اردوشاعری میں دیوالی کا چراغاں

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 28-10-2021
اردوشاعری میں دیوالی کا چراغاں
اردوشاعری میں دیوالی کا چراغاں

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

اردوزبان ہندوستان کے خمیر سے اٹھی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اردوشعروادب میں وہ تمام مضامین ملتے ہیں جن کا تعلق ہندوستانیوں کی زندگی سے ہوتاہے۔ ادیبوں اورشاعروں نےاس سرزمین کی اشیا،اجناس، غذا،لباس، رہن سہن، رسم ورواج، تیج تہوار وغیرہ کو اپنی تخلیقات میں جگہ دیا ہے۔دیوالی بھی اسی ملک کاتہوار ہےاوراسے بھی شعرا نے اپنی تخلیقات میں پیش کیا ہے۔ کہیں اشعار میں دیوالی کواستعارے کے طور پر پیش کیا گیا ہے تو کہیں اس پر طویل نظمیں لکھی گئی ہیں۔

دیوالی کیا ہے؟

روشنیوں کاتہواردیوالی، ہندوستان کے بڑے تہواروں میں سےایک ہے۔ اسے بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔یہ شمالی ہند سے جنوبی ہند تک منایا جاتاہے۔یہ ایسے موسم میں منایا جاتاہے جب گرمیوں کا خاتمہ ہوتاہے اور گلابی سردیوں کے سبب ماحول خوشنما ہوتاہے۔ملک کا بڑا طبقہ جو دیہی خطوں میں بستا ہےاورکھیتی پر گزربسر کرتاہے،اس کے لئے بھی یہ موقع خوشی کا ہوتا ہے کہ دھان اور کچھ دوسری فصلیں گھرآچکی ہوتی ہیں۔

ایک تہوار میں کئی تہوار

دیوالی ایک تہوار نہیں بلکہ متعدد تہواروں کا مجموعہ ہے۔ دیوالی کا تہوار کارتک مہینے کے کرشن پکش کے نئے چاند کے دن منایا جاتا ہے۔ افسانوی عقائد کے مطابق، بھگوان شری رام 14 سال کی جلاوطنی کے بعد ایودھیا واپس آئےاور کارتک اماوسیا کی تاریخ کو لنکا فتح کیا۔ جس کی خوشی میں ایودھیا کےتمام لوگوں نےاپنےراجہ، بھگوان رام کے استقبال کے لیے پورے شہر میں چراغاں کرکے اس دن کو منایا تھا۔ یہ روایت تب سے چلی آرہی ہے۔

دیوالی کے دن لکشمی پوجا کی بھی ایک خاص اہمیت ہے۔ اس دن، دیوی لکشمی، بھگوان گنیش اور دیوی سرسوتی کی شام اور رات کے وقت میں پوجا کی جاتی ہے۔ دھنتیرس کو دیوالی کا پہلا دن سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد نارک چتردشی، پھر دیوالی، گووردھن پوجا اور آخر میں بھیا دوج کا تہوار منایا جاتا ہے۔ ہندو کیلنڈر کے مطابق، دھنتیرس کا تہوار ہر سال کارتک مہینے کے کرشن پکش کی تریودشی تیتھی کو منایا جاتا ہے۔

دھنتیرس کو دھن تریودشی اور دھنونتری جینتی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ دیوالی کا تہوار دھنتیرس کے دن سے شروع ہوتا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس تاریخ کو آیوروید کے باپ بھگوان دھنونتری سمندر کے منتھن سے امرت کے کلش کے ساتھ نمودار ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے ہر سال دھنتیرس پر برتن خریدنے کی روایت کی پیروی کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو بھی دھنتیرس کے دن سونا، چاندی، برتن، زمین اور جائیداد کی اچھی خریداری کرتا ہے، اس میں تیرہ گنا اضافہ ہوتا ہے۔

شاعری میں قمقمے

اردوشاعری میں تمثیلات، تشبیہات واستعارات کا استعمال عام رہاہے۔ عموماً غزلوں کے اشعار میں دیوالی کو تشبیہ اور استعارے کے طور پرلیاگیاہے۔نظموں میں بھی کہیں کہیں یہ رنگ نظر آتاہے۔حالانکہ دیوالی کوعموماً غم کا استعارہ ماناجاتاہے۔ ایسے اشعارملاحظہ ہوں

سبھی کے دیپ سندر ہیں ہمارے کیا تمہارے کیا

اجالا ہر طرف ہے اس کنارے اس کنارے کیا

حفیظ بنارسی

تھا انتظار منائیں گے مل کے دیوالی

نہ تم ہی لوٹ کے آئے نہ وقت شام ہوا

آنس معین

ہونے دو چراغاں محلوں میں کیا ہم کو اگر دیوالی ہے

مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم مزدور کی دنیا کالی ہے

جمیلؔ مظہری

راہوں میں جان گھر میں چراغوں سے شان ہے

دیپاولی سے آج زمین آسمان ہے

عبید اعظم اعظمی

پیار کی جوت سے گھر گھر ہے چراغاں ورنہ

ایک بھی شمع نہ روشن ہو ہوا کے ڈر سے

شکیب جلالی

وہ دن بھی ہائے کیا دن تھے جب اپنا بھی تعلق تھا

دشہرے سے دوالی سے بسنتوں سے بہاروں سے

کیف بھوپالی

کھڑکیوں سے جھانکتی ہے روشنی

بتیاں جلتی ہیں گھر گھر رات میں

محمد علوی

آج کی رات دوالی ہے دیے روشن ہیں

آج کی رات یہ لگتا ہےمیں سوسکتا ہوں

عزم شاکری

ہستی کانظارہ کیاکہئےمرتاہےکوئی جیتاہےکوئی

جیسےکہ دوالی ہوکہ دیاجلتاجائے،بجھتا جائے

نشورواحدی

میلےمیں گرنظرنہ آتاروپ کسی متوالی کا

پھیکاپھیکارہ جاتا تہوار بھی اس دیوالی کا

ممتاز گورمانی

جو سنتےہیں کہ ترے شہر میں دسہرا ہے

ہم اپنے گھر میں دوالی سجانےلگتے ہیں

جمنا پرشاد راہیؔ

اردو میں نظمیں

اردو شاعری چونکہ عوامی شاعری ہے لہٰذا اس میں تمام عوامی موضوعات بھی ملتے ہیں۔ اردو کے شاعروں نے ہندوستان کے تیج تہواروں پر جی کھول کر لکھا ہے پھر یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ دیوالی جیسے اہم ہندوستانی تہوار کے موضوع پر اردو شعراء نظمیں نہ کہیں۔ انھوں نے اسے نہ صرف اپنے اشعار میں استعارہ کے طور پر استعمال کیا ہے بلکہ اس تعلق سے نظمیں بھی کہی ہیں۔ ایسے شاعروں میں سب سے مشہور نام نظیرؔ اکبرآبادی کا ہے جنھوں نے عید، شب برأت، دسہرہ اور ہولی کی طرح دیوالی کے موضوع پر بھی بہت خوب لکھا ہے۔ اس حوالے سے ان کی کئی نظمیں ہیں۔ان کی ایک نظم کا عنوان ہی ’’دوالی‘‘ ہے، جس کا آغازیوں ہوتاہے

ہراِک مکاں میں جلا پھر دیا دوالی کا

ہراک طرف کو اجالا ہوا دوالی کا

سبھی کے دل میں سماں بھاگیا دوالی کا

کسی کے دل کو مزہ خوش لگا دوالی کا

عجب بہار کا ہے دن بنا دوالی کا

نذیربنارسی کی مشہورنظم ہے ’دیپاولی‘ جس کے چند مصرعے پیش خدمت ہیں

مری سانسوں کو گیت اور آتما کو ساز دیتی ہے

یہ دیوالی ہے سب کو جینے کا انداز دیتی ہے

ہردے کے دوار پر رہ رہ کے دیتا ہے کوئی دستک

برابر زندگی آواز پر آواز دیتی ہے

سمٹتا ہے اندھیرا پاؤں پھیلاتی ہے دیوالی

ہنسائے جاتی ہے رجنی ہنسے جاتی ہے دیوالی

قطاریں دیکھتا ہوں چلتے پھرتے ماہ پاروں کی

گھٹائیں آنچلوں کی اور برکھا ہے ستاروں کی

وہ کالے کالے گیسو سرخ ہونٹ اور پھول سے عارض

نگر میں ہر طرف پریاں ٹہلتی ہیں بہاروں کی

نگاہوں کا مقدر آ کے چمکاتی ہے دیوالی

پہن کر دیپ مالا ناز فرماتی ہے دیوالی

حیدربیابانی کی بھی ایک خوبصورت نظم دیوالی کے حوالے سے ہے

دیوالی کے دیپ جلے ہیں

یار سے ملنے یار چلے ہیں

چاروں جانب دھوم دھڑاکا

چھوٹے راکٹ اور پٹاخہ

گھر میں پھلجھڑیاں چھوٹے

من ہی من میں لڈو پھوٹے

دیپ جلے ہیں گھر آنگن میں

اجیارا ہو جائے من میں

اپنوں کی تو بات الگ ہے

آج تو سارے غیر بھلے ہیں

دیوالی کے دیپ جلے ہیں

شادعارفی نے بھی دیوالی کے موضوع پر نظمیں لکھی ہیں جن میں سے ایک نظم کے ابتدائی مصرعے یوں ہیں

ہو رہے ہیں رات کے دیوں کے ہر سو اہتمام

صبح سے جلوہ نما ہے آج دیوالی کی شام

ہو چکی گھر گھر سپیدی دھل رہی ہیں نالیاں

پھرتی ہیں کوچوں میں مٹی کے کھلونے والیاں

بھولی بھالی بچیاں چنڈول پاپا کر مگن

اپنی گڑیوں کے گھروندوں میں سجی ہے انجمن

رسم کی ان حکمتوں کو کون کہہ دے گا فضول

رکھ دیے ہیں ٹھیکروں میں خانہ داری کے اصول

جیت میں ہر شخص وہ نوخیز ہو یا پختہ کار

ہار سے انکار لب ہائے مسرت پر نثار

سرد موسم کا لڑکپن گرم چولہوں پر شباب

برف میں ساقی لگا لایا ہے مینائے شراب

ابخرے بن کر کڑھائی پر ہوا لہکی ہوئی

ہر گلی پکوان کی بو باس سے مہکی ہوئی