ڈاکٹر عمیر منظر
شعبہ اردو
مانو۔ لکھنؤ کیمپس
تشنہ عالمی سے میری کبھی ملاقات نہیں رہی،حالانکہ لکھنو آنے کے بعد ان کا ذکر برابر سنتا رہا۔یہیں آکر بہت سے ایسے اشعار جوکہ میرے حافظہ کا حصہ تھے پتاچلاکہ یہ تشنہ عالمی کے اشعارہیں۔کسی بھی شاعر کے لیے یہ بہت اعزاز کی بات ہوتی ہے کہ اس کے اشعار زبان زد خاص وعام ہوں، مگر اسی کے ساتھ اس المیے پر کہاں تک ماتم کیا جائے کہ اشعار پڑھنے والوں کو اس کے خالق کا پتا نہیں تھا۔ دنیا کے رنگ ڈھنگ کو برتنے کے لیے جس اہتمام کی ضرورت تھی، تشنہ نے اس کا کبھی خیال نہیں کیا۔وہ اپنے حال میں مست تھے۔اور اس حال سے کبھی وہ بے پروابھی نہیں ہوئے۔
تشنہ عالمی نے لکھنؤ میں سکونت اختیار کررکھی تھی، مگر شہری زندگی اور اس کے آداب و معاملات ان کی زندگی کا حصہ نہیں بن سکے۔ان کے پاس مال و دولت کی فراوانی نہیں، تھی مگر انسانیت کی مدد اور انسانی قدروں کے احترام میں انھوں نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔زندگی کے تجربوں نے انھیں خلوص و محبت کی جس عظیم دولت سے نوازا تھا، اسے خرچ کرنے کبھی پیچھے نہیں رہے۔شاید اسی وجہ سے انھوں نے شاعری کو کبھی اپنی ذات کے تعارف یا شہرت کے لیے استعمال نہیں کیا۔اور ایک لمبی مدت گمنامی میں اس طرح بسر کی کہ اہل لکھنؤ سے بھی یہ آفتاب کمال پوشیدہ رہا۔
لکھنؤ میں تشنہ عالمی کا شعری تعارف والی آسی کے توسط سے ہوا اور پھر رفتہ رفتہ ان کا حلقہ بڑھتا گیا، لیکن وہ شہرت اور مقبولیت انھیں نہیں مل سکی، جس کے وہ مستحق تھے۔ شعر وادب میں خود کومتعارف کرنا پڑتا ہے۔ اپنی نام وری اور شہرت کے لیے نئے نئے طریقے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ تشنہ عالمی نے کبھی ان چیزوں پر توجہ نہیں دی۔”بت کہی“کے نام سے ایک مختصرسا مجموعہ شائع ہوا ہے۔تشنہ عالمی کے قریبی احباب کا خیال ہے کہ وہ بہت سادہ مزاج انسان تھے۔اپنے لیے کچھ کرنا جانتے ہی نہیں تھے، گمنامی کے لیے یہ سبب بھی کچھ کم نہیں ہے۔انھوں نے اپنے لیے ضرور ایک راستہ طے کر رکھا تھا، مگر اس تنگ راستے سے بھی آتے جاتے لوگوں کو نہ صرف دیکھتے تھے، بلکہ ان کی نگاہ سب کچھ جان جاتی تھی جو کہ پردہ خفا میں ہوتا تھا۔یہیں سے ان کے مشاہدہ اور دنیا سے گہرے تجربے کا اندازہ ہوتا ہے۔وہ جو سوچتے اس کی ان کی انفرادیت اور چیزوں کو الگ ڈھنگ سے دیکھنے کا یقین ہوجاتا۔زندگی کی ناہمواریوں کو کون نہیں دیکھتا مگراس کو ایک خاص انداز سے بیان کرنے کا ہنر تشنہ عالمی کو ہی حاصل تھا۔
ہمارے سامنے دنیا کے سب جلتے مسائل ہیں
غزل کو جوڑتے ہم کیا کسی پایل کی گھنگرو سے
چودھویں کا چاند اب مجھ سے نہ دیکھا جائے گا
میں بہت بھوکا ہوں روٹی کا خیال آ جائے گا
شہر کی کالونی بڑھتی آرہی ہے گاؤں تک
یہ ہمارے کھیت اور باغات کھا جائے گی کیا؟
بدنام مجھے کیجئے لیکن یہ سمجھ کر
اس بات میں کیا آپ کی رسوائی نہیں ہے
ان اشعار سے تشنہ عالمی کی فکرمندی اور ایک تخلیق کار کی ذہانت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔بھوک ایک عالمی مسئلہ ہے اور حیرت ہے کہ تمام تر ترقی کے باوجود ابھی اس پر قابو نہیں پایاجاسکا ہے۔بھکمری ایک بہت بڑا المیہ ہے وہ ممالک جنھیں ایٹمی طاقت کا زعم ہے۔ ان کے یہاں بھی بھوک کا مسئلہ بھیانک شکل میں موجود ہے۔اس کی وجہ سے فکر ونظر کے بہت سے پہلو اور علم و دانش کی بہت سی باتیں نہ صرف یہ کہ برگ و بار نہیں پاتیں،بلکہ ایک مسلسل عذاب کی صورت انسانی ذہنوں پر مسلط رہتی ہیں۔آخری شعر ایک عجیب وغریب کیفیت سے دوچار کرتا ہے۔اور اس میں غور و فکر کے بہت سے پہلو ہیں۔
تشنہ کے تجربات بہت سادہ اور عام فہم ہیں۔انھوں نے شعری مرکبات یا بعید از فہم تراکیب کا سہارا نہیں لیا اور نہ اساطیری اور ثقافتی ورثوں کواپنے تک محدود رکھنے کو ہنر سمجھا،بلکہ ان کا خیال تھا کہ زندگی کے عام تجربات کو لوگوں تک پہنچانا چاہیے اور انھیں اس میں اپنا شریک بنانا چاہیے۔دراصل شہر کی کالو نی کھیت اور باغات کو جس طرح ختم کررہی ہے وہ صرف ایک نظر میں آنے والی چیز کا مسئلہ نہیں ہے،بلکہ کھیت اور باغ کی پوری جو ایک دنیا ہے اور اس سے جو لفظیات وابستہ ہیں ان کے ختم ہونے کا افسوس زیادہ ہے۔تشنہ عالمی کا بلاشبہ یہ ایک اہم کارنامہ ہے کہ انھوں نے کچھ ایسے الفاظ کو برتنے کی کوشش کی ہے،جن کو عام طور پر شاعری میں نہیں برتا جاتا۔ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے جن نئے تجربات سے ہم دوچار ہوتے ہیں وہ دراصل وہی ہیں جو تشنہ عالمی گاؤں سے چلتے وقت اپنے ساتھ شہر لے کر آئے تھے۔
بیڑی تنہائی کا احساس مٹادیتی ہے
یہ الگ بات کہ کپڑے بھی جلا دیتی ہے
اُس بے وفا کے پیار کا مت روگ پالیئے
جامن کی شاخ پر کبھی جُھولا نہ ڈالیے
نئی نسل ان فضاؤں اور ماحول سے یکسر ناواقف ہے، جو ان کے بزرگوں کی زندگی کا اہم حصہ تھے۔ہندستان کا ایک بڑا حصہ کاشت پر منحصر ہے۔زراعت موسم پر منحصر ہوتی ہے۔ سیلاب سے جہاں فصلیں سرسبزو شاداب ہوتی ہیں اور مٹی کے اندر نمو کی کیفیت بڑھ جاتی ہے وہیں بسااوقات سیلاب ایک دوسری صورت حال پیش کردیتے ہیں۔غریبوں کے لیے بیڑی مونس و ہمدم ہی نہیں ہے،بلکہ تنہائی کی رفیق بھی ہے۔اور یہ رفاقت زندگی کے ساتھ ہی ختم ہوتی ہے۔زندگی کا یہ سادہ تجربہ بھی کس قدر صفائی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔بیچارہ غریب ہر حال میں غربت سے دوچار رہتا ہے۔
آخری شعر کا تجربہ بھی خوب ہے۔غالب نے تو محبوب کے وجود کو ہی نازک بتاکر کہا تھا کہ چونکہ محبوب خود بہت نازک ہے اس لیے وہ جو بھی عہد کرے گا وہ بودا ہی ہوگا۔
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
اسے تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
مگر تشنہ عالمی نے اُس بے وفا کے پیار کا روگ نہ پالنے کا جومشورہ دیا ہے،اس کاجواز بہت عمدہ رکھا ہے کہ جامن کی ڈال پر کبھی جھولانہ ڈالیے۔کیونکہ یہ بہت جلد ٹوٹ جاتی ہے۔حالانکہ ’نازکی‘ یہاں بھی ہے مگر تشنہ کے اپنے انداز میں۔درختوں پر جھولا ڈالنے کی روایت بہت قدیم ہے اور گاؤں میں یہ خاص موسم(بسنت کے موقع پر) کی ایک اہم تفریح ہوتی ہے۔البتہ جامن کی شاخیں اتنی لچک دار اور ملائم نہیں ہوتیں کہ ان پر جھولا ڈالاجا سکے۔ تفریح کے یہ دن بھی بہت خوب ہوتے ہیں اور اس کالطف وہی لے سکتے ہیں، جنھوں نے لوگوں (عورت،مرد)کو جھولا جھولتے دیکھا ہو۔اس بات کو غزل کے روایتی مضمون سے مربوط کرکے تشنہ عالمی نے گاؤں کے سادہ سے تجربے کو غزل کی وسیع دنیا سے ملا دیا ہے۔
تشنہ عالمی کے بعض اشعار سے ان کے غیر معمولی مطالعہ کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔اور اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے صرف سنی سنائی باتوں یا مروجہ تجربات سے ہی شاعری نہیں کی ہے، بلکہ اس میں ان کا بہت کچھ اپنا ہے۔تشنہ عالمی کا ایک شعر ہے۔
یہ سچ ہے میں کوئی سالمؔ علی نہیں تشنہ
مگر غزل کے پرندے تلاش کرتا ہوں
پرندوں پر تحقیق کرنے والوں میں سالم علی کا نام بہت مستند اور معتبر ہے۔ان کی کتاب Indian Birdsکا پہلا ایڈیشن 1941 میں منظر عام پر آیا تھا اور اب تک اس کے تیرہ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔اپنے موضوع پر یہ کتاب اس لیے بھی بہت مستند ہے کہ اس سے قبل اس موضوع پر جو کام ہوئے تھے بالعموم ان کی حیثیت مطالعاتی تھی، مگر سالم علی نے فیلڈ اسٹڈی کی بنیاد پر پرندوں کی خصوصیات اور ان سے متعلق دیگر معلومات کو پیش کیا ہے۔ اس معلومات کی روشنی میں تشنہ عالمی کے شعر تک رسائی بہ آسانی ہوسکتی ہے اور ان کے ہدف اور مطلوب کو بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے۔
تشنہ عالمی نے یہ بھی کہا ہے کہ ؎
قریب و دور کے شیشے سجا کے عینک میں
کبھی زمیں تو کبھی آسماں کو دیکھتے ہیں
یہ بھی کچھ جینے کا انداز سکھا دیتی ہیں
چینٹیاں رینگتی رہتی ہیں جو دیواروں پر
دوالگ الگ غزلوں کے یہ اشعار ہیں مگر بہت حد تک کیفیت ایک جیسی ہے۔زمین و آسمان کو دیکھنے والا بس دیکھ رہا ہے قریب و دور کے شیشے سے مگر اسے حاصل کچھ نہیں ہوتا، بس خلا اور زمین کو دیکھتا رہتا ہے۔دیکھتے رہنا ہی شاید اس کا مقدر ہے۔اسی طرح چیونٹی کا بھی معاملہ ہے کہ اس کو رینگنے کے انداز سے جینے کا ہنر سیکھا جارہا ہے۔تجربے کی ایک نوعیت ضرور ہے، مگر یہ بھی شکست خوردگی کا ہی عمل تصور کیا جائے گا یا احساس محرومی کا۔زندگی کی بے شمار تلخ یادیں اور تجربے تشنہ عالمی نے شاعری کی صورت میں پیش کیا ہے۔ان تجربوں نے شاعری کو کس قدر مالا مال کیا اور اپنے قاری کو کس قدر بصیرت و مسرت سے ہمکنار کیا غور وفکر کا ایک پہلو ضرور ہے۔البتہ ان اشعار کے خالق کی تخلیقی ہنرمندی اور زندگی کی ناہمواریوں کو پیش کرنے کی جسارت کی داد ضرور دینی ہوگی۔تشنہ نے یہ بھی کہا ہے۔
زندگی جب سمجھ میں آنے لگی
موت دروازہ کھٹکھٹانے لگی
گہرے مشاہدہ اور بہت زیادہ تجربے کی صورت میں ہی یہ بات کہی جاسکتی ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ یہ شعر انھوں نے عمر کی کس منزل میں کہا، لیکن شعر کسی تصدیق کا محتاج نہیں ہے۔زندگی کے تلخ تجربوں کو بیان کرنے والے شاعر سے لکھنؤ والے محروم ہوگئے۔