مکاتبِ اسلامیہ کا قیام وقت کی اہم ضرورت:مفتی ظہیر الاسلام

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-03-2023
مکاتبِ اسلامیہ کا قیام وقت کی اہم ضرورت:مفتی ظہیر الاسلام
مکاتبِ اسلامیہ کا قیام وقت کی اہم ضرورت:مفتی ظہیر الاسلام

 

بارہ بنکی:(ابوشحمہ انصاری) مدرسہ دارالامین للبنات انوپ گنج سعادت گنج میں ختم ترمذی شریف کا ایک ایک جلسہ منعقد ہوا۔ جس کی صدارت حاجی محمدعرفان انصاری اور نظامت کے فرائض ناظمِ مدرسہ مولانا محمدعقیل ندوی نے انجام دئے۔
اس میں مفتی ظہیر الاسلام قاسمی نے مکاتب کے قیام اور ان کی اہمیت پر خطاب فرماتے ہوئے کہا کہ اس دَورِپُرفتن میں مکاتب کا قیام انتہائی ضروری ہوگیا ہے۔ ہر مسلمان کو اپنے اوپر مکاتب کے قیام کو لازم کرلینا چاہئے۔ ہرمسجد میں مکتب کے قیام کے علاوہ ہر دس گھروں پر ایک مکتب ہونا چاہئے۔
ہر پندرہ شخص پر ایک عالم اور ہر دس لوگوں پر ایک حافظ ہونا ضروری ہے۔ تاکہ لوگوں کو دینی مسائل سمجھنے اور قرآن سیکھنے میں کسی قسم کی کوئی پریشانی نہ ہو۔ ایسے پرآشوب حالات میں جوشخص اپنے بچوں کو مکاتب اور دینی تعلیم سے آشنا نہیں کرا رہا گویا وہ اپنے بچوں کو ارتداد کا راستہ دکھا رہا ہے۔
انہوں نے دینی تعلیم پر زور ڈالتے ہوئے کہا کہ جس طرح سے مذہبِ اسلام کے اندر ذات و برادری کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسی طرح مذہب اسلام میں علم دین سیکھنے کی کوئی عمرمتعین نہیں ہے۔ مکاتب میں چھوٹے بچوں کے ساتھ بڑی عمر والوں کو بھی تعلیمِ دین سیکھنے کے لئے جانا چاہئے۔
اس میں کسی کو کوئی شرمندگی محسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس طرح سے بڑی عمر کا شخص اپنے پاس کسی چھوٹے بچے کو بغیر کسی شرمندگی کے بٹھا کر سفر کرسکتا ہے اسی طرح بڑی عمر والا چھوٹوں کے ساتھ بیٹھ کر دینی تعلیم بھی حاصل کر سکتا ہے۔
انہوں نے بچیوں سے ترمذی کی آخری حدیث پڑھوا کر جامع ترمذی کی اہمیت پرمخصوص خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ حافظ ذہبیؒ تذکرۃ الحفاظ میں ابوعلی منصور بن عبد اللہ خالدی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ امام ابوعیسیٰ ترمذی کا کہنا ہے کہ میں نے اس کتاب کو تصنیف کرنے کے بعد علمائے حجاز پر پیش کیا تو وہ اس پر بہت خوش ہوئے۔ پھر میں نے اسے علمائے عراق پر پیش کیا تو اُنہوں نے بھی اسے پسند فرمایا۔
اس کے بعد میں نے اس کتاب کو علمائے خراسان پر پیش کیا تو انہوں نے بھی اس کوپسند کیا ۔
جس شخص کے گھر میں یہ کتاب ہے گویا کہ اس گھر میں پیغمبراسلام ﷺگفتگو فرما رہے ہیں۔ حافظ ابن اثیرؒ جامع الأصول میں فرماتے ہیں کہ امام ترمذیؒ کی کتاب بہت سے علمی فوائد کی حامل ، عمدہ ترتیب سے مزین اور بہت کم تکرار والی حدیث کی ایک بہترین کتاب ہے۔ جس میں علماء کے اقوال ، طریقہ ہائے استدلال اور حدیث پر صحیح ، ضعیف اور غریب ہونے کا حکم لگانے کے علاوہ جرح وتعدیل کا بیان اس قدر کثرت سے پایا جاتا ہے جو حدیث کی کسی اور کتاب میں نہیں ملتا۔
صاحب تحفۃ الاحوذی شیخ الاسلام ابواسماعیل الہروی کے حوالہ سے رقم طراز ہیں کہ امام ابوعیسیٰ ترمذی ؒکی کتاب ہمارے نزدیک بخاری و مسلم کی کتاب سے زیادہ مفید ہے۔ کیونکہ بخاری اورمسلم کی کتابوں سے تو صرف ایک ماہر عالم ہی مستفید ہو سکتا ہے۔ جبکہ ابوعیسیٰ کی کتاب سے فقہا اور محدثین کے علاوہ ایک عام آدمی بھی استفادہ کرسکتا ہے۔
کیونکہ اس میں بیان کردہ احادیث کی امام صاحب نے خود ہی شرح اور وضاحت کر دی ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ امام ابوعیسیٰ ترمذی کی کتاب ان پانچ کتابوں میں شامل ہے جن کی قبولیت اور اصول کی صحت پر علماء ، فقہاء اور اکابر محدثین میں سے اہل حل و عقد اور اربابِ فضل و دانش نے اتفاق کیا ہے۔ اور شیخ ابراہیم اپنی کتاب میں طلبائے حدیث کو مشورہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہر طالب حدیث کو امام ترمذی ؒکی جامع صحیح کامطالعہ کرنا چاہئے۔ کیونکہ یہ کتاب حدیث و فقہ کے علمی فوائد اور سلف و خلف کے مذاہب کا ایک ایسا جامع مرقع ہے جو مجتہد کی ضرورت کو پورا کر دیتا ہے۔اور مقلد کو بے نیاز کردیتا ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒرقم طراز ہیں کہ میرے نزدیک وسعت ِعلم ، بہت مفید تصنیفات اور زیادہ شہرت حاصل کرنے کے اعتبار سے چار محدث ہیں جو آپس میں تقریباً تقریباً ہم عصر ہیں۔ ان کے نام نامی اسماء گرامی ابو عبداللہ محمد بن اسمٰعیل بخاری ، مسلم بن حجاج نیشا پوری ، ابوداودسجستانی ، اورابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی ہیں۔
اس موقع پر جامعہ مدینۃ العلوم رسولی کے مہتمم حافظ ایاز احمد مدینی ، الحاج مشتاق احمد (امیرجماعت)حاجی محمداسرار ایکسپورٹر ، عدیل منصوری ،حاجی شکیل منصوری ، مولانا محمدفرمان مظاہری،مفتی محمدہلال ثاقبی،مولانا جنیدقاسمی،مولانا محمداخترقاسمی،مولانا شمس الدین قاسمی،مولانا اظہر الدین ندوی،محمداحرار اور محمداسلام کی موجودگی قابل ذکر ہے۔جلسہ کے اختتام پر ناظم مدرسہ مولانا عقیل ندوی نے آئے ہوئے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا