یمنا نگر:جمعیت علماء ہند ایک سو چھ سال سے قائم ہے اور پہلے دن سے اب تک اس ملک کے لوگوں کی بھلائی اور ترقی اور ملک کی بقا و سالمیت کے لیے کوششیں کرتی آ رہی ہے، ہم اس ملک میں گزشتہ تیرہ سو سال سے پیار و محبت سے رہتے چلے آ رہے ہیں، جو لوگ تاریخ کو جانتے ہیں تو انہیں معلوم ہے کہ ہم یہاں ہر برادری اور طبقہ میں ہر گاؤں و شہر میں صدیوں سے ایک دوسرے کے دکھ درد کے برابر کے شریک ہیں، ہمیں ایک دوسرے کا مذہب آپسی پیار و محبت سے نہیں روکتا ہے، یہاں آج آپ کا اس خطہ میں جمع ہونا ظاہر کرتا ہے کہ یہاں سب لوگ مشترکہ تعاون سے زندگی گزارتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار مولانا سید ارشد مدنی نے جمعیت علماء متحدہ پنجاب کے بینر تلے اصلاح معاشرہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا
مولانا نے یہ بھی سمجھایا کہ قرآن تو ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر انسان کے ساتھ مسکراہٹ سے ملو، راستے سے کوئی تکلیف دہ چیز ہٹا دو تو یہ بھی نیکی ہے۔ ایسے مذہب کا دہشت گردی سے کوئی لینا دینا کیسے ہو سکتا ہے؟ پھر انہوں نے مثالیں بھی دیں کہ کیرلا کے سیلاب ہوں، بنگال کے کسانوں کی پریشانی ہو یا پنجاب، ہماچل، کشمیر کے متاثرین—جمعیت نے سب کی مدد کی ہے، بغیر یہ دیکھے کہ کون کس مذہب کا ہے۔
وہ کہہ رہے تھے کہ یہ وہی پرانی، اصل تصویر ہے جسے مضبوط رکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ نفرت پھیلانے والے لوگ اس بھائی چارے کو برداشت نہیں کرتے۔ اقتدار اور کرسی تو آتی جاتی رہتی ہیں، مگر اچھی تعلیمات ہمیشہ رہتی ہیں۔پروگرام کے دوسرے علماء نے بچوں کی تربیت کی اہمیت پر زور دیا۔ کہہ رہے تھے کہ بچے کی تربیت تو ماں کی گود سے ہی شروع ہو جاتی ہے، اگر ابتدا اچھی ہو تو زندگی کا راستہ سیدھا بنتا ہے۔ آخر میں منتظمین نے کہا کہ جمعیت علماء کا یہ پلیٹ فارم مضبوط ہونا چاہیے تاکہ سماج اور ملک دونوں کو بہتر راستے پر رکھا جا سکے۔