ٹنڈے کباب:تہذیب کے بعد لکھنؤ کی دوسری پہچان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-04-2021
لکھنؤ کی تہذیب کی وراثت ہیں ٹنڈے کباب
لکھنؤ کی تہذیب کی وراثت ہیں ٹنڈے کباب

 

 

 مکند مشرا / لکھنؤ

بات اگر ذائقہ کی چل نکلے تو لکھنؤ کے منفرد مغل اور نوابی ذائقوں کا ذکر نا گزیر ہو جاتا ہے۔ اپنے حیرت انگیز ذائقوں کے لئے مشہور نوابوں کی نگری لکھنؤ کا نام ملک کے منتخب شہروں میں پھیلے کھانوں کے شوقین لوگوں کے لبوں پر ہوتا ہے۔ اگرچہ نوابوں کا زمانہ سو سال پہلے گزر چکا ہے ، لیکن وہ ذائقہ جو منہ میں گھل چکا ہے اس نے اب بھی لوگوں کو اپنا اسیر بنا رکھا ہے۔

ہاں ، آج کل ٹنڈے کباب کو ٹنڈے کبابی کے نام سے جانا جاتا ہے- اس کباب کے دیوانے ملک کے کونے کونے کے علاوہ بیرون ملک بھی موجود ہیں۔ نان ویج فوڈ پریمیوں میں لکھنؤ کے ٹنڈے کباب نے اتنی ہی مقبولیت حاصل کی ہے جتنی کہ حیدرآبادی بریانی یا کسی دوسری مقبول ترین ڈش نے حاصل کی ہے۔

لکھنؤ کے ٹنڈے کباب کی کہانیاں پچھلی صدی کے آغاز سے شروع ہوتی ہیں اور اب تک جاری ہیں۔ اکبری گیٹ ، لکھنؤ میں سب سے پہلے ایک چھوٹی سی دکان 1905 میں شروع کی گئی تھی۔ اس دکان کے ذائقے کی شہرت کے سامنے ملک بھرکے بڑے شیفوں اور فائیو اسٹار ہوٹلوں کے پکوان بھی ماند پڑنے لگے ۔ 114 سال پرانی دکان پر لوگ ٹنڈے کھانے کے لئے دور دراز سے آتے ہیں ، ساتھ ہی وہ یہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان ٹنڈے کبابوں میں کیا خاص بات ہے۔

AWAZ

حاجی خاندان کئی سال قبل بھوپال سے لکھنؤ آیا تھا اور اپنی ایک چھوٹی سی دکان اکبری گیٹ کے قریب والی گلی میں شروع کی ۔ حاجی کے ان کبابوں کی شہرت اس قدر تیزی سے پھیل گئی کہ شہر بھر سے لوگ کباب کے ذائقے کو چکھنے یہاں آنا شروع ہوگئے۔ اسی شہرت کی بدولت ان کبابوں کو 'اودھ کے شاہی کباب' کا درجہ ملا۔

لکھنؤ کے ٹنڈے کباب کی شروعات بات کریں تو یوں تو یہ پچھلی صدی کے آغاز سے شروع ہوتی ہے لیکن اس کی اصل ایجاد اس سے بھی بہت پہلے لکھنؤ سے دور بھوپال کے نواب باورچی خانے سے ہوئی تھی۔

کباب کو  نوابی مجبوری میں ایجاد کیا

ٹنڈے کبابی کے مالک محمد عثمان کے مطابق   ان کے آبا و اجداد بھوپال کے نواب کے یہاں خان سامے کا کام کرتے تھے۔

نواب صاحب کو کھانے پینے کا بہت شوق تھا ، لیکن عمر کے ساتھ ساتھ ان کے دانت ختم ہونے لگے ۔ انہیں کھانے پینے میں مشکلات آنے لگیں۔ اس کے باوجود نواب صاحب اور ان کی بیگم نے لذیذ کھانوں کا شوق نہیں چھوڑا ۔ لہذا یہ طریقہ نکالا گیا کہ ان کے لئے کباب بنا ے جائیں ، جو بغیر دانت کے بھی آسانی سے کھاے جا سکتے ہیں ، یعنی منہ میں جاتے ہی تحلیل ہوجاتے ہیں۔ اس کے لئے گوشت کو باریک پیس کر اور اس میں پپیتا ملا کر کباب بنایا گیا ۔ دانتوں کے ساتھ نواب صاحب اور بیگم کی صحت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس میں اس طرح کے مصالحے ڈالے گئے جو معدے کو صحت مند رکھنے میں بھی کارگر تھے۔

اس کے بعد حاجی کنبہ بھوپال سے لکھنؤ آیا اور اکبری گیٹ کے قریب گلی میں ایک چھوٹی سی دکان شروع کردی۔ حاجی کے ان کبابوں کی شہرت اس قدر تیزی سے پھیل گئی کہ شہر بھر سے لوگ کبابوں کا منفرد ذائقہ چکھنے یہاں آنا شروع ہوگئے۔

فلمی اداکاربھی ہیں دیوانے

بالی ووڈ اسٹار شاہ رخ خان ٹنڈے کباب کے شوقین ہیں۔ ممبئی میں واقع ان کے گھر منت میں کوئی جلسہ ہوتا ہے تو ٹنڈے کباب بنانے والوں کو ضرور وہاں بلایا جاتا ہے۔ بالی ووڈ کے ٹریجڈی کنگ دلیپ کمار ، انوپم کھیر ، آشا بھوسلے ، سریش رائنا ، جاوید اختر اور شبانہ اعظمی بھی ان کے بڑے مداحوں میں شامل ہیں۔

ٹنڈی کباب کے نام کے پیچھے کی کہانی

ان کبابوں کے نام ٹنڈی کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے۔ ٹنڈے کا اصل مطلب ہے جس کا ہاتھ نہ ہو۔ لکھنؤ میں ٹنڈے کباب کو اس کی شناخت دینے والے رئیس احمد کے والد حاجی مراد علی کو پتنگ بازی کا بہت شوق تھا۔ ایک بار پتنگ اڑاتے ہوئے ایک حادثہ ہوا اور ان کا ہاتھ ٹوٹ گیا ، جسے بعد میں کاٹنا پڑا۔ اب ہاتھ کھونے کے ساتھ ہی اس کا پتنگ کا شوق بھی کافور بن گیا۔

مراد علی اپنے والد کے ساتھ دکان پر بیٹھنے لگے ۔ ٹنڈے ہونے کی وجہ سے ، جو لوگ بھی یہاں کباب کھانے آتے تھے ، ٹنڈے کبابوں کے بارے میں اپنے عزیز و اقارب کے بیچ باتیں کرتے تھے اور ٹنڈی کہہ کر انہیں اس دکان کی شناخت بتاتے تھے۔ یہیں سے ٹنڈی کباب نام پڑ گیا ۔

پراسرار مصالحے

محمد عثمان کہتے ہیں کہ آج بھی یہاں کبابوں میں وہی مصالحے استعمال ہوتے ہیں ، جو بھوپال کے نوابوں کے لئے تیار ہوتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ کباب کے مصالحوں کے اجزاے ترکیبی کو مخفی رکھنے کے لئے انہیں مختلف دکانوں سے خریدا جاتا ہے ۔ اس کے بعد انہیں گھر کے بند کمرے میں مرد ممبروں کے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔

یہاں تک کہ بیٹیاں بھی مصالحوں کا راز نہیں جانتی ہیں

ان میں سے کچھ مصالحوں کو ایران اور دوسرے ممالک سے بھی درآمد کیا جاتا ہے۔ آج تک ، حاجی خاندان نے کباب کے نسخے کا یہ راز کسی کے سامنے نہیں کھولا ، حتی کہ اپنے گھر کی بیٹیوں کے سامنے بھی نہیں۔

قابل ذکر ہے کہ اکبری گیٹ سے شروع ہونے والی یہ دکان پہلے مراد علی اور پھر رئیس احمد اور اب محمد عثمان چلا رہے ہیں ۔

حاجی جی کے کنبے کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا کہ اس کو بنانے کا خاص طریقہ اور اس میں جو مصالحہ شامل کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ، کباب کا ذائقہ جو یہاں پایا جاتا ہے ، پورے ملک میں کہیں اور نہیں پایا جاتا ہے۔ کباب میں سو سے زیادہ مصالحے ڈالے جاتے ہیں۔

یہاں کے پراٹھے بھی خاص ہیں

کباب تو خاص ہوتے ہی ہیں ،اس کے علاوہ وہ پرانٹھے جس سے یہ کباب کھائے جاتے ہیں ، ان کو بھی خاص انداز میں تیار کیا جاتا ہے۔ یہ پراٹھے آٹے میں گھی ، دودھ ، بادام اور انڈا ملا کر تیار کیے جاتے ہیں۔

قیمت بھی معقول ہے

اگرچہ ٹنڈی کباب پوری دنیا میں مشہور ہیں ، حاجی خاندان نے آج بھی اس کی قیمت اس سطح پر رکھی ہوئی ہے کہ اس سے عام یا خاص کی جیب پر اثر نہ پڑے ۔ خاندان کی توجہ دولت سے زیادہ ساکھ کو برقرار رکھنے پرہے ۔

ایک وقت تھا جب دس کباب ایک پیسے میں دستیاب تھے۔ پھر قیمتیں بڑھنے لگیں جس سے لوگوں کو دس روپیہ میں ہی بھر پیٹ کھلایا جانے لگا ۔