شاعروں کے مرکزعقیدت حضرت کرشن

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 27-08-2021
شاعروں کے مرکزعقیدت حضرت کرشن
شاعروں کے مرکزعقیدت حضرت کرشن

 

 

جنم اشٹمی پر خاص مضمون

غوث سیوانی،نئی دہلی

اردوشاعری میں ہندواعتقاد واساطیرکے مضامین کی بڑے پیمانے پر موجودگی ہے۔ اردوسے قبل فارسی میں بھی ہندوستان کے فارسی شاعروں نے اس قسم کے مضامین کا استعمال کیا ہے۔ حالانکہ کرشن بھکتی کواردوشاعروں کے ہاں بڑے پیمانے پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس سلسلے میں نظیرؔ اکبرآبادی کواگرچہ شہرت حاصل ہے لیکن دوسرے شاعروں نے بھی اپنی شاعری میں کرشن کو مختلف پہلووں سے پیش کیاہے اور انتہائی حسین پیرایے میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے

۔ شری کرشن کی شخصیت کوہندوستانی ثقافت میں محبت کی علامت کے طور پر دیکھا جاتاہے اورسچ یہ بھی ہے کہ رادھا وکرشن کی داستان محبت،دنیابھر میں بے مثل وبے مثال ہے۔

یہی سبب ہے کہ ہندوستان کے ہندواورمسلمان شاعروں نے،جہاں انھیں استعارے کے طور پر پیش کیاوہیں ان کی داستان کو بھی شعربند کیا۔

عبدالرحیم خان خاناں مغل عہد کے معروف شاعرہیں جوفارسی کے علاوہ ہندی میں بھی شاعری کرتے تھے اور انھیں اہل ہندی رحیمن کے نام سے جانتے ہیں۔ برہان الدین جانم سولہویں صدی کے صوفی تھے اور شاعر بھی تھے۔ان کی شاعری میں کرشن کا ذکر ملتاہے۔ایسے ہی اٹھارہویں صدی عیسوی کے بزرگ تھے شاہ تراب چشتی جو اچھے شاعر بھی تھے۔

ان کے کلام میں بھی شری کرشن کا ذکر آیا ہے۔ شاہ محمدکاظم قلندرکاکوروی اور شاہ تراب علی قلندربھی صوفی تھے اورشاعر بھی۔ انھوں نے شری کرشن کا بیان اپنی شاعری میں کیا۔ محسن کاکوروی نعت گوشاعروں میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔

انھوں نے واقعہ معراج پرایک قصیدہ لکھا تھاجس میں داستان کرشن کے معاملات کو استعارے کے طور پر استعمال کیاتھا ان کے شہرۂ آفاق تعنتیہ قصیدے کی ابتداء ہی کاشی،متھرا اور گنگا جل کے ذکر سے ہوتی ہے:

سمت کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل

برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل

اس قصیدے کو تحریرہوئے سو سال سے زیادہ بیت چکے ہیں لیکن آج بھی اردوادیبوں کے بیچ یہ موضوع بحث بنا ہواہے اور جب بھی فن نعت گوئی پر گفتگوہوتی ہے تو اس کا ذکر ضرورآتاہے۔

مولاناحسرت موہانی بھی خود کو کرشن کا مقلدمانتے تھے اور انھیں حضرت کرشن کہاکرتے تھے۔

آنکھوں میں نورِ جلوۂ بے کیف و کم ہے خاص

جب سے نظر پہ اُن کی نگاہِ کرم ہے خاص

کچھ ہم کو بھی عطا ہو کہ ہے حضرتِ کرشن

اِقلیمِ عشق آپ کے زیرِ قدم ہے خاص

حسرت کی بھی قبول ہو متھرا میں حاضری

سُنتے ہیں عاشقوں پہ تمہارا کرم ہے خاص

نظیراکبرآبادی نے کرشن جی کے تعلق سے بہت سی نظمیں لکھی ہیں۔ علاوہ ازیں انھوں نے ہولی پر بھی نظمیں لکھی ہیں جن میں کرشن اور رادھاکا ذکر ہے۔ اسی طرح حفیظ جالندھری کی بھی ایک نظم ہے’’کرشن کنھیا‘‘۔سیماب اکبرآبادی نے بھی کرشن جی پر کئی نظمیں لکھی ہیں۔

سُرورجہان آبادی نے بھی کرشن جی کواپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ علاوہ ازیں دوسرے بہت سے شاعروں کاموضوع سخن کرشن ہیں۔ کرشن جی کے خطبات کا مجموعہ گیتاکے اردومیں بہت سے ترجمے ہوئے اور منظوم ترجمے بھی بہت سے ہوئے ہیں۔