غوث سیوانی،نئی دہلی
میں گھر(کنچن کنج،نئی دہلی) سے آفس کے لئے نکلتا ہوں تو راستے میں ایک مقام پر مجھے ایک گاڑی میں کھانوں کے پیکٹ بھرتے ہوئے لوگ دکھائی پڑتے ہیں۔ جس مکان سے کھانا لایا جاتا ہے جب میں نے اس پر آویزاں بورڈ کو دیکھا تو انگلش میں لکھا ہوا تھا’پروجکٹ احساس‘ دوسری جگہ لکھا ہوا تھا ’کمیونٹی کچن‘۔ مجھے تجسس ہوا اور ایک دن میں نے ٹھہر کر پوچھا کہ گاڑی میں کھانے کے پیکٹ کیوں بھرے جارہے ہیں تو بتایا گیا کہ یہ کھاناکسی غریب بستی میں جائے گا جہاں بھوکے بچوں ، مردوں اور عورتوں کے بیچ تقسیم کیا جائے گا۔
آج کل بچے اپنے والدین کے اخراجات برداشت کرنے کو تیار نہیں، ایسے میں غریبوں کو کھانا کھلانے کی مہم مجھے اچھی لگی اور اس کے بارے میں مزید جانکاری کا تجسس جاگا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کام کس کے ماتحت چلتا ہے تو بتایا گیا کہ فیروزخان نامی کے ایک نوجوان اس کام کے انچارج ہیں۔ میری اپیل پر فیروز خان باہر آئے اور مجھے آفس کے اندر لے گئے۔ یہ اصل میں آفس بھی نہیں بلکہ ایک وسیع کچن ہے جس میں کھانا پکانے کی مشین لگی ہوئی ہے۔
کھانا کی تقسیم کا منظر
فیروزخان نے بتایا کہ اس مشین میں ایک ساتھ چار سوپیکٹ کھانا پک سکتا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ بالکل صاف ستھرے ماحول میں کھانا پکتاہے۔ فیروز خان نے مزید بتایا کہ ہر روز لگ بھگ آٹھ سو پیکٹ ویج پلائو تیار کرکے تقسیم کرتے ہیں۔فیروز نے ہمیں ذائقہ دار ویج پلائو کا ایک پیکٹ چکھایا جس میں سویابین اور آلو وغیرہ شامل تھے۔
ویج ہی کیوں؟ میرے اس سوال کے جواب میں فیروز خان نے بتایا کہ یہ پیکٹ جن لوگوں میں بانٹے جاتے ہیں ،وہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ نان ویج نہیں کھاتے ہیں۔ ہمارا مقصد بھوکوں کا پیٹ بھرنا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ سب لوگ ہم سے استفادہ کریں۔
صاف ستھرے ماحول میں مشین کے اندر پکتا ہے کھانا
فیروزخان نے مزید بتایا کہ کھانے کے پیکٹ عام طور پر سلم بستیوں میں بانٹے جاتے ہیں۔ جہاں غریب لوگ رہتے ہیں۔ بہت سے چھوٹے چھوٹے بچے بھوکے ہوتے ہیں اور ان کے والدین کام پر گئے ہوتے ہیں۔میں ابھی فیروزخان سے گفتگو کر رہا تھا کہ کچھ بچے آئے جن کے ہاتھوں میں کتابیں تھیں مگر جسم پر میلا کچیلا لباس تھا، انہیں پیار سے کھانے کے پیکٹ دیئے گئے اور بچوں کے چہرے پر مسکان آگئی۔ این جی او کا نعرہ ہے’فیڈنگ وتھ اے اسمائل‘ اور مجھے بچوں کی شکلیں دیکھ کر اس کا زیادہ صحیح مطلب سمجھ میں آیا۔
کمیونٹی کچن کا لذیذویج پلائو
میں نے سوال کیا کہ کہاں کہاں کھانا تقسیم کیا جاتا ہے؟ تو فیروزخان نے بتایا کہ عام طور پر اوکھلا کے علاقے میں کھانا تقسیم ہوتا ہے مگر ہراتوار کو ایمس ہسپتال لے جاتے ہیں جہاں بڑی تعداد میں ایسے لوگ ملتے ہیں جو دور دراز علاقوں سے یہاں علاج کے لئے آتے ہیں۔ مریضوں کو تو کھانا مل جاتا ہے مگر ان کے ساتھ آنے والوں کو کھانا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح صفرجنگ ہوسپیٹل اور لوک نائک جے پرکاش نارائن اسپتال کے سامنے بھی کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔
فیروزخان نے جانکاری دی کہ وہ این جی او’ پروجکٹ احساس‘کے لئے کام کرتے ہیں؟ پیسہ کہاں سے آتاہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ عام لوگ مدد کرتے ہیں۔ آن لائن اور آف لائن کوئی بھی مدد کرسکتا ہے۔ جب ہم نے مزید جانکاری حاصل کی تو معلوم ہوا کہ اس کے تحت کمیونیٹی کچن کاآغاز اکتوبر 2021 میں کولکتہ اور دہلی شہروں میں 'پروجیکٹ احساس'کے تحت کیا گیا جہاں بڑی تعداد میں تارکین وطن مزدور اور کچی آبادیوں میں رہنے والے ضروری اشیاء کے اخراجات کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔
تقسیم کے لئے جانے کو تیار
یہ پروجیکٹ غریبوں کو پکا ہوا کھانا پیش کرنا ہے اور اس کا آغاز ہندوستان میں کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن اور اس کے نتیجے میں ملازمتوں میں ہونے والے نقصان کی وجہ سے ہوا۔ اس پروجیکٹ کے تحت ممبئی میں جوگیشوری اور یوپی میں لکھنؤ میں کچن بنائے گئے ہیں۔ اس مہم کے تحت اب تک کھانے کے لاکھوں پیکٹ تقسم کئے جاچکے ہیں۔
اس قسم کے مزید کچن قائم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ کمیونٹی کچن کی اہمیت تب بڑھ جاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارا ملک ان ممالک میں شامل ہے جہاں آج بھی کروڑوں افراد بھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہیں۔بھوک کو مٹانے کی یہ مہم صرف چند شہروں تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے دوسرے شہروں تک بھی پھیلایا جارہا ہے۔یہی نہیں جب کسی علاقے میں سیلاب یا آسمانی آفت کا ظہور ہوتا ہے تو کمیونٹی کچن کی ٹیم وہاں بھی پہنچ جاتی ہے اور وہاں کھانا پکاکر ضرورت مندوں کو پیش کرتی ہے۔
آسام سیلاب زددگان تک پہنچنے کی کوشش میں کمیونٹی کچن
۔ 14 اکتوبر2022 کو گلوبل ہنگر انڈیکس جاری کیا گیا تھا۔اس کے مطابق دنیا کے 121 ممالک میں، ہندوستان کا نمبر 107 ہے، اور ملک میں بھوک اور غذائی قلت کی سطح اب "سنگین" سطح پر ہے۔ اس انڈیکس پر ہندوستان کا درجہ 2020 سے خراب ہوتا جا رہا ہے - 2020 میں درجہ 94 تھا اور 2021 میں 101ہوگیا۔رپورٹ کے مطابق پیٹ بھر کھانا نہ ملنے کے سبب بچوں کا وزن کم ہوتا جارہا ہے اور جسمانی لمبائی میں بھی کمی آرہی ہے۔
بھوک ہی دنیا کی سب سے بڑی سچائی ہے
واضح ہوکہ تقریباً 16.3 فیصد ہندوستانی غذائی قلت کا شکار ہیں۔یہ صورت حال تب ہے جب ہندوستان دودھ، دال، کیلے کا سب سے بڑا پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا بھرمیں گندم، چاول اور سبزیوں کا دوسرا سب سے بڑا پروڈیوسر ہے۔ یہ مویشیوں کی مصنوعات جیسے مچھلی اور پولٹری کے سرفہرست پروڈیوسرس میں بھی شامل ہے۔کورونا کے بعد سے حکومت کی جانب سے غریب لوگوں کو مفت راشن دیا جارہا ہے مگر اس کے باوجود ہمارے ملک سے بھوک کا خاتمہ نہیں ہوا ہے۔
ملک کی ترقی میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ بھوک ہی ہے۔ بھوک کا کوئی مذہب نہیں ہوتااور اس کا خاتمہ اس ملک کے خوشحال لوگوں کے تعاون سے ہی ہوسکتا ہے۔ قابل مبارکباد ہیں وہ لوگ جودوسروں کی بھوک کا احساس کرتے ہیں۔