70)
یہاں کے نصاب کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ:
یہاں مستقل اور اصل طور پر صرف فقہ و نحو کی تعلیم ہوتی اور دونوں کے لیے آٹھ آٹھ برس مقررہیں۔منطق،فلسفہ ریا،ضی اور دیگر علوم عقلیہ تو گویا درس میں داخل ہی نہیں اصول فقہ،تفسیر،حدیث،ادب،معانی،بیان کی تعلیم ہے لیکن اس قدر کم ہے کہ اتنے بڑے دارالعلوم کے کسی طرح شایان شان نہیں۔“ (85)
اساتذہ کے بارے میں رقم طراز ہیں:
شیخ طبان حال میں ایک بزرگ گزرے ہیں۔ان کی ایک شرح ہے اس شرح کو اس قدر مہتم بالشان سمجھا گیا ہے کہ اس کی شرحیں اور شرحوں کے حاشیے درس میں داخل ہیں۔اور اس تمام سلسلہ کا ضبط و حفظ کرنا بڑا کمال خیال کیا جاتا ہے۔ میں نے طلبہ سے دریافت کیا کہ شیخ ازہر جو استاد الکل خیال کیے جاتے ہیں ان کی کوئی تصنیف بھی ہے۔انھوں نے بڑے فخر سے کہا کہ ہاں صبان پر بڑے معرکے کے حاشیے لکھے ہیں۔“(90)
شبلی مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے مسلسل سرگرم عمل رہے اور اس کے لیے ان سے جو کچھ بن پڑا کیا۔1913کا زمانہ جو کہ شبلی کے لیے سخت کشاکش تھا۔ندوۃ العلما جو علی گڑھ کے بعد ان کی آرزووں کا واحد مرکز تھا وہاں سے مستعفی ہوچکے تھے۔اوراب اپنے آپ کو سیرت کی تالیف کے لیے یکسوکررکھا تھا۔اسی دوران روزنامہ زمیں دار لاہور کے15،اپریل1913کے شمارہ میں مکہ معظمہ میں اسلامی یونی ورسٹی کی تاسیس سے متعلق علامہ کی ایک تجویز شائع ہوئی۔اس تجویز پر متعدد رد عمل سامنے آئے البتہ مولانا آزاد اور بعض دوسرے اکابرین نے علامہ شبلی نعمانی کی تجویز کی تائید کی تھی۔علامہ نے لکھا تھا کہ:
میرے نزدیک سب سے مقدم تجویز یہ ہے کہ مکہ معظمہ میں ایک جامعہ اسلامیہ قائم کی جائے جس میں تمام مذہبی اور دنیوی (جس میں علوم جدیدہ بھی شامل ہیں)علوم کی اعلی درجہ کی تعلیم ہو۔یہ ظاہر ہے کہ آج ہر قسم کی قوت علم پر موقوف ہے اور دراصل علم ہی اصل طاقت ہے۔اس لیے آج کل ہر قوم کی بقااسی پر موقوف ہے وہ عمام علوم و فنون میں کامل ہو۔(معارف:نومبر2013ص:384)
شبلی نے مکہ میں یونی ورسٹی کے قیام کے متعدد وجوہ بیان کیے تھے۔ان کے نزدیک یہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا مرکز ہے اور ہر مسلمان شوق و رغبت کے ساتھ یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آسکتے ہیں۔ان کا یہ بھی خیال تھا کہ جس قدر کثیر سرمایہ مکہ معظمہ کے لیے مہیا ہے کسی اور مقام کے لیے ممکن نہیں۔ہر برس آنے والے حجاج اگر فی کس دس روپیہ بھی اس یونی ورسٹی کو دیں تو یہ رقم لاکھوں میں پہنچ سکتی ہے۔شبلی نے ایک سبب یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہاں ایک نہایت عمدہ کتاب خانہ موجود ہے۔موسم کے یہاں لحاظ سے بھی یہ جگہ اساتذہ اور طلبہ کے لیے نہایت خوشگوار ہے۔نیز عرب کے وہ تمام قبائل جو ”ہزاروں برس سے جاہل ہیں“ان میں تعلیم آئے گی اور ان کے مختلف بڑے قبائل میں اس کی شاخیں قائم کی جائیں گی اور وظیفے کے ذریعہ ان کو علم کی طرف راغب کیا جائے گا۔شبلی نے آخر میں اپنے لیے یہ لکھا کہ:
میں بہ ایں شکتہ پائی یہ کرسکتا ہوں کہ اس کے لیے تمام ہندوستان کا دورہ کروں اور پھر ہجرت کرکے مکہ معظمہ چلاجاؤں اور اس مبارک جامعہ میں جاروب کشی کی خدمت انجام دوں۔(زمیں دار /15اپریل 1913)
علامہ شبلی کی نمایاں حیثیت ایک بلند پایہ مصنف اور ادیب کی ہے اور اسی حوالے سے ان کی شہرت بھی ہے لیکن ان کی تعلیمی کوششوں پر کم توجہ دی گئی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ تعلیم اور تعلیمی سرگرمیوں سے متعلق شبلی نے نہایت سرگرم زندگی گزاری۔ علی گڑھ سے ندوہ تک کے سفرمیں انھوں نے بہت کچھ صرف اور صرف تعلیم کے لیے ہی برداشت کیا۔زندگی کے نامسائد حالات کا سامنا بھی انھوں نے تعلیم کے لیے ہی کیا۔نصاب سے متعلق ان کی اصلاحات کو اگر اس وقت قبولیت مل گئی ہو تی تو آج تعلیمی صورت حال یکسر مختلف ہوتی۔اگر سو برس پہلے ندوۃ العلما نے ان کے نصاب کو قبول کرلیا ہوتا تو آج ہندستان میں مدارس کی ایک تاریخ ہوتی اور ایک الگ شان ہوتی۔