 
                                 
نئی دہلی دہلی ہائی کورٹ نے جمعہ کو یہ بات دہراتے ہوئے کہا کہ سینئر شہریوں کو اپنی ملکیت میں پرامن اور باعزت زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، خواہ خاندان کے اندر تنازعات ہی کیوں نہ ہوں۔ عدالت نے نچلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ایک بہو کی اپنے سسرال کے ذاتی مکان سے بے دخلی کے خلاف اپیل مسترد کر دی، البتہ اسے خواتین کو گھریلو تشدد سے تحفظ دینے والے قانون 2005 (PWDV Act) کے تحت متبادل رہائش کا حق برقرار رکھا۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ PWDV ایکٹ کے تحت عورت کو جو رہائش کا حق حاصل ہے، وہ ملکیت کا نہیں بلکہ رہائش کا حق ہے، اور یہ سینئر شہریوں کے اس حق پر غالب نہیں آ سکتا کہ وہ اپنے گھر میں سکون سے رہ سکیں۔ بینچ نے کہا: “قانون کو اس طرح نافذ ہونا چاہیے کہ تحفظ اور سکون دونوں برقرار رہیں۔” عدالت نے زور دیا کہ عورت کے رہائش کے حق اور ساس سسر کے وقار کے حق، دونوں میں توازن قائم رکھنا ضروری ہے۔
عدالت نے نوٹ کیا کہ متعلقہ مکان ایک ہی رہائشی یونٹ ہے جس میں مشترکہ باورچی خانہ اور زینہ (سیڑھیاں) ہیں، لہٰذا ایک ہی گھر میں الگ رہائش ممکن نہیں۔ مزید کہا گیا کہ بزرگ مالکان نے اپیل کنندہ (بہو) کے لیے آزاد متبادل رہائش فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے، جس کا کرایہ 65,000 روپے ماہانہ تک ہوگا، اور مرمت، بجلی، پانی اور سیکیورٹی ڈپازٹ کے تمام اخراجات وہ خود برداشت کریں گے۔
عدالت نے کہا کہ یہ انتظام ایک طرف بہو کے قانونی تحفظ کو برقرار رکھتا ہے تو دوسری جانب سینئر شہریوں کے گھر کا سکون بحال کرتا ہے: “جب دونوں فریقوں کے حقوق ایک دوسرے سے متصادم ہوں، تو عدالت کو ایسا نازک توازن قائم کرنا چاہیے جس سے نہ کسی کی عزت مجروح ہو اور نہ کسی کی سلامتی۔
” ہائی کورٹ نے اپیل خارج کرتے ہوئے ہدایت دی کہ چار ہفتوں کے اندر دو کمروں کا فلیٹ کسی مناسب علاقے میں بہو کے لیے متعین کیا جائے، اور وہ اس کے بعد دو ہفتوں کے اندر متنازعہ مکان خالی کرے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اگرچہ PWDV Act خواتین کو محتاجی سے بچانے کے لیے بنایا گیا ہے، لیکن یہ انہیں کسی مخصوص جائیداد میں ہمیشہ رہنے کا حق نہیں دیتا، خاص طور پر جب مکان کے مالک سینئر شہری ہوں جو اپنی زندگی کے آخری برسوں میں سکون چاہتے ہوں۔
 
                            