منصورالدین فریدی ۔ نئی دہلی
یہ خبر آپ کو ایک بار پھریاد دلا رہی ہے کہ ’ایسا دیس ہے میرا‘۔ اسی لئے شاعر مشرق علامہ اقبال کہہ گئے ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘۔یہ مصرعہ اب پتھر کی لکیر بن گیا ہے۔ جب کبھی ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر سوال اٹھتے ہیں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ سامنے آتا ہے جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مضبوط بنیادوں کا کوئی نہ کوئی ثبوت پیش کرجاتا ہے۔یاد دلا دیتا ہے کہ اس ملک کی بنیادوں کو ہلانا اتنا آسان نہیں لیکن افسوس ہم پھر سوشل میڈیا کے زہریلی آب و ہوا میں غوطہ کھانے لگتے ہیں۔اس ملک کے سب سے بڑے پیغام کو بھلا دیتے ہیں کہ ہندی ہیں ہم وطن ہندوستان ہمارا۔
اس بار پھر ایک خبر آئی ،جس نے ہندوستان کی اس خوبصورتی کو اجاگر کردیا جس پر فرقہ پرستوں نے مسخ کرنے کی بے انتہا کوشش کی ہے ۔خبر رام کی نگری ایودھیا سے ہے۔ایک ایسے گاؤں کی ہے جہاں ہندووں کی اکثریت ہے،مگر اس گاوں میں پردھان کا پنچایت الیکشن جتنے کا سہرا ایک ’مولوی ‘ کے سر پر بندھا ہے۔ یہ ہیں حافظ عظیم الدین۔یہ ہے فیض آباد ضلع کے راجہ پور گاؤں کا واقعہ۔ ایودھیا کے اس گاؤں میں ہندوؤں کی اکثریت ہے، لیکن پہلی بار ایک مسلم امیدوار نے فتح حاصل کر سبھی کو حیران کر دیا ہے۔
در اصل اس وقت خبروں میں کورونا کے سوا کچھ نہیں۔ہر جانب کورونا ہی کورونا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گویا دنیا میں کچھ اور ہو ہی نہیں رہا ہے۔ ملک کی ریاست اتر پردیش بھی کورنا کے بد ترین حالات اور بد انتظامی کے سب خبروں میں ہے۔کورونا کی دوسری لہر کی تباہ کاری اور تیسری کی آمد کا خوف سب کے نفسیات پر سوار ہے۔اس لہر میں اتر پردیش کے پنچایت الیکشن ہوگئے۔بی جے پی کو جھٹکا بھی لگا۔۔مگر اس سے بڑی خبر کچھ اور نکلی جو ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کےلئے حیات بخش ثابت ہوگی۔
ہندووں نے دل کھول کر دئیے ووٹ
دراصل راجہ پور گاؤں میں حافظ عظیم الدین نے الیکشن جیت کر پردھان بننے کا اپنا خواب شرمندۂ تعبیر کر لیا ہے۔ راجہ پور گاؤں ہمیشہ سے ہی ہندو اکثریتی علاقہ رہا ہے اور یہاں اکثر ہندوؤں کو ہی پردھان منتخب کیا جاتا رہا ہے۔ اس بار حافظ عظیم الدین نے پردھان بن کر سبھی کو حیران کر دیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ انھوں نے کثیر ووٹوں کے فرق سے یہ جیت حاصل کی ہے جس سے ظاہر ہے کہ ہندو طبقہ نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے دل کھول کر اپنا ووٹ دیا۔
یا د رہے کہ اتر پردیش میں پنچایت الیکشن کے نتائج سے جڑے اہم اور حیران کرنے والے پہلوؤں پر خبریں شائع ہو رہی ہیں۔ اس بار اتر پردیش کا پنچایت الیکشن کئی معنوں میں خاص رہا۔ کئی بڑے ناموں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، تو کئی ایسے لوگوں نے جیت درج کی جس کے تعلق سے کسی کو امید نہیں تھی۔ ان میں حافظ عظیم الدین بھی ہیں۔
عید کا تحفہ ہے
عظیم الدین نے کل 600 ووٹوں میں سے 200 ووٹ حاصل کئے ، انہوں نے اپنے قریبی حریف سے 85 ووٹ زیادہ حاصل کئے۔ راجا پور میں 27 مسلم ووٹر ہیں اور سب عظیم کے خاندان سے ہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ خاندان کے ووٹوں کے بعد دیگر ووٹ ان ہندوؤں کی طرف سے آئے ہیں جنہوں نے مجھ پر اپنا اعتماد کیا ہے۔انہوں نے اپنی فتح کو عید کا تحفہ قرار دیا۔ عظیم الدین پیشہ سے کسان ہیں ،انہوں نے حافظ اورعالم کی ڈگری حاصل کی ہے۔ انہوں نے اپنے خاندانی کام کاشتکاری میں شامل ہونے سے پہلے 10 سال مدرسہ میں تعلیم دی تھی۔انہوں نے اپنے گاؤں کی ترقی پر گرام پردھان فنڈز خرچ کرنے ، بنیادی سہولیات کو بڑھانے اور ایم این آر ای جی اے کے تحت مستحق افراد کو ملازمت فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
محبت اور حمایت طاقت بنی
عظیم الدین نے کہا کہ یہ گاؤں کے لوگوں کی محبت اور حمایت ہے جس نے انہیں الیکشن لڑنے اور جیتنے کی طاقت دی۔ انہوں نے کہا ، گاؤں میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہے۔ ہم سب ایک بڑے کنبے کی طرح ہیں۔ دیہاتوں میں تین مندر ہیں اور مجھے معلوم ہوا کہ لوگوں نے بھگوان سے دعا کی تھی اور یہاں تک کہ وہ میری جیت کے لئے روزے رکھے ہوئے ہیں۔
بہت سارےمقامی باشندوں نے ان کی الیکشن میں کامیابی کا خیرمقدم کیا۔ ایودھیا مسجد ٹرسٹ کے سکریٹری اطہر حسین نے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان میں ثقافتی ہم آہنگی کا نظریہ تمام تر مشکلات کے باوجود زندہ ہے۔ آئیے ہم آہنگی اور برادرانہ تعلقات کو مضبوط بنائیں۔