خواتین مسجد کیوں آئیں؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-10-2022
خواتین مسجد کیوں آئیں؟
خواتین مسجد کیوں آئیں؟

 

 

احمد الیاس نعمانی 

خواتین مسجد کیوں آئیں؟

 اس موضوع پر غور وفکر کرتے وقت ایک سوال فطری طور پر ذہن میں آتا ہے،اور وہ یہ ہے کہ: متعدد احادیث میں آں حضرت ﷺنے یہ بات فرمائی ہے کہ خواتین کے لیے گھر میں نماز ادا کرنا بہتر ہے، تو پھر خواتین مسجد کیوں آئیں؟

 ہم نے جیسا کہ اوپر لکھا یہ ایک بالکل فطری سوال ہے جو اس مسئلہ پر غور وفکر کرتے وقت ذہن میں آتا ہے، لیکن اس سوال کا جواب رسول اللہ ﷺ کے ہی طرزِ عمل اور اسوہ میں پنہاں ہے۔

 ہم جانتے ہیں کہ اگرچہ آپؐ نے خواتین کے لیے گھر کی نماز کو زیادہ افضل بتایا تھا، لیکن آپؐ کی مسجد میں صحابیات حاضر ہوتی تھیں، پیچھے یہ بات بھی گزرچکی ہے کہ ان صحابیات کی تعداد کم نہیں ہوتی تھی، بلکہ مسجد نبوی میں بظاہر کئی صفیں ان کی ہوتی تھیں،یہی نہیں کہ آپ ﷺ ان کے مسجد آنے پر کسی طرح کی نکیر نہیں فرماتے تھے، بلکہ مسجد میں ان کی آمد کے پیشِ نظر متعدد امور کا اہتمام فرماتے تھے، جن کا تذکرہ اوپر ’فتنہ کا اندیشہ اور رسول اکرم ﷺ کا اسوہ‘ کے زیر عنوان گزرچکا ہے، اسی کے ساتھ آپؐ نے مردوں کو واضح الفاظ میں یہ ہدایت بھی فرمائی تھی کہ وہ اپنے گھروں کی خواتین کو مسجد آنے سے نہ روکیں۔

 اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین کے لیے گھر میں نماز کو افضل بتائے جانے کے باوجودعام خواتین نہیں صحابیات مسجد کیوں آتی تھیں، آپؐ ان کو منع کیوں نہیں فرماتے تھے، بلکہ مردوں سے کیوں یہ کہتے تھے کہ اپنے گھروں کی خواتین کو مسجد آنے سے نہ روکو؟

 اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مسجد صرف عبادت گاہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک بہترین تعلیم گاہ، تربیت کدہ اور دعوتی مرکز ہے، اس میں نہ آنا اصلاح، تعلیم وتربیت کے بے بدل نظام سے محرومی ہے، ہمارے آج کے اس گئے گزرے دور میں بھی مسجدیں اپنا یہ کردار ادا کرتی ہیں، آپ کو مسجد میں جتنے حضرات نماز کے پابند نظر آتے ہیں ان سے دریافت کیجیے کہ نمازاور دیگر دینی احکام کی پابندی کا یہ ذوق ان کے اندر کہاں سے پیدا ہوا؟ اور دین داری کا یہ رجحان ان کے اندر کیسے پنپا؟ ان کی اکثریت کا جواب آپ کو مسجد کے اس کردار کا پتہ دے گا، وہ مسجد کے ماحول اور اس میں ہونے والے بیانات کا تذکرہ کریں گے، نہ جانے کتنے ایسے لوگ ہیں جو بے نمازی تھے، کوئی خاص دینی رجحان نہیں رکھتے تھے، بس جمعہ پڑھ لیتے تھے، مسجد میں ہونے والے کسی وعظ یا خطاب کو سنا، جس نے ان کو ہلاکر رکھدیا، اور ان کی زندگی کا رخ بدل گیا، اب وہ ایک پابندِ شریعت مسلمان ہیں، یہی وجہ ہے کہ جن بستیوں اور آبادیوں میں مسجد ہوتی ہے ان کے افراد کا دینی حال ان مسلمانوں سے کہیں زیادہ بہتر ہوتا ہے جن کی بستی میں مسجد نہیں ہوتی۔

 ہم جب معاشرے کے کسی بھی حصے کے لیے مسجد کے دروازے بند کرتے ہیں اُس کو مسجد کے اِس خیرِ عظیم سے محروم کردیتے ہیں،اور یہی اس وقت خواتین کے ساتھ ہورہا ہے.

 مسجد کے اس ’خیر‘ سے خواتین کی محرومی کے متعدد نتائج ہماری نظروں کے سامنے ہیں، تقریبا ہر مسجد کے گرد وپیش میں آباد نوجوانوں کی ایک تعداد میں دینی اعتبار سے بڑی مبارک تبدیلی آتی ہے، ہمارا اپنا خود کا مشاہدہ ہے کہ اس تبدیلی کا تناسب نوجوان لڑکیوں میں نوجوان لڑکوں سے کہیں کم ہے، وجہ یہی ہے کہ نوجوان مردوں میں آنے والی اس تبدیلی میں بہت بڑا کردار مسجد کا ہوتا ہے، جب کہ صنفِ مخالف مسجد کے اس فیض سے محروم رہتی ہے۔

 مسجد کے اس ’خیر‘ سے استفادہ مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے کتنا ضروری اور مفید ہے اس کا اندازہ رسول اکرم ﷺ کی ایک ہدایت سے ہوتا ہے، عید کی نمازوں میں خواتین کی شرکت کا حکم آپ ﷺ بہت تاکید کے ساتھ دیتے تھے، ایک صحابیہ نے غالبا اسی تاکید کی وجہ سے دریافت کیا کہ اگر کسی خاتون کے پاس جلباب (اوڑھنی) نہ ہو اور اس وجہ سے وہ عید کی نماز میں شرکت نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ تو نہ ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: کوئی دوسری خاتون اسے جلباب دے دے، اور وہ اس موقع کے ’خیر‘ اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہو]بخاری: کتاب العیدین، باب اذا لم یکن لہا جلباب في العید، ۴۲۳[۔بعض محدثین وشراح نے تشریح کی ہے کہ اس حدیث میں ’خیر‘ سے مراد عید کے موقع پر کیا جانے والا خطاب ہی ہے]مثلا ملاحظہ ہو: حاشیۃ السندي علیٰ سنن النسائی، حدیث:۰۹۳[۔

 اس ’خیر‘ کو آپ ﷺ خواتین کے لیے بھی کتنا لازمی وضروری جانتے تھے اس کا اندازہ اس سے کریے کہ ایک مرتبہ عید کے موقع پر خطاب فرمانے کے بعد آپ بطور خاص وہاں موجود خواتین کے پاس گئے اور ان کومزید وعظ فرمایا۔]بخاری: کتاب التفسیر، سورۃ الممتحنۃ، حدیث:۵۹۸۴[

 اس پوری بات کو ہم یوں بھی سمجھ اور کہہ سکتے ہیں کہ ہر مسلمان مرد وعورت کے دینی حال میں بہتری وترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ کچھ وقت وہ خالص دینی ماحول میں گزارے، اور یہ ہماری ہی ضرورت نہیں ہے حضراتِ صحابہئ کرام بھی اس کی ضرورت محسوس فرماتے تھے، حضرت معاذ بن جبل جیسے جلیل القدر صحابی بھی اپنے ایک ساتھی سے کہا کرتے تھے: آؤ بیٹھو تھوڑی دیر اپنا ایمان تازہ کریں ]مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الایمان والرؤیا، باب، ۲۰۰۱۳[، یہ حضرت معاذ بن جبل ہیں، عظیم ترین علمائے صحابہ میں ان کا شمار ہوتا ہے، رسول اکرم ﷺ کے نہایت معتمد ہیں، اور وہ بھی اس کی ضرورت محسوس فرمارہے ہیں کہ وہ دوسروں کے ساتھ ایک دینی مجلس منعقد کریں جس میں ایمان تازہ کرنے والی باتیں ہوں اور اس طرح وہ اپنی ایمانی کیفیت میں بہتری لائیں، معروف تابعی امام حضرت علقمہؓ بھی اپنے شاگردوں سے کہتے: آؤ چلو، اپنی ایمانی کیفیت میں اضافہ کریں ]مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الایمان والرؤیا، باب، ۹۹۹۰۳[جب ان حضرات صحابہ وتابعین کو اس کی ضرورت محسوس ہوتی تھی کہ وہ کچھ دیر اپنے عام ماحول سے الگ خالص دینی ماحول میں گزاریں تو ہم جیسوں کے ایمانی حال کو اس کی کس قدر ضرورت ہوگی۔

 امت کی غالب ترین اکثریت کے لیے مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں جاکر وہ دینی ماحول میں کچھ وقت گزارسکے، کوئی اور جگہ یا مقام اس کا متبادل نہیں ہے، جو افراد مسجد نہیں آتے وہ اس خیرِ کثیر سے محروم رہتے ہیں، ایسے لوگ مسجد نہ آکر صرف جماعت سے نماز کی ادائیگی کی فضیلت سے ہی محروم نہیں رہتے، ایمانی ماحول اور اس کی برکتوں سے بھی محروم رہتے ہیں۔…… اس ایمانی ماحول اور اس کی برکتوں کی ضرورت صرف مردوں کو نہیں، عورتوں کو بھی ہے۔

 بعض برادران کہتے ہیں کہ خواتین کے لیے مسجد کے علاوہ بھی تو کہیں ایسی مجلسیں منعقد ہوسکتی ہیں، جیسے محلہ کے کسی گھر میں یا کسی اور جگہ، اس کے لیے مسجد ہی کی کیا ضرورت ہے؟

 ایسے برادران سے عرض ہے کہ:

 ۱- جس طرح مردوں کے لیے کوئی اور مقام مسجد کا کامیاب وعملی طور پر آسان متبادل نہیں ہوسکتا اسی طرح خواتین کے لیے بھی نہیں ہوسکتا، تجربہ اس کا شاہد ہے۔

 ۲- کیا آپ کو جس فتنہ کا ڈر مسجد میں خواتین کی آمد سے لگ رہا ہے، وہ کسی اور مقام پر جانے سے مانع نہ ہوگا، یہ کیسا فتنہ ہے جو مدارس واسکولوں میں جانے سے مانع نہیں ہوتا، کسی پڑوسی کے گھر میں جانے سے نہیں روکتا، کسی دینی جلسہ اور درس کے حلقہ سے باز نہیں رکھتا، بس مسجد کا نام آتے ہی ہمیں اس کی موہوم شدید نوعیت کا احساس ہونے لگتا ہے۔

 پھر تعلیم گاہوں سے لے کر ٹیلی ویزن اور موبائل تک کے تمام وسائل شرک کی تبلیغ کے ذرائع بنے ہوئے ہیں، عصری تعلیم کے تقریبا تمام اداروں کا نصاب دیو مالائی تہذیب کا ترجمان ہے، ذرائع ابلاغ روز وشب شرک کی تبلیغ کرتے ہیں، اسلامی عقائد واحکام کے خلاف مہم چلاتے ہیں، زمانہ کا ماحول آخرت سے غافل اور زینتِ دنیا کا اسیر کرنے والا ہے، حیا سوز مغربی تہذیب کا ہر سو بول بالا ہے، اس میں پروان چڑھ رہی موجودہ نسل (کے مرد وزن)کے لیے اس زہر کا تریاق کہیں ہے تو وہ مسجد ہے، اور اسے وہیں سے محروم کردینا کس قدر خطرناک ہے اس کا اندازہ ہر وہ شخص کرسکتا ہے جس کو زمانہ کے چیلنجس کا ادراک ہو۔

 اس پوری تفصیل سے امید ہے کہ یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ خواتین کی مسجد حاضری کی ضرورت کیا ہے؟ اور ان کے مسجد نہ آنے سے کیا نقصان ہے؟