ہندوستان میں پیدا ہوئی اوریہیں پروان چڑھی اردو کو کچھ تنگ ذہنیت کے لوگوں نے مسلمانوں کی زبان قرار دے کر اس کی رسائی محدود کر دی ہے- لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو آج بھی روز مرہ کی زندگی میں اردو پر ہی دارو مدار کرتے ہیں۔ان کی زندگی میں اردو ایک اہم حصہ ہے۔۔جنہیں اس زبان کے استعمال میںفخر ہوتا ہے۔ وہ یہ بی ثابت کرتے ہیں کہ زبان سے تعصب نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آگرہ کی سرزمین پر میر ، نذیر اور غالب کی زبان سے محبت کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہم فرقه وارانہ ہم آہنگی کا فرشتہ قرار دے سکتے ہیں ۔
ایسا ہی ایک نام سرخیوں میں ہے۔شہر کی شہزادی منڈی میں واقع سناتن دھرم سبھا لائبریری اور اس لے پردھان ویجنآتھ شرما پر اردو چاہنے والے ناز کر سکتے ہیں۔اس مندر کی لائبریری میں جہاں سنسکرت، ہندی، انگریزی، پنجابی کی کتابیں ہیں وہیں اردو کی بھی متعدد کتابیں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہیں- اسی کے ساتھ ہی پردھان ویجناتھ ہندی کے بجاے اردو میں گیتا اور رام چریت مانس کا پاٹھ کرتے ہیں۔ جبکہ جن کی ذمہ داری ہے اردو کو فروغ دینے کی وہ سیمینار اور گھروں میں بیٹھ کر اردو پر صرف بات ہی کرتے ہیں۔
زبان کا کوئی مذہب نہیں
سناتن دھرم مندر کی انتظامیہ یہ اردو کو فروغ دینے کا کام اچھی طرح سے کررہی ہے۔ اس مندر کی لائبریری میں آٹھ ہزار سے زیادہ کتابیں موجود ہیں ، جن میں سے بہت سی اردو کتابوں کی بھی اپنی ایک اہمیت ہے۔ یہاں پر اردو میں لکھی رام چرت مانس اور بھگوت گیتا ہے- ویجناتھ شرما جو امرتسر میں پیدا ہوئے ہیں کہتے ہیں کہ اردو کسی زمانے میں ملک کی اہم ترین زبان تھی۔
اسی لئے میں نے اردو کے ساتھ بی اے آنرز بھی کیا۔ میرے گھر میں بھی اردو کا ماحول تھا۔ میں نے اردو میں بہت سی غزلیں لکھیں- میرے بہت سے مقالے آل انڈیا ریڈیو پر نشر کیے گئے ہیں۔ میں نے اپنی سب سے مشہور غزل نتھولہ لکھی ہے جس میں فوجیوں کی زندگی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ بریجناتھ شرما نے کہا کہ اردو کسی ذات ، مذہب یا برادری کی زبان نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی زبان ہے۔ یہ زبان ہندی فارسی سے بنی ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے مسلمانوں کے ساتھ منسلک کیا ہے جو کہ بہت غلط ہے۔