کارگل کی جنگ۔ پاکستان کو ایک اور سبق

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 26-07-2021
کہانی ٹائیگر ہل کی جیت کی
کہانی ٹائیگر ہل کی جیت کی

 



 

 ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سیاسی اور سفارتی تناو کے ساتھ فوجی ٹکراو بھی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ تقسیم کی کوکھ سے جنم لینے والے پاکستان کے لیے پڑوسی کا کردار نبھانا ہمیشہ مسکل رہا ہے۔ اس کا ایک سبب پاکستان کے جمہوری نظام پر فوج اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا غلبہ بھی ہے اور کشمیر کی آڑ میں دہشت گردی کا کھیل بھی۔

آزادی کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان دو بڑی جنگیں 1965 اور 1971 میں لڑی گئی تھیں،جن میں پاکستان کو منھ کی کھانی پڑی تھی لیکن اس کے باوجود پاکستان نے اپنی چال نہیں بدلی۔طریقہ کار یقینا بدل گیا تھا۔فوج کے بجائے دہشت گردوں کے ساتھ سرحد پار سےتخریب کاری اور دہشت گردی کو ہوا دینے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔

اسی کھیل اور سازش کا ایک حصہ رہی کارگل کی جنگ۔

 پاکستان کے لیے المیہ یہ رہا کہ اس میں بھی ذلت اور رسوائی کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں لگا۔

پاکستان کے ناپاک منصوبوں کوناکام کیے ہوئے دو دہائی کا عرصہ گزر چکا ہے۔آج ہی کے دن ہندوستانی جانباز جوانوں نے پاکستانی فوج کے دانت کھٹے کرتے ہوئے انہیں شکست سے دوچار کردیا تھا۔ لیکن جن لوگوں نے وہ جنگ لڑی ان کے ذہن میں جنگ کی یادیں آج بھی تازہیں۔

سازش کے تار اور آغاز

 پاکستان نے سب سے بڑی سازش بٹالک کی پہاڑی پر رچی تھی، جہاں سے 1999میں کارگل جنگ عادت سے مجبور کی شروعات ہوئی تھی۔ کیونکہ وہاں نہ تو فوج کی نظر تھی اور نہ ہی خفیہ ایجنسیو ں کی۔ اسی کا فائدہ اٹھاکر پاکستان فوج دراندازوں کی شکل میں ہندوستان میں داخل ہو گئی تھی۔پاکستان نے فوجیوں کے ساتھ دہشت گردوں کو اس مقام پر پہنچا دیا تھا۔

 نام تھا آپریشن وجے

 کارگل جنگ کو آپریشن وجے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سال 1999 کی مئی سے جولائی کے درمیان کشمیر کے کارگل ضلع میں ہوئی مسلح جنگ ہے۔ تب پاکستانی فوجیوں نے ہندوستان - پاکستان کی سرحد پار کرکے ہندوستان کی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے لئے انہوں نے کشمیری دہشت گردوں کی مدد بھی لی تھی۔ پاکستان کا مقصد اس دراندازی کے ذریعہ سیاچن گلیشیر سے انڈین آرمی کو ہٹا دینا تھا۔

 چرواہے کی چھٹی حس

 پاکستان کی دراندازی کو کسی فوجی یا مخبر نے نہیں پکڑا تھا بلکہ جس علاقہ کے ایک چرواہے نے دراندازی کو محسوس کرلیا تھا۔اس کا نام تاشی بتایا جاتا ہے۔ جس نے ہندوستانی فوج کو اس کی اطلاع دی تھی جس کے بعد ہندوستانی فوج حرکت میں آئی تھی۔

 اسی کے آٹھویں دن کرگل میں جنگ چھڑ گئی تھی بٹالک کے بعد تولولک میں بھی پاکستانی فوج کی دراندازی کی خبر وہاں کے لوگوں کے ذریعے ہی ہندوستانی فوج کو ملی تھی جس کے بعد کرگل کے کئی علاقوں میں ایک کے بعد ایک کھلی جنگ چھڑ چکی تھی لیکن اس لڑائی میں دشمنوں کو پہاڑیوں کی اونچائی کا فائدہ مل رہا تھا۔ایسے میں درندازوں پر ہندوستانی جوانوں نے توپوں سے گولے داغنےشروع کر دیے تھے۔

بوفورس کا پہلا استعمال

 ٹائیگر ہل پر قابض پاکستانی فوجیوں اور دہشت گردوں کے خلاف اس جنگ میں ہندوستانی فوج نے پہلی بار بوفورس گن کا استعمال کیا تھا۔بوفورس توپوں کا استعمال پہلی بار تولولنگ میں ہی ہوا تھا۔ آج ہی کے دن یعنی 26 جولائی 1999 کو ہندوستان نے کارگل میں پاکستان پر جیت حاصل کی تھی۔ تقریباً 60 دنوں تک چلی یہ لڑائی برفیلے علاقوں میں ہندوستانی فوج کی جانبازی اور بہترین ہمت کی ایک مثال ہے۔

پاکستان کا جانی نقصان

 کارگل کی لڑائی یو ں تو پاکستان نے ہی شروع کی تھی لیکن اس کی بڑی قیمت بھی اسی کو چکانی پڑی تھی۔پاکستان نے 2 ہزار سے زیادہ فوجی گنوا دیئے تے اور 1965 اور 1971 کی لڑائی سے بھی زیادہ نقصان برداشت کیا تھا۔ حالانکہ مارے گئے پاکستانی فوجیوں کی تعداد کی کبھی آفیشیل طور پر تصدیق نہیں ہوئی۔

تیاری لمبی جنگ کی تھی مگر

کارگل کی جنگ پاکستان کی دھوکہ بازی کی نئی کہانی ہے۔ راتوں رات پاکستانی فوجی اور دہشت گردوں نے ٹائیگر ہل پر قبضہ کرلیا تھا۔اس بلندی پر بھاری مقدار میں رسد بھی تھا، یعنی وہ ایک طرح سے لمبی جنگ کے لیے تیار تھے۔

 اسی دوران ایک چرواہے کےخبر پرتین مئی 1999 کو جب ہندوستانی فوجی کی ٹکڑی وہاں پہنچی تو پاکستانی فوجیوں نے انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے ہندوستان کے 5 فوجی مارے گئے۔

 جس کے بعد ہندوستان کو اندازہ ہوا کہ یہ کوئی معمولی دراندازی نہیں بلکہ علاقہ پر قبضہ کی تیاری ہے۔

 ہندوستانی فوج نے حکمت عملی تیار کرکے پاکستانی فوج کو سبق سکھانے کے لیے اس کے خلاف ایک آپریشن چلایا، جسے آپریشن وجے نام دیا گیا۔

 ہندوستانی فوج اور فضائیہ نے پاکستان کے قبضے والے مقامات پر حملہ کیا اور آخر کار تقریباً 60 دنوں میں جنگ ہندوستان کی جیت کے ساتھ ختم ہوا۔

ہندوستانی فوج کے لیے تھا ایک چیلنج

کارگل جنگ ہندوستانی فوج کے لیے کافی مشکلات سے بھرا ہوا تھا۔ پاکستان کے فوجیوں نے اونچی پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا تھا، جہاں تک گولہ بارود برسانا مشکل تھا۔ وہیں ہمارے فوجی چھپے ہوئے تھے اور ان کا نقصان کافی ہوسکتا تھا۔ ہندوستانی جوانوں کا آڑ لے کر یا رات میں چڑھائی کرکے اوپر پہنچنا پڑ رہا تھا، جو کہ بہت خطرہ بھرا کام تھا۔ تب بھی فوجیوں نے ہار نہیں مانی اور ہمت وحوصلہ دکھاتے ہوئے پاکستان کے ناپاک ارادوں کو دھول چٹا دی۔

ایر فورس کا اہم کردار

 کارگل کی جنگ میں ہوائی اور زمینی جنگ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ہندوستانی فضائیہ نے پاکستان کے خلاف مگ -27 اور مگ -29 کا استعمال کیا اور جہاں بھی پاکستان نے قبضہ کیا تھا، وہاں بم گرائے گئے۔ ساتھ ہی آر-77 میزائل سے حملہ کیا گیا۔ اس دوران بھاری مقدار میں گولے داغے گئے۔

لڑائی کے دو ہفتوں سے زیادہ تو جدوجہد اتنی زیادہ تھی کہ ہر منٹ میں ایک راونڈ فائر ہوا۔ 60 دنوں تک چلی اس لڑائی میں ہندوستان کے 527 جوان شہید ہوئے اور تقریباً 1300 جوان زخمی ہوئے۔ وہیں پاکستان کے 2 ہزار سے زیادہ فوجی مارے گئے۔ حالانکہ پاکستان نے کبھی اس کی آفیشیل طور پر تصدیق نہیں کی۔

 اس دوران اٹل بہاری واجپئی ملک کے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے پاکستان پر ہندوستان کی جیت کا اعلان 14 جولائی کو ہی کردیا تھا، لیکن اس کا آفیشیل اعلان 26 جولائی کو کیا گیا۔ تب سے ہی یہ دن کارگل کے شہیدوں اور باقی فوجیوں کی بہادری کو سلام کرتے ہوئے کارگل وجے دیوس یا آپریشن وجے کے نام سے بھی مناتے ہیں۔