کشمیر: مشتاق نے قائم کی ضرورت مندوں کے لیے لائبریری

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-01-2023
کشمیر: مشتاق نے قائم کی ضرورت مندوں کے لیے لائبریری
کشمیر: مشتاق نے قائم کی ضرورت مندوں کے لیے لائبریری

 

 

شاہ عمران حسن،نئی دہلی

ہردور میں لائبریری کی اہمیت رہی ہے،ابھی جب کہ دنیا جدید دور میں داخل ہوچکی ہے، کتاب اور لائبریری کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے۔اب بھی ایک بڑی آبادی لائبریری سے استفادہ کرتی ہے، وہیں بہت سے ایسے افراد بھی سماج میں ہیں، جن کے لیے کتابیں خریدنا آسان نہیں ہے۔

کتابوں کی ضرورت اور اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے ضلع کپواڑہ سے تعلق رکھنے والے گریجویشن کے طالب علم مبشر مشتاق نے ذاتی خرچ سے ایک لائبریری قائم کی ہے۔ خیال رہے کہ مشتاق اس وقت شری پرتاپ کالج سری نگر میں بائیو کیمسٹری (آنرز) کر رہے ہیں۔ ان کے کالج میں شہر کی بہترین لائبریری موجود ہے۔جہاں طلبہ کے لیے تمام قسم کی کتابیں موجود ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے لاک ڈاون نافذ تھا۔اس وقت مبشر مشتاق کے لیے کالج کی لائبریری تک رسائی ممکن نہیں تھی اور نہ ہی مقامی بازار میں رسائل و اخبارات مل رہے تھے۔

یہی وہ لمحہ تھا جب  انہوں نے لیٹس ٹاک لائبریری(Let’s Talk Library) قائم کرنے کا فیصلہ کیا ۔ مشتاق کہتے ہیں کہ اس واقعےنےمجھے دیہی علاقوں میں مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرنے والے طلباکی حالت زار نے پریشان کردیا۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ اس نے مجھے سنجیدگی سے کوئی ایسی چیز ترتیب دینےکے لیے مجبور کیا جس سے گاؤں کے طلباء کو کتابوں تک آسانی سے رسائی میں مدد مل سکے۔

مشتاق کے دوست سفیان اقبال نے بتایا کہ انہوں نے لائبریری کے قیام کے بارے میں اپنے دوست کے وژن کا اندازہ اس وقت لگایا جب ایک 8 سالہ  بچیکوئی کتاب ڈھونڈتی ہوئی ان کے پاس آئی مگر ان کے پاس کتاب دستیاب نہیں تھی۔  بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح سفیان اقبال اپنے دوست مشتاق کے مفت لائبریری کھولنےکے خیال پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

ان کے ذہن میں ایک واضح نقطہ نظر تھا۔ انہوں نے اس کا اظہار اپنے دوست سے کیا۔ مگر مشتاق مفت لائبریری ہی قائم کرنا چاہتے تھے۔ مشتاق بتاتے ہیں کہ میں نے شروع میں بہت جدوجہد کی۔ لیکن میں اپنے آپ کو یاد دلاتا رہا کہ ثابت قدمی کے ساتھ میں ایک مفت لائبریری شروع کر سکتا ہوں۔

سنہ2020 کے وسط تک جب کووِڈ 19 تباہی مچا رہا تھا، مشتاق نے لائبریری کا ابتدائی کام کر لیا تھا۔ ان کے حامی ان کے کالج کے چند دوست، ہم جماعت اور اساتذہ بھی تھے۔ مشتاق نے کہا کہ  انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور مختلف ذرائع سے کتابیں جمع کرنے میں میری مدد کی۔ میں نے اپنے ذاتی اخراجات میں کمی کی۔ میں نے اپنی جیب خرچ سے لائبریری کے لیے بچت کی۔

awazthevoice

مشتاق اپنی لائبریری میں

اقبال کا کہنا ہے کہ ان کی سوچ اپنے دوست کے پروجیکٹ کی طرف اس وقت بدلی جب طلباء نے ان کے نام پر کتابیں جاری کرنے کے لیے لائبریری کا رخ کرنا شروع کیا۔ ابتدا میں صرف ان کے والد ہی تھے جنہوں نے مشتاق کا ساتھ دیا لیکن جب اس منصوبے نے ترقی شروع کی تو خاندان کے دیگر افراد نے اس کے کام کی اہمیت کو سمجھا اور ان کے ساتھ تعاون کرنا شروع کیا۔

 دوسرے خاندانوں کی طرح ان کا خاندان بھی چاہتا تھا کہ  مشتاق پیسے کمانے کے لیے بھی تگ و دو کرے۔  مشتاق نے کہا کہ یہ سوچ تب بدل گئی جب مجھے اپنے کام کی تعریف اور پذیرائی ملنا شروع ہوئی۔ اگرچہ پچھلے دو مہینوں میں 30 سے ​​زائد لوگوں نے خود کو لائبریری میں رجسٹر کرایا ہے۔ یہ وہ افراد ہیں جو لائبریری کو ماہانہ کچھ رقم عنایت کرتے ہیں تاکہ لائبریری کو مزید وسعت دی جاسکی۔

مشتاق نے کہا کہ وہ لائبریری کو بطور کاروبار نہیں دیکھتے ہیں بلکہ وہ اس کے ذریعہ سماجی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ ابتدائی طور پر انہوں نے ریڈنگ روم شروع کرنے کے لیے جگہ تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن فنڈز کی کمی کی وجہ سے اسے تھوڑی سی جگہ کے لیے جھگڑا کرنا پڑا۔ میں ان لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں جو یہاں پڑھنا چاہتے ہیں اگر انہیں یہ چھوٹی سی جگہ آرام دہ لگے۔

لائبریری کے سالانہ اخراجات بشمول کرایہ 15000 روپے ہے۔وہ اپنے ذاتی خرچ سے اس لائبریری کے اخراجات اٹھاتے ہیں۔ میں اپنی لائبریری کے لیے کتابیں دینے کے لیے لوگوں کے پاس گیا۔ شروع میں، صرف کچھ لوگوں نے تعاون کیا لیکن اب مجھے مختلف اضلاع کے لوگوں کے فون آتے ہیں جو اپنی کتابیں دینا چاہتے ہیں۔

انہیں امید ہے کہ آنے والے مہینوں میں مزید افراد لائبریری کی طرف رخ کریں گے اور اس سے استفادہ کریں گے۔ میں جانتا تھا کہ میں ایک لائبریری قائم کر سکتا ہوں لیکن لوگوں سے اس طرح کے اچھے ردعمل کی توقع کبھی نہیں تھی۔ بہت سے لوگ مجھ پر ہنس رہے تھے، میرا مزاق اُڑا رہے تھے۔ تاہم مجھے خوشی ہے کہ اب تقریباً 30 طلباء اپنی مرضی کے مطابق پڑھ سکتے ہیں۔

مشتاق ایک پرجوش سماجی کارکن بھی ہیں۔ وہ  کہتے ہیں کہ لوگوں کی مدد کرنے سے انہیں اطمینان ملتا ہے۔ان کا یہ ماننا ہے کہ ’بہتر ہے کہ بچپن سے ہی اچھے معاشرے کی تعمیر شروع کر دی جائے۔

اس وقت لیٹس ٹاک لائبریری میں 1600 کتابیں ہیں جن میں علمی کتابیں، ناول، اسلامی ادب، اخبارات اور رسالے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لائبریری میں مسابقتی امتحانات کی متعدد کتابیں ہیں جن میں نیٹ(NEET)،جے ای ای(JEE)،جے آر ایف(JRF)،این ای ٹی(NET)، یوپی ایس سی(UPSC)وغیرہ کی کتابیں دستیاب ہیں۔ وہیں پہلی جماعت سے لے کربارہیں جماعت تک کی کتابیں رکھی گئی ہیں، تاکہ ضرورت مند طلبا یہاں سے استفادہ کر سکیں۔

awazthevoice

انتظامیہ کی جانب سے مشتاق کی حوصلہ افزائی

مشتاق کا مقصد صرف تعلیمی میدان میں طلباء کی مدد کرنا نہیں ہے بلکہ لوگوں میں پڑھنے کی عادت ڈالنا بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ بزرگ شہری سارا دن بیٹھنے کے بجائے لائبریری میں آئیں اور پڑھیں۔ منشیات کی بڑھتی ہوئی لعنت کو ذہن میں رکھتے ہوئے، مشتاق کا خیال ہے کہ نوجوانوں کو اس کا شکار ہونے سے بچایا جا سکتا ہے اگر وہ کتاب پڑھنے جیسی سرگرمیوں میں مصروف ہوں۔ انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز کشمیر کے مطابق، وادی کی 2.8 فیصد آبادی منشیات کا استعمال کرتی ہے۔ 

مشتاق اب مزید دیہاتوں میں لیٹس ٹاک لائبریری کی شاخ کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔  میں طلباء کے گھر کی دہلیز تک کتابیں دستیاب رکھنا چاہتا ہوں ، تاکہ وہ کتب بینی کی طرف مائل ہوں۔ میں ان طلباء کو مفت مطالعہ کا مواد فراہم کرنا چاہتا ہوں جو پرائیویٹ کوچنگ کے متحمل نہیں ہیں۔

مشتاق نے کہا کہ انہوں نے شہری کی بجائے دیہی ماحول کا انتخاب کیا کیونکہ عام طور پر کتابوں تک رسائی کم ہوتی ہے۔ سنہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ضلع کپواڑہ کی اوسط شرح خواندگی 75.60 فیصد ہے۔ مشتاق نے کہا کہ گاؤں میں بہت سے پرجوش طلباء ہیں جو پڑھنا چاہتے ہیں لیکن انہیں معیاری اسٹڈی میٹریل تک رسائی نہیں ہے۔میں ان تک ضروری مواد پہنچانے کی سعی کر رہا ہوں۔

مشتاق نے مزید کہا کہ سروے بتاتے ہیں کہ کپواڑہ تعلیمی میدان میں مواقع کے لحاظ سے دوسرے اضلاع سے پیچھے ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ کپواڑہ کے نوجوان پڑھائی کی طرف مائل ہوں اور آگے بڑھیں۔ اس کے علاوہ سماجی کارکن مشتاق چائلڈ لیبرکے خلاف دیہی علاقوں مہم چلا رہے ہیں۔اس لیے لوگوں کو بڑے خواب دیکھنے چاہئیں کیونکہ تب ہی کوئی تبدیلی لا سکتا ہے۔ مبشر مشتاق کی کوششوں کا اب اعتراف کیا جا رہا ہے۔ شہر کے ڈی سی اور اے ڈی سی کی جانب سے ان کی حوصلہ افزائی کی جاچکی ہے۔