ملک و قوم کی فلاح و ترقی کی راہ کو ہموار کرتا ہے خطبہ ۔مولانا ظہیرعباس رضوی

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 26-08-2023
 نماز جمعہ ہے مگر روح جمعہ غائب
نماز جمعہ ہے مگر روح جمعہ غائب

 



منصور الدین فریدی : نئی دہلی 

موجودہ حالات میں خطبہ جمعہ کی جتنی سخت ضرورت ہے اتنا ہی اس کی  اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل ہوگیا ہے۔لوگ نماز جمعہ تو پڑھتے ہیں لیکن ان کی دلچسپی خطبہ جمعہ میں نہیں ہوتی ہے ۔اس کی ذمہ داری خطیبوں پر بھی ہے  ۔ جنہوں نے خطبہ جمعہ کو غیر ضروری باتوں اور موضوعات کے سبب عدم دلچسپی کا شکار بنا دیا ۔ ورنہ خطبہ جمعہ کا کردار قوم کی رہنمائی کا تھا۔ مسئلہ مذہبی ہو یا سماجی یا معاشی ۔ ملک و قوم کی فلاح و ترقی کی راہ کو ہموار کرتا ہے خطبہ بشرطیکہ اس میں پیغمبر اسلام  کے اصولوں کو اپنایا جائے۔خطبہ جمعہ تمام مسائل اور الجھنوں کا نسخہ بن سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب ایسا نہیں رہا

 ممتاز عالم مولانا سید ظہیرعباس رضوی نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خطبہ جمعہ کی اس وقت عجیب وغریب صورتحال ہے ۔ پہلے خطبہ نماز جمعہ کی روح ہوا کرتا تھا اب ’روح جمعہ ‘ہی غائب ہے ۔ اب نمازجمعہ دو رکعت نماز کے سوا کچھ نہیں ۔

خطبہ کے نام پر قصے کہانیوں کا دور چل پڑتا ہے وہ بھی گمراہ کن۔ رسول اللہ نے جس جمعہ کو قائم کیا تھا وہ اب نظر نہیں آتا ہے۔خطبہ جمعہ کا مقصد تھا کہ لوگوں کو حالات حاضرہ سے واقف کرانا ،ان کے مسائل کا حل مہیا کرنا،بات معاشی ہو،سماجی یا پھر مذہبی ہر موضوع پر راہ دکھانے کا کام کرتے تھے خطبے۔ اب حالات برعکس ہیں ۔

مولانا ظہیرعباس کہتے ہیں کہ جمعہ کے خطبہ میں بات اتحاد واتفاق کی ہو،قومی مفادات کی ہو،درمیانی راستہ کی ہو،جذبات سے دوری ہو،بات عملی ہو اور تنازعات سے دوری کی ہو۔ مگر اب ہم بہت سی خوبیوں کو بھول گئے خطبہ کا مطلب ہے کہ ہم لوگوں کو راہ دکھائیں،حالات حاضرہ سے آگاہ کریں اور اپنی حکمت پر روشنی ڈالیں ۔مگر اب نہ خطیب سنجیدہ رہ گئے اور نہ ہی لوگ۔یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو ہم کو اپنے مسائل کے حل کے ساتھ مذہبی رواداری،اقلاقیات اور قومی ذمہ داری کا احساس پیدا کرا سکتا ہے بشرطیکہ خطبہ دینے والا حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتا ہے۔

کیوں اور کیسے ہوا تھا نماز جمعہ کا آغاز 

مولانا ظہیر عباس رضوی نے کہا کہ اگر ہم بات خطبہ کی کریں تو جب پیغمبر اسلام ہجرت کرکے مدینہ آئے تو دوسرے سال لوگوں نے پیغمبر اسلام سے رجوع کیا اور کہا کہ  یہودی اور عیسائیوں نے بالتریت ہفتہ اور اتوار ایک دن مقرر کر رکھا ہے جب عبادت کے ساتھ آپس میں ملاقات کرتے ہیں۔جس کے بعد اللہ تعالی کی جانب سے جمعہ کا دن مقرر کیا گیا۔نماز جمعہ  قائم پر کی گئی۔ جس میں خطبہ جمعہ کا آغاز ہوا۔ پیغمبر اسلام  نے خطبہ میں نمازیوں کو پہلے حصے میں حالات حاضرہ پر روشنی ڈالی جاتی تھی۔بیداری پیدا کی جاتی تھی۔اہم معاملات پر معلومات مہیا کی جاتی تھی۔

کہاں سے گراوٹ آئی

مولانا ظہیر عباس رضوی کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے خطبہ جمعہ کو متعارف کرایا اور ان کے بعد اصحاب کرام نے خطبے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس وقت تک خطبہ کی روح برقرار تھی لیکن امیر شام کے دور سے گراوٹ کا آغاز ہوگیا تھا ۔حالانکہ میری اس بات سے بہت سے لوگ اختلاف کریں گے لیکن تاریخ یہی بتاتی ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں میں مسلک کا زور ہوا،مسالک کی بنیاد پر بٹ گئے مسلمان ۔شعیہ سنی کا فرق ہوگیا

علما متوجہ کرنے میں کامیاب نہیں

خطبہ جمعہ کی ختم ہوتی تاثر پر مولانا ظہیرعباس رضوی کہتے ہیں کہ یہ خطیب کی ذمہ داری ہے کہ نمازی متوجہ رہیں ،مقصد جمعہ سے نہ بھٹک سکیں ۔اس کے مقاصد پیغمبر اسلام نے طے کئے تھے۔اس لیے خطیب کو بیدار رہنا چاہیے کہ وہ کیاپیغام دے رہا ہے ۔یہ باتیں یا پیغام ایسے الفاظ میں ہو کہ غیر مسلموں کو بھی متاثر کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ خطبہ جمعہ نئی نسل کی تربیت کا ذریعہ ہے۔ آپ اس میں اخلاقیات کا درس دے سکتے ہیں جن کی بنیاد پر نئی نسل معاشرے میں اپنی پہچان بناتی ہے

خود علما ایسے مسائل اور مقاصد کی جانب لوگوں کو متوجہ نہیں کررہے ہیں ،بات اب مسلک کی ہوتی ہے۔غیر ضروری موضوعات پر ہوتی ہے ۔ جس کے سبب خطبہ جمعہ کا اثر کم ہوتا گیا ہے۔ اگر ہم اچھے موضوع پر جواز کے ساتھ بات کریں گے تو لوگ خود بخود دلچسپی لیں گے ۔کسی کو خطبہ میں اکتاہٹ نہیں ہوگی ۔