مصر:روایات کیلئے حیات بخش ہوتا ہے رمضان المبارک

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 14-04-2021
فانوس کی جگمگاہٹ
فانوس کی جگمگاہٹ

 

 

  منصور الدین فریدی

یوں تودنیا پر کورونا کا سایہ ہے،عام زندگی متاثر ہے،رمضان بھی اس کی زد میں ہے۔ہر ملک میں اس کی رونق پر اثر پڑنے کا امکان ہے۔ بہرحال عبادت کے مہینہ کی روح اپنی جگہ برقرار رہتی ہے،لوگ محفوظ فاصلہ اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ رمضان المبارک کا استقبال کررہے ہیں۔ہم آج ذکر کررہے ہیں مسلم ممالک کی ایسی روایات کا جو تاریخ کا حصہ ہے۔ ان ممالک کی رونق ہیں۔ان کی طرز زندگی کا آئینہ ہیں اور دنیا کیلئے دلچسپی کا سامان بھی۔دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے مسلمان رمضان سے ہفتوں پہلے تیاری شروع کر دیتے ہیں۔کہیں کھانے پر زور،کہیں سجاوٹ پر۔کہیں روایات پر۔ دراصل رمضان کے دوران یہ روایات اس ملک کی تہذیب اور تاریخ کو بھی بیان کرتی ہیں اور اس کی یاد دلاتی ہیں۔

 مصر ایک ایسا ملک ہے جو رمضان کی تیاریوں اور تہواروں کے لحاظ سے مشہور ہے۔ اگر کسی نے کبھی مصر میں رمضان کا مہینہ گزارا ہو تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ مصر میں رمضان کا اپنا ہی مزہ ہے۔اس ماہ اپنا ایک خاص ذائقہ اوررنگ ہے۔ رمضان کی پہلی نشانی ہوتی ہے بتیوں کا جلایا جانا۔ بتیاں جلائے جانے کے بارے میں کہ یہ رسم کہاں سے شروع ہوئی مختلف روایات ہیں۔یہ رسم آج بھی زندہ ہے بلکہ اب دوسرے اسلامی ممالک تک بھی پھیل رہی ہے۔۔ایک اور یاد رکھی جانے والی رسم گلیوں کو سجانا ہے۔ایک اورروایت ا ل مسحرہ ایک اور مصری روایت ہے۔ رات کو ایک آدمی ڈھول لئے پورے علاقے کا گشت کرتا اور لوگوں کو سحری کے لئے جگاتا

 ایک چیلنج ہے

بدلتے دور میں ان روایات کو زندہ رکھنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ فانوس کی جگہ اب چین کی رنگ برنگی لائٹس لے رہی ہیں تو توپ اور ڈھول کے عادی لوگ اب اسمارٹ فون کے الارم کے عادی ہوگئے ہیں۔پھر بھی مصر کے رمضان المبارک کا ہر پہلو قابل دید ہے۔روایتی افطار اور سحری کا رواج برقرار ہے،اکثریت اس ماہ کے دوران مغربی طرز کے کھانوں کو ترک کردیتی ہے۔اب فانوس کے استعمال کا شوق کم ہوا ہے مگر ختم نہیں ہوا ہے۔مصر میں افطار اور سحری کے دوران بالکل الگ ماحول نظرآتا ہے،زندگی کے الگ رنگ اور الگ انداز۔کیا بچے اور کیا بزرگ سب تراویح کیلئے صف میں نظر آتے ہیں۔قاہرہ کی سڑکوں پر رمضان المبارک کی رونق قابل دید ہوتی ہے۔

فانوس کی روایت

مصر میں رمضان المبارک کے دوران بچے چمکتے ہوئے فانوس (لالٹین) اٹھا کر گلیوں کے چکر لگاتے ہیں، یہ روایت ایک ہزار برس سے زائد پرانی ہے۔کہا جاتا ہے کہ 969ء میں اہلِ مصرنے قاہرہ میں خلیفہ معزالدین اللہ کا فانوس جلا کر استقبال کیا تھا۔اس وقت تک فانوس یا لالٹین کو صرف رات کے وقت گھر سے باہر نکلتے ہوئے روشنی کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن خلیفہ کے استقبال کے بعد فانوس کا استعمال خوشی اور استقبال کا استعارہ بن گیا۔اس کے اگلے برس سے ماہ رمضان میں فانوسوں سے چراغاں کرنے کا رجحان شروع ہوا جو آگے چل کر ایک اہم رواج کی صورت اختیار کرگیا۔

awazurdu

خلیفہ کی آمد کے کچھ عرصے بعد جب مصر میں فاطمی خلافت کا آغاز ہوا تو خلیفہ الحاکم نے حکم جاری کیا کہ لوگ اپنے گھروں اور دکانوں کے سامنے کی حصہ کی صفائی کریں اور رات کے وقت وہاں فانوس نصب کریں تاکہ گلیاں اور راستے روشن رہیں۔یہ فانوس ساری رات جلانے کا حکم تھا۔ اس حکم کی خلاف ورزی پر جرمانے بھی عائد کیے جاتے تھے۔ایک اور حکم خواتین کی سہولت کے لئے جاری کیا گیا کہ رات کے وقت خواتین اس وقت تک گھروں سے باہر نہ نکلیں جب تک ان کے ساتھ کوئی نو عمر لڑکا (یا مرد) لالٹین تھامے، انہیں روشنی دکھاتا ہوا ان کے ساتھ نہ چلے۔

 محفلوں کا دور

اس زمانے میں ماہ رمضان میں خواتین کے رات دیر تک گھروں سے باہر رہنے کا بھی رواج تھا۔یہ خواتین خاندان کی کسی ایک بزرگ خاتون کے پاس جمع ہوجاتیں اور اس محفل میں تاریخی قصے سنے اور سنائے جاتے۔ ہر گھر سے ایک خادم گھر کی خواتین کے ساتھ موجود ہوتا جو واپسی میں ان کے آگے روشن فانوس لے کر چلتا۔ساتھ ہی اس وقت گلیوں کے گشت پر معمور سپاہیوں کے لئے بھی فانوس کی موجودگی ضروری قرار دی گئی۔ان تمام احکامات نے فانوس سازی کے فن کو بطور صنعت پھیلانے کا آغاز کیا۔فانوس بنانا باقاعدہ صنعت اور کاروبار کی شکل اختیار کرگیا اور اس میں وقت کے ساتھ جدتیں پیدا کی جانے لگیں جن کے تحت مختلف رنگ، جسامت اور ہیئت کے فانوس بنائے جانے لگے۔اب جبکہ جدید دور میں بجلی کی سہولت میسر ہے، تو فانوس ایک ضرورت سے زیادہ آرائش اور زیبائش کی شے بن گیا ہے تاہم ماہ رمضان میں فانوس جلانا مصر کی روایات کا اہم حصہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہی۔ اب اس شوق میں کمی آئی ہے لیکن پرانے علاقوں میں اب بھی فانوس نظر آتے ہیں۔

awazurdu

سحری میں ڈھول

 الارم گھڑیوں اور اسمارٹ فونز کے اس دور میں ایک ہزار سال کی طویل روایت پر نگہبان کچھ کردار اب ختم ہوتے نظرآرہے ہیں۔دنیا میں رمضان المبارک کے مہینے میں مساہراتی کرنے والوں کے حوالے سے بعض ثقافتی روایات اب بھی جاری ہیں، ان قدیمی روایات میں ایک ڈھول بجاکر لوگوں کو سحری کے وقت جگانے کی روایت بھی ہے، یہ روایت تقریباً چار سو سال پرانی ہے اور یہ سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ النصیر کے دور میں مصر سے شروع ہوئی۔مصر کا حکمران عتبہ ابن اسحاق رمضان کے دوران قاہرہ کی سڑکوں کا دورہ کرنے والے پہلا شخص تھا جو لوگوں کو شاعرانہ انداز میں بولتے ہوئے جگاتا تھا وہ کہتا تھا تم لوگوں میں جو سو رہے ہیں وہ اٹھیں اور اللہ کی عبادت کریں۔سحری کے لئے جگانے والوں کو رمضان کے ڈھولئے کہا جاتا ہے، رمضان المقدس کے مہینے میں سحری سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ قبل ڈھول والے گلی گلی ڈھول بجاتے ہوئے گھومتے ہیں،یوں سحری کے لئے جگانے کی روایت اب بھی کسی حد تک قائم ہے۔کچھ عرصے قبل پہلے مساہراتی خاص طور پر بچوں میں بہت مشہور ہوتا تھا۔

مصر میں سحری کے وقت دیہاتوں اور شہروں میں ایک شخص لالٹین تھامے ہر گھر کے سامنے کھڑا ہوکر اس کے رہائشی کا نام پکارتا ہے یا پھر گلی کے ایک کونے میں کھڑا ہوکر ڈرم کی تھاپ پر حمد پڑھتا ہے۔ اگرچہ اسے کوئی باقاعدہ تنخواہ نہیں ملتی لیکن ماہِ رمضان کے اختتام پر لوگ مختلف تحائف دیتے ہیں۔ یہ روایت صرف مصر سے مخصوص نہیں اور اسلام کے ابتدائی دور سے ہی مروج ہے۔ اسلامی روایات کے مطابق مسلمانوں کے اولین مساہراتی حضرت بلال حبشی تھے جو اسلام کے پہلے مؤذن بھی تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال کی ذمہ داری لگائی کہ وہ اہلِ ایمان کو سحری کے لئے بیدار کریں۔ مساہراتی گلیوں کے چکر لگاتا ہے اور اس کے ساتھ ایک بچہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں ان تمام افراد کی فہرست ہوتی ہے جن کو سحری کے لئے آواز دے کر اٹھانا مقصود ہوتا ہے۔

رمضان کے اختتام پر اسے ہر گھر سے کچھ نہ کچھ روپے مل جاتے ہیں۔ دلچسپ اَمر یہ ہے کہ مساہراتی نسل در نسل یہ کام سرانجام دیتے ہیں، چناں چہ ان کا حافظہ قابلِ داد ہوتا ہے اور وہ علاقہ کے ہر شخص کے نام سے آگاہ ہوتے ہیں۔ مساہراتی اپنا ڈرم خود بناتے ہیں اور اسے بنانے کا طریقہ صرف ان کو ہی معلوم ہے۔ اس ڈرم کی خوبی یہ ہے کہ اس کی گونج دور تک سنائی دیتی ہے۔

awazurdu

توپ کا راز

اس کے ساتھ افطار اور سحری میں توپ داغنے کی روایت ہے،کہا جاتا ہے کہ ایک جرمن مہمان نے مملوک سلطان الظہیر سیف الدین کو ایک توپ تحفتاً پیش کی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مملوک سلطان کے سپاہیوں نے یہ توپ شام کے وقت چلائی، رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور اتفاق سے افطاری کا وقت تھا۔ شہریوں نے یہ تصور کیا کہ یہ ان کو افطار کے وقت سے آگاہ کرنے کے لئے ہے جس پر انہوں نے روزہ کھول لیا۔ جب سلطان کو یہ ادراک ہوا کہ رمضان المبارک کے دوران سحری و افطاری کے وقت توپ چلانے سے ان کی شہرت میں اضافہ ہوا ہے تو ان کو یہ روایت جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔

آنے والے برسوں کے دوران اس نے خاصی مقبولیت حاصل کرلی اور دنیا کے مختلف مسلمان ملکوں نے بھی اسے اختیار کرلیا۔ کہتے ہیں کہ سلطان کے حواریوں نے یہ تجویز ملکہ فاطمہ کو پیش کی کیوں کہ شاہِ مصر ملک سے باہر تھے، چنانچہ اس توپ کا نام ملکہ سے منسوب کر دیا گیا۔

 رمضان اسپشل ڈش

مصری لوگ رمضان میں رسمی مٹھائی والے کھانے پسند کرتے اور اس ماہ میں کیک کا استعمال بہت کم کرتے۔ بہت سے مصری لوگ ایک خاص پودے کی جڑوں سے تیار شدہ شربت افطار کے لئے تیار کرتے۔سب سے اہم ڈش زوچینی اورایگ پلانٹ جیسی سبزیاں ہوتیں۔ یہ ڈشز چاول اور چٹخارے دار چیزوں کے ساتھ استعمال ہوتی۔ ملوخیہ جو کہ سبز پتوں والی ڈش تھی سب سے اہم ڈش کہلاتی تھی۔ سفید چٹنی کے ساتھ پاستہ، چاول، پکا ہوا اور روسٹ کیا ہوا چکن، بطخ، پرندوں اور دوسرے جانوروں کا گوشت تیار ہوتا ہے۔ افطار کے وقت خیال رکھا جاتا کہ سوپ ضرور موجود ہو۔ ان سب چیزوں کے ساتھ کنافہ، قطائف اور چائے بھی تیار کی جاتی۔سحری کے لئے عام طور پر مصری سفید چیز، دہی، کھیرے اور فاوا بین استعمال کرتے ہیں۔ بہت سے افطار کی ڈشز سحری کے وقت کھائی جاتی ہیں۔

awazurdu