کیا موسیقی روح کی غذا ہے؟

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 23-10-2023
کیا موسیقی روح کی غذا ہے؟
کیا موسیقی روح کی غذا ہے؟

 



 تحریر : مہر محمد طفیل لوہانچ

  فنون لطیفہ میں فن موسیقی کا مرتبہ بلند تر سمجھا جاتا ہے۔ انسانی تمدن اور معاشرت کی ترقیوں کے ساتھ اس فن کی ترقی پہلو بہ پہلو ہوتی رہی۔ جب سے انسانی تاریخ دنیا میں روشناس ہوئی دنیا نے اس فن کو بھی پہچانا۔

فنونِ لطیفہ میں سے ہر ایک فن انسان کے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ سے متعلق ہے۔ مصوری نے ترقی کی تو انسان کے حاسہ بصر پر اپنا معجز نما اثر ڈالا۔ بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی اس مصوری کا ایک کرشمہ ہے لیکن موسیقی کا درجہ اس سے بھی بالا تر ہے۔

موسیقی کا قبضہ براہِ راست روح پر ہوتا ہے۔ جس قدر اس فن نے ترقی کی اس کی دل فریبی بڑھتی گئی انسان اور حیوان یکساں طور پر اس سے متاثر ہوئے۔ اس کی ہمہ گیری میں مذہب قوم و ملت و ملک کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔

فن موسیقی کی تاریخ ،برصغیر پاک و ہند میں اس کا ارتقاء

ایک واقعہ ہے کہ اجمیر میں قوال نے یہ شعر گایا۔ گفت قدوسی فقیر بے درنا و دربقا۔۔۔ خود بخود آزاد بودی خود گرفتار آمدی!۔۔۔ اس کو سن کر مولانا محمد حسین الہ آبادی کا انتقال ہو گیا۔ اس طرح حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کا یہ واقعہ تذکروں میں موجود ہے کہ قوال نے ان کے سامنے یہ شعر گایا:کشتگانِ خنجر تسلیم

امیر خسرو کو فارسی راگوں پر عبور حاصل تھا

را۔۔۔ ہر زماں از غیب جانے دیگر ست!۔۔۔ اس کو سن کر ان پر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی اور اُن کی روح پرواز کر گئی۔

حضرت دائود د علیہ السلام کے متعلق یہود کی تواریخ میں مذکور ہے کہ جب وہ زبور کی تلاوت کرتے تھے تو جانور اور پرندے بھی جمع ہوجاتے تھے۔ اہل ہنود کے عقیدے کے مطابق تو کائنات کی ہر شے یہاں تک کہ جمادات بھی راگوں کے اثرات سے مبرا نہیں ہیں۔

ہندوئوں کے عقیدے کے مطابق موسیقی کو سنگیت کہتے ہیں اُن کے نزدیک یہ فن بلاغت کی ایک شاخ ہے۔ ہندو علمائے بلاغت کا قول ہے کہ موسیقی بھی بلاغت ہے۔ موسیقی کو گند ھیرو وید بھی کہتے ہیں۔ چاروں ویدوں رِگ وید، سام وید،یجروید اور اتھرووید کے علاوہ پانچواں وید گندھرووید ہے۔ اس کا گائین وِدّیا فنِ غنا بھی کہتے ہیں اور اسے سام وید کا ضمیمہ خیال کیا جاتا ہے۔

ناردجی نے کہا ہے کہ نہ تو میں جنت میں رہتا ہوں نہ عابدوں کے دل میں رہتا ہوں میرے ماننے والے جہاں گاتے ہیں میں وہاں رہتا ہوں، ہر قوم اورہر ملک میں فنِ موسیقی کے موجد کے متعلق مختلف اقوال ہیں جو ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں۔ اہل ہندو کے حکماء کی اس کے متعلق کچھ اور رائے ہے اور مسلمان ماہرین موسیقی کی رائے کچھ اور ہے۔ مورخین کی تحقیقات سے اتنا معلوم ہوسکا ہے کہ چین اور ہند کے آپس کے تعلقات کی قربت وجہ سے راگ اور راگنیوں کا دونوں میں اشتراک پایا جاتا ہے۔ اہل ہنود اور عرب مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ موسیقی ستاروں اور سیاروں کے عمل سے وجود میں آئی۔

حکمائے اسلام جیسے فارابی، بو علی سینا اور اخوان الصفا نے بیان کیا ہے کہ پہلا شخص جس نے موسیقی کو بحیثیت فن دنیا کے سامنے پیش کیا وہ فیثا غورث ہے۔ علامہ شہر ستانی لکھتے ہیں کہ فیثا غورث نیثار کا بیٹا تھا جو کئی صدی قبل مسیح میں گزرا ۔

تاثیر پیدا کرنے والی دعا کے وقت رقتِ قلب گریہ و زاری اور حضوری قلب کے لیے ہی موسیقی ایجاد ہوئی۔ چنانچہ زمانہ قدیم ہی سے عبادت گاہوں میں دعا کے وقت گانے اور باجے کا استعمال جاری ہے ان اوقات میں راگنیوں کا استعمال ہوتا ہے جن کے سننے سے گریہ و زاری اور قلب میں رقت پیدا ہو۔ حضرت داود د علیہ السلام مزامیر زبور کی تلاوت کے وقت کام میں لاتے تھے۔ نصاریٰ اپنے گرجوں میں ان راگوں کا استعمال آلاتِ موسیقی کے ساتھ کرتے ہیں۔اہل ہنود بھی اپنی عبادت گاہوں میں موسیقی کا استعمال کرتے ہیں اُن کے یہاں ساز کے ساتھ آرتی اور بھجن بڑی عبادت ہے۔ مسلمان تلاوتِ قرآنی میں مخصوص الحان کا استعمال کرتے ہیںان سب کا مقصد رقتِ قلب خضوع اور خشوع پشیمان ہو کر گناہوں سے توبہ کرنا اور پاکئی قلب سے خدا کی طرف رجوع ہونا ہے۔

یہاں یہ بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ یہود قابیل کو لامح کا بیٹا اور اس کو عود کا موجد مانتے ہیں۔ اس کا ایک لڑکا طوبال تھا۔ جس نے اپنے نام پر طبل ایجاد کیا۔ طوبال کی لڑکی ضلال نے معارف ایجاد کیا۔ تواریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ طنبور قوم لوط کی ایجاد ہے لیکن دوسرے مورخین کے خیال میں طنبور کے موجد صائبین ہیں۔ جو لیس پالکس ایک بڑا مورخ گزرا ہے اس کے خیال میں طنبور عربوں کی ایجاد ہے، ستار ایرانیوں کی ایجاد ہے۔

فن موسیقی کی تایخ اسلام! اسلام سے قبل عربوں میں موسیقی کا عام رواج تھا۔ گانے والی لڑکیاں مغنیات علمی و ادبی مجالس میں اس طرح شریک ہوتی تھیں جس طرح گانے بجانے کے جلسوں میں۔ اس زمانے میں پردے کا رواج نہیں تھا۔ عورتیں بھی مردوں کی طرح آزاد زندگی بسر کرتی تھیں اور دعوتوں میں باجوں کے ساتھ شریک ہوتی تھیں۔

موسیقی کو ہندوئوں کے عقائد کے مطابق مذہب کا درجہ حاصل ہے اور قدیم ویدک دور سے ہی موسیقی کو بہت متبرک مانا جاتا ہے۔ اس فن کو ہندوئوں نے بامِ عروج تک پہنچایا۔ موسیقی کے ذریعے بہت سے امراض کا علاج ہندوئوں میں بہت قدیم دور سے چلا آرہا ہے۔ بہت سی راگ راگنیوں کے اثرات موسم اور انسان کے مزاج پر بھی مرتب ہوتے ہیں، مثلاً بھیروں راگ کے اثر سے کولہو خود بخود چلنے لگتا ہے۔ مالکوس راگ کے اثر سے پتھر پگھل جاتے ہیں۔ راگ ہنڈول کے اثر سے جھولا خود بخود متحرک ہوجاتا ہے۔ دیپک راگ سے چراغ روشن ہوجاتے ہیں۔ شری راگ کی تاثیر سے سیاہ آندھی آتی ہے اور میگ راگ کی تاثیر سے پانی برستا ہے۔

شاستروں میں لکھا ہوا ہے کہ مہا دیو نے آسمان کی گردش کی آوازیں سن کر سات سُر قائم کیے پھر ان کو سات سیاروں کی تعداد پر مرتب کیا گیا پھر بارہ بروج کے مطابق ان کے بارہ سُر قائم کیے گئے اور پھر ہر ایک کا علیحدہ نام رکھا گیا ان سب کا مجموعہ سرگم ہے۔

سات سر کو سپتھک کہا جاتا ہے یعنی سات سروں کا مجموعہ۔ ان سات سروں کو تین سے ضرب دینے پر اکیس سر ہوئے۔ اس اصول سپتھک پر ہارمونیم کے سُر قائم کیے گئے۔ ان میں سے ہر ایک سر دوسرے سے اکیس درجوں تک اونچا ہوتا ہے۔

سارے گاما پا دھانی سے بارہ سر اس طرح بنے سارِ رِگ گ م مَ پَ دَھ دَھ نِی نِی

راگ! انسان کی زبان سے جو آواز گلے زبان تالو، ہونٹ، ناک وغیرہ سے نکلتی ہے اس کو سُر کہتے ہیں۔ ہندوئوں میں چھ راگ اور چھتیس راگنیاں تسلیم کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر ۶راگ یہ ہیں بھیرو راگ، مالکوس راگ، راگ ہنڈول، دیپک راگ، شری راگ میگھ راک۔

مسلمانوں نے بھی اپنے دور اقتدار میں فن موسیقی کی زبردست سرپرستی کی اس میںاضافے کئے اور اس طرح اس فن کو ترقی کی انتہائی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ گو کہ اسلام میں موسیقی کو ناپسندیدہ اور خلافِ شریعت مانا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود عربوں، ایرانیوں، ترکوں، مغلوں، افغانوں میں اس فن کے عظیم ماہرین پیدا ہوئے جن کے درخشندہ کارناموں کو قیامت تک فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

کمال لادین ابوالفضل جعفر بن تعلب الادنوی متوفی ۹۴۷ھ اپنی کتاب الامتاع میں لکھتے ہیں کہ ابو ہلال عسکری نے اپنی کتاب وائل الاعمال میں لکھا ہے کہ اکثر علما کا اتفاق ہے کہ پہلا شخص جس نے گانا گایا وہ طولیس ہے اس کا نام ابو عبدالمنعم عیسی ابن عبداللہ الداعب ۲۳۶ء سے ۱۰۷ء میدنے کا رہنے والا تھا۔ حضرت عثمان کی والدہ ہاروی نے اس کی پرورش کی فارسی غلاموں کے گانے سنے تھے جو اُس کو پسند آئے اور ان کی نقل کی

الرئیس ابن سینا! ابن سینا بخارا کے ایک قصبے افشیہ میں ۰۸۹ء میں پیدا ہوا۔ وہ ایک عظیم سائنس داں اور ریاضی داں تھا۔ فن موسیقی کا بڑا ماہر تھا موسیقی پر اس کی کئی کتابیں ہیں۔

• شیخ نصیرالدین طوسی! یہ فروری ۱۰۲۱ء میں خراسان میں پیدا ہوا وہ ماہر سائنس داں تھا اس نے سائنس فلسفہ ریاضیات فلکیات نوریات جغرافیہ پر بہت سی کتابیں تصنیف کیں۔ وہ ایک عظیم ماہر موسیقی بھی تھا اور اس فن پر بھی اس کی بہت سی تصانیف ہیں۔

چودھویں اور پندرہویں صدی میں جب مسلمانوں نے ہند میں اسلامی سلطنتیں قائم کیں اسی زمانے سے مسلمانوں نے فن موسیقی کو پروان چڑھانا شروع کیا۔ سلطان علا الدین خلجی ۶۱۳۱-۵۲۲۱ء کے دربار میں امیر خسرو مشہور شاعر و ماہر موسیقی داخل ہوئے۔ ان کو فارسی راگوں پر عبور تھا۔ قوالی کے علاوہ فارسی اور ہندی کی اور بھی کئی راگیں انہوں نے ایجاد کیں۔ ستار میں بھی انہوں نے ترقی دے کر نئی ترمیمات کیں۔ اُس زمانے میں گوپال نانک کی موسیقی کا شہرہ تھا۔ بادشاہ وقت نے اس کو بلا کر اس کا گانا سنا امیر خسرو نے اس کی راگوں کو بغور سنا پھر دوسرے موقع پر انہیں راگوں کو اُس سے بہتر گا کر سنا دیا۔

مغلوں کے دور میں دکن سے کچھ ماہرین موسیقی دہلی آئے جن میں ترھٹ کے راجہ شیر سنگھ کے درباری لوچن کوی بھی تھے انہوں نے راگ ترنگی دریافت کیا۔ اکبر بادشاہ ۵۰۶۱-۳۴۵۱ء کو موسیقی کا بڑا شوق تھا۔ اس کے زمانے میں عربی فارسی راگوں کو ہندی راگوں میں ملا کر موسیقی کو نیا رنگ دیا گیا، عہد اکبر ی میں ہری داس فقیر و رندا بن کا رہنے والا جو ماہر موسیقی تھا اور تان سین کا استاد تھا۔ تان سین گوالیار کا رہنے والا تھا۔ جسے شہنشاہِ موسیقی تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ اکبر کا درباری تھا اس کو نو سو نناوے راگوں پر قدرت تھی۔ دیپک راگ اسی زمانے میں موقوف ہوئی اس لیے کہ اس سے اکثر آگ لگ جاتی تھی۔

اکبر کے دربار میں راجہ مان سنگھ گوالیاری موسیقی کا بہت بڑا سرپرست تھا آج تک گوالیار موسیقی کی روایات کا عظیم مرکز تسلیم کیا جاتا ہے۔ شاہجہاں کے دربار میں بھی گانے والوں کی بڑی عزت تھی اور اس دور میں بھی موسیقی نے بڑی ترقی کی اُس دور کا مشہور ماہر موسیقی جگن ناتھ نامی ایک شخص تھا جسے کوی راج کا خطاب ملا تھا۔ لال خاں جوتان سین کی اولاد میں سے تھا اور فن موسیقی کا بہت بڑا ماہر تھا اسے بھی بہت سے انعامات سے نوازا گیا تھا۔

فن موسیقی کو چھ راگ اور چھتیس راگنیوں میں بنیادی طور پر تقسیم کیا گیا لیکن اس کے بعد ان کو مزیدیوں بھی تقسیم کیا گیا کہ ہر ایک راگ کی بیوی جس کو بارما کہتے ہیں اور اُس کے لڑکے اور پھر ہر لڑکے کی بیویاں جس کی تفصیل فن موسیقی پر مرتب کتابوں میں درج ہے ان سب کا ذکر خود ایک طویل داستان ہے جس کے لیے ہزاروں صفحات درکار ہیں۔ ان تمام راگوں راگنیوں اور اُن کے ملحقات میں سے بعض کو بعض کے ساتھ ملا کر ہزاروں کی تعداد میں راگیں اور راگنیاں بنتی گئیں۔

• راگ راگنیوں کا دیوتا! ہندوئوں کے عقیدے کے مطابق ہر راگ اور راگنی کا ایک دیوتا یعنی موکل مانا گیا ہے جو اُس راگ راگنی کا محافظ ہے۔ یہ عقیدہ اہل ہنود میں اس طرح عام ہے۔امیر خسرو نے ہندوستانی موسیقی میں ایرانی نغمات کو شامل کیا۔ ستار و طبلہ جیسے ساز ایجاد کیے۔ قوالی،خیال، مندروں کی دھرپد،دربار کی دھرپدر،اگنیاں ایجاد کیں۔ اکبر کے دور میں موسیقی نے بہت ترقی کی اور تان سین جیسے فنکار کو دنیا نے دیکھا۔ نواب واجد علی شاہ کے دربار میں ٹھمری اور دادر ایجاد کی گئی۔ پنجاب میں غلام نبی شوری میاں نے راگنی پٹہ ایجاد کی۔ جے پور میں جب رجب علی خان بین کار اور بہرام خاں ماہر موسیقی مشہور ہوئے۔

وسطی ایشیاء اور عرب علاقے پہلے ہی سے موسیقی کے بڑے مراکز بن چکے تھے۔ بو علی سینا نے قرنا اور شہنائی ایجاد کی۔ رفتہ رفتہ موسیقی نے یونان اور یورپ کو بھی متاثر کیا الغرض مسلمانوں نے پوری دنیا میں موسیقی کو معراج کمال تک پہنچایا۔ بیسویں صدی کے مشہور ماہرین موسیقی جن کا ہندوستان میں ڈنکا بجا وہ یہ ہیں وزیر مرزا قدرپیا، بندہ دین منے خاں، فضل حسین میاں علی، جان راحت حسین،راحت حیدر جان، للن پیا،اعظم پیا، فیاض خاں، ولایت حسین خاں، شفق اکبر آبادی، استاد حافظ علی خاں۔امراوء استاد صادق علی خاں، معز الدین،ملکہ جان،زہرہ جان، بیگم اختر، اختری بائی فیض آبادی، شمشاد بیگم، ثریا،نور جہاں، استاد عبدالکریم،نذر الاسلام، تصدق اسد، استاد اللہ دیے خاں، استاد عظمت حسین خاں،مئے کش اکبر آبادی، ظہور خاں اور بیجو باورا،بڑے غلام علی،چھوٹے غلام علی، استاد علائو الدین خاں وغیرہ کے نام نامی ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ سبھی مسلمان ماہرین فن موسیقی ہر قسم کے مذہبی تعصب اور فرقہ وارانہ تنگ نظری سے بالکل پاک اور مبّرا تھے۔