نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے حکومت ہند سے لال قلعہ کا قبضہ واپس کرنے کی درخواست کرنے والی ایک خاتون کی درخواست کو خارج کر دیا۔ درخواست گزار کا نام سلطانہ بیگم ہے اور وہ مغل حکمران بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے کی بیوہ ہونے کا دعویٰ کر رہی ہیں۔
درخواست گزار کے مطابق 1857 میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے مغل حکمران کو زبردستی لال قلعہ سے نکال کر اپنے قبضے میں لے لیا اور اب ان کے آباؤ اجداد کی جائیداد پر حکومت کا قبضہ ہے۔ جسٹس ریکھا پلائی کی بنچ نے سلطانہ بیگم کی عرضی کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت تاخیر سے دائر کی گئی۔
عدالت نے درخواست گزار سے کہا کہ بدقسمتی سے آپ نے کیس بنائے بغیر درخواست دائر کردی۔ آپ کے مطابق یہ سب کچھ 1857 سے 1947 کے درمیان ہوا۔
آپ نے درخواست میں یہ بھی نہیں بتایا کہ آپ کا مسئلہ کیا ہے۔ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ درخواست گزار ایک ناخواندہ خاتون ہے لیکن اس کے آباؤ اجداد نے اسی وقت یا اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی۔
ایڈوکیٹ وویک مور کے ذریعے دائر درخواست میں سلطانہ بیگم نے کہا کہ 1857 میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے دہلی کے شہنشاہ بہادر شاہ ظفر سے ان کا تخت چھین کر ان کی تمام جائیداد چھین لی تھی۔
دعویٰ کیا کہ انگریزوں نے ظفر کو غداری کا مرتکب ٹھہرانے کے بعد انھیں یہاں سے جلاوطن کر دیا اور انھیں ان کے خاندان سمیت رنگون بھیج دیا۔ وہاں ان کی بیوی نے بیٹے کو جنم دیا۔ ظفر کا انتقال 1862 میں ہوا۔ اس وقت ان کی عمر 82 سال تھی۔
درخواست میں کہا گیا ہےکہ جب 1947 میں ہندوستان آزاد ہوا اور یہاں کا اقتدار حکومت ہند کے پاس آیا تو اس نے ظفر کے پڑپوتے بیدار بخت کو ان کا جانشین مانتے ہوئے 1960 میں پنشن دینا شروع کردی۔
بخت کو اپنا شوہر بتاتے ہوئے سلطانہ بیگم نے درخواست میں کہا کہ ان کے شوہر کے انتقال کے بعد انہیں معمولی پنشن دی گئی جو اتنی کم ہے کہ اس سے زندہ رہنا بھی مشکل ہے۔ درخواست گزار نے یہ بھی کہا کہ اب حکومت ہند ان کی آبائی جائیداد پر ناجائز قبضہ کرکے بیٹھی ہے۔
ان حقائق کی بنیاد پر درخواست گزار نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ حکومت ہند کو ہدایت دی جائے کہ وہ لال قلعہ کا قبضہ واپس دے یا بدلے میں مناسب معاوضہ دے۔ دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ 1857 سے اب تک لال قلعہ پر ناجائز قبضہ کرنے والوں سے بھی مناسب معاوضہ لیا جائے۔