سعودی عرب : مذہبی رواداری کا نیا دور، کرسمس کا جوش و خروش

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 25-12-2022
سعودی عرب : مذہبی رواداری کا نیا دور، کرسمس کا جوش و خروش
سعودی عرب : مذہبی رواداری کا نیا دور، کرسمس کا جوش و خروش

 

 

جدہ : سعودی عرب جب میں کرسمس کی رونق  قابل دید رہی ہیں, چند سال قبل تک سعودی عرب میں کرسمس ایک چھوٹا سا تہوار تھا ، جو بند کمروں میں منایا جاتا تھا گھروں تک محدود تھا جسے تارکین وطن بند دروازوں کے پیچھے مناتے تھے۔ لیکن  اب سعودی عرب بدل رہا ہے یا بدل چکا ہے - کرسمس کا تہوار روایتی دھوم دھام سے اسی انداز میں منایا گیا جیسا کہ مغربی دنیا میں منایا جاتا ہے-

  بازاروں  اور دکانوں میں زبردست رونق اور سجاوٹ کے ساتھ خریداروں  کی بھیڑ نظر آرہی تھی - یہ تبدیلی ہے ایک انقلاب- اب مذہبی رواداری کے ماحول اور ثقافت کی بدولت مملکت میں یہ تہوار کھلے عام منایا جاتا ہے اور تارکین وطن اور مقامی شہری یکساں طور پر لطف اندوز ہوتے ہیں

سعودی عرب میں پہنچنے والے غیرملکی سیاحوں کی بڑھتی تعداد مملکت کے اس رجحان کی مظہر ہے کہ برداشت اور رواداری کے حوالے سے کرسمس کی تقریبات کا انعقاد مملکت کے اصلاحاتی ایجنڈے کا اہم حصہ ہے۔

جدہ کے مصروف ترین محلوں میں سے ایک میں ماریہ کیری کی بیکری میں ’آل آئی وانٹ فار کرسمس از یو‘ کی تھیم تلے شہری اس موقع پر کافی اور ہاٹ چاکلیٹ پیتے نظر آتے ہیں۔

جدہ کے ایک اسٹور کا منظر

ریاض میں کرسمس کی مناسبت سے درخت، جدہ کی مارکیٹ میں سنومین اور الخبر میں سانتا کلاز کے ماڈل بھی نظر آتے ہیں۔ یہاں بسے تارکین وطن سعودی عرب کو اپنا گھر سمجھتے ہیں اور یہاں رہنے کا انتخاب کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اعتدال پسند کوششوں نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا ہے جو دوسرے عقائد اور روایات کے لیے خوش آئند ہے۔

اس تبدیلی نے مقامی مارکیٹ کی دکانوں اور ای کامرس پلیٹ فارمز کو مختلف فیسٹیول کی مناسبت سے اپنے گاہکوں کو اس سے متعلقہ مصنوعات کی وسیع رینج فروخت کرنے کی بھی اجازت دی ہے۔

کرسمس کی سجاوٹ

عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق جدہ میں نیپکو نیشنل میں کام کرنے والے سعودی مارکیٹنگ پروفیشنل وجدان الخطابی نے بتایا ہے کہ ’میں ایسی جگہ کام کرتا ہوں جہاں 70 فیصد ملازمین مسیحی ہیں اور اس سال کرسمس کی اشیا اچھی فروخت ہو رہی ہیں اور ان کی بہت زیادہ مانگ ہے۔‘ الخطابی نے بتایا کہ کمپنی کے ملازمین میں سے کچھ اپنے آبائی ممالک میں جا کر مذہبی تقریب مناتے ہیں اور ان میں سے کچھ یہاں انتظام کرتے ہیں۔

پہلے پہل یہاں بسنے والے مسیحیوں کو کرسمس کا جشن منانے کے لیے اس حوالے سے مصنوعات دستیاب نہیں تھیں تاہم اب وہ اس سے متعلقہ اشیا یہاں سے حاصل کر سکتے ہیں۔ الخطابی نے بتایا کہ ’میں نے اپنی بیٹی کے ساتھ مل کر جدہ میں ایک مسیحی دوست کے گھر پر کرسمس ٹری سجانے میں اس کی مدد کی ہے۔

یہ خاص قسم کا درخت انہوں نے ای کامرس کے ذریعے منگوایا جسے یہاں پہنچنے میں ایک ہفتہ لگ گیا اور دیگر سجاوٹی چیزیں بھی مختلف جگہوں سے آسانی کے ساتھ حاصل کی ہیں۔ ای کامرس کے ذریعے شاپنگ نے مملکت میں مسیحی گھرانوں کے لیے تحائف اور سجاوٹ تک رسائی اور دوستوں اور پڑوسیوں کے ساتھ اپنی روایات کو شیئر کرنا آسان بنا دیا ہے۔

دکانوں میں کرسمس کے تحائف کی تھی بھریار

الخطابی نے کہا کہ ’ہم سب اس تیاری کے ماحول سے لطف اندوز ہوئے ہیں اور میں اس سے محبت کرتا ہوں اور مختلف نقطہ نظر کے حامل لوگوں کے ساتھ یہ روشن خیالی کی مثال ہے۔

سعودی عرب میں مقیم لبنانی شہری ایلین کرم کا کہنا ہے کہ ’میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ مملکت کے مختلف سٹورز میں کرسمس کی سجاوٹ تلاش کرنا گزشتہ برسوں کی نسبت آسان ہے۔ ایلین نے بتایا کہ ’پہلے پہل اس طرح کی سجاوٹ مخصوص جگہوں پر ہی دستیاب تھی ، ہم مختلف سفارت خانوں میں لگے کرسمس بازاروں سے یہ سب خریدتے تھے۔

ان دنوں مملکت کے کئی شہروں اور قصبوں میں کچھ کیفے اور ریستوران میں اس حوالے سے سجاوٹ اور درآمد شدہ مختلف چیزیں رکھی ہیں اور کرسمس کے تھیم والے کپ پیش کیے جا رہے ہیں۔

اسی طرح دارالحکومت کے مشہور شاپنگ سینٹر اور مال میں کئی دکانیں کرسمس کی سجاوٹ اور تحائف فروخت کر رہی ہیں۔ مال میں موجود ایک دکاندار وداد المالکی نے بتایا ہے کہ ’کرسمس کا تہوار منانے والوں کی اکثریت نے وقت سے پہلے ہمیں خصوصی آرڈر دیئے ہیں اور کرسمس پیکج کی بہت زیادہ مانگ رہی ہے۔

جدہ میں مقیم اردن نژاد نعیمہ الصبیع نے بتایا ہے کہ وہ انہوں نے اس سال کرسمس کا استقبال موسم سرما کی تھیم پر مشتمل مکمل سیٹ کے ساتھ کیا ہے جس میں بجلی کی چمنی، سنو مین، روایتی درخت اور چمکدار زیورات شامل ہیں۔ مملکت میں ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں نے بھی کرسمس کی تھیم کو اپنے کاروبار کا حصہ بنایا ہے اور تہوار کے مناظر کی تصاویرسے مزین نئے اشتہارات جاری کیے ہیں۔

تاہم گذشتہ کچھ برسوں میں یہ سب بدل چکا ہے۔ دکانوں میں کرسمس کی تقریبات سے متعلق چیزیں اور تحائف نظر آتے ہیں۔

ایک دہائی سے بھی کم عرصہ قبل اس طرح کے مناظر سعودی عرب میں کہیں نظر نہیں آتے تھے۔ سعودی عرب ایک ایسا ملک رہا جہاں عوامی طور پر کرسمس منانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اب اس تہوار کی علامتیں، گانے اور روایات سعودی شہروں کی تجارتی اور سماجی زندگی میں سما گئی ہیں۔

ماضی میں سعودی عرب میں کرسمس جیسے مذہبی تہوار منائے گئے لیکن بڑے پیمانے پر نہیں بلکہ گھروں اور کمپاؤنڈز کی اونچی دیواروں کے پیچھے صرف غیر ملکیوں کے رہائشی مقامات تک محدود رکھے گئے۔

بازاروں اور مالز میں زبردست رونق

سعودی عرب میں اس بڑی سماجی تبدیلی کے بارے میں سب کی اپنی اپنی رائے ہے مگر مجموعی طور پر لوگ اس تبدیلی سے خوش ہیں- اس کو ایک کھلے سماج کی نشانی اور علامت مان رہے ہیں  مذہبی طور پر اس پر بحث کی گنجائش ہونے کے باوجود اسے ایک  فاصلہ کے ساتھ منانے پر یقین ظاہر کر رہےہیں

جامعہ الامیرہ نورہ میں انگلش کی استانی منیرہ النجیمن نے بتایا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ بہت سے سعودی شہریوں نے رواداری کے نظریے کو غلط سمجھا ہے۔

میں ثقافتی رواداری پر پختہ یقین رکھتی ہوں جس کا مطلب ہے کہ سعودی عرب میں عیسائیوں کو اپنے مذہبی عقائد منانے کی اجازت دی جائے۔ میں خود نہیں مناتی کیونکہ وہ میری مذہبی یا ثقافتی شناخت کی عکاسی نہیں کرتے۔

ڈینٹسٹ معاویہ الحاضم نے نیویارک سے تعلیم حاصل کی، وہ کہتی ہیں کہ مملکت واپسی کے بعد ان کو کرسمس کا ماحول یاد آتا ہے۔ ’میں اس کو مذہبی طور پر نہیں مناتی کیونکہ میں ایک مسلمان ہوں۔ لیکن دوسرے لوگوں کی خوشی کا حصہ بننا ہمیشہ اچھا رہا ہے۔ مجھے یہاں کرسمس کی کئی تقریبات میں مدعو کیا گیا ہے۔‘