سراج انور/ پٹنہ
سال 2020 کی ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ کی فہرست میں بہار نے اپنا لوہا منوایا ہے۔ اس ریاست کے تین ادیبوں کے اپنا سکہ جمایا ہے ۔ اس فہرست میں مظفرپور کی رہنے والی انامیکا بھی شامل ہیں ۔ ہندی میں شعری مجمعے کے لئے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ پانے والی وہ ملک کی پہلی خاتون ادیب ہیں ۔ مدھوبنی کے جے نگر کے رہائشی 80 سالہ کمل کانت جھا کو بھی میتھلی زبان میں شائع ان کی کہانی کے لئے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا جائے گا ۔
سب سے زیادہ چرچا ہے گیا کے رہنے والے اردو کے نامور ادیب حسین الحق کا جنہیں ان کے ناول اماوس میں خواب کے لئے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ تفویض کیا جائے گا ۔
وزیر اعلی نیتیش کمار نے حسین الحق کو ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ جیتنے پر مبارک باد دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہار کے تین ادیبوں کو ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ کا ملنا ریاست کے لئے فخر کی بات ہے۔
خاندان نے کیا خوشی کا اظہار
حسین الحق کی آج کل طبیعت ناساز چل رہی ہے۔ وہ حال ہی میں دہلی سے علاج کرا کر لوٹے ہیں۔ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملنے کی خبر نے ان کے پورے خاندان کو خوشی سے سرشار کر دیا ہے۔ ان کے چھوٹے بھائی اور گیا کے مرزا غالب کالج میں شعبہ انگریزی کے صدر ڈاکٹر این تابش نے آواز دی وائس کو بتایا کہ بھائی جان کو ملنے والا یہ اعزاز ان کے خاندان کے لئے فخر کی بات ہے ۔ سن 1949 میں پیدا ہونے والے حسین الحق نے اپنے علمی کام کو انسان دوستی اور متوسط طبقے کے مسائل پر مرکوز رکھا۔
ادبی سفر پر ایک نظر
ان کے بیحد قریبی نوجوان ادیب احمد صغیر کہتے ہیں کہ حسین الحق کا پہلا ناول "بولو مت چپ رہو" جیسے ہی مارکیٹ میں یا اسی وقت سے ہی لوگوں نے ان کی علمی تخالیق کا نوٹس لینا شروع کر دیا ۔ سن 1994 میں انہوں نے اپنا دوسرا ناول فرات شائع کیا جس نے انہیں مقبولیت کی بلندی پر پہنچا دیا۔ اس کے بعد ان کا قلم کافی دنوں تک خاموش رہا ۔ ان کے تیسرے ناول اماوس کے خواب نے اردو ادب کے ایوانوں میں ہنگامہ برپا کر دیا ۔ سن 2017 میں شائع ہونے والے اس ناول کو قارئین نے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ ناول میں گزشتہ تین سے پانچ دہایوں کے دوران ہونے والی معاشرتی اور سیاسی تبدیلیوں کا عکس کھینچا گیا ہے۔
تصوف سے خاصے متاثر ہیں
حسین الحق حسین الحق کا تصوف سے بہت گہرا تعلق ہے ۔سہسہرام کی ایک خانقاہ کے گدی نشین بھی ہیں ۔ان کے والد مولانآ انوارالنازش سہسہرامی قدآور شخصیت تھے ۔ حسین الحق کہتے ہیں کہ چیزوں کو دیکھنے کا نظریہ اور سوچنے کا زاویہ انہوں نے اپنے والد سے سیکھا ہے۔ کئی برسوں سے حسین الحق کا خاندان گیا میں رہ رہا ہے لیکن سہسہرام سے ان کا رشتہ منقطع نہیں ہوا ہے ۔
ایوارڈ پانے والی پانچویں شخصیت
مگدھ یونیورسٹٹی کے پراکٹر رہنے والے حسین الحق نے اردو کے کئی مقبول کتابیں لکھیں ہیں ۔ انہوں نے تین ناول کےعلاوہ آٹھ کہانیوں کے مجموعے اور آدھا درجن تنقید پر مبنی کتابیں شائع کی ہیں۔ عبد الصمد ، مظہر امام ، الیاس احمد گدی ، پروفیسر جابر حسین کے بعد حسین الحق ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ پانے والے اردو کے پانچویں ادیب ہیں۔
وہ گیا کے پہلے کے پہلے ادیب ہیں جنہیں یہ اعزاز ملا ہے ۔ احمد صغیر کا کہنا ہے کہ حسین بھائی کو یہ ایوارڈ بہت پہلے مل جانا چاہئے تھا ۔ یہ حسن اتفاق تھا کہ جمعہ کی صبح یہ خبر آتی ہے اردو کے ادیب کو لکھنو میں شمیم نکہت فکشن میموریل ایوارڈ کے لئے منتخب کیا گیا ہے اور انہیں آئندہ 13 مارچ کو اس ایوارڈ سے نوازا جائے گا ۔ لیکن ان کے بھائی کے مطابق وہ اس تقریب میں شرکت نہیں کریں گے ۔
صبح اس خبر کے آنے کے بعد شام میں ہی دوسری خبر آتی ہے کہ انہیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ کے لئے منتخب کیا گیا ہے ۔ ان دو خبروں نے ان کے خاندان میں خوشی کی لہر پیدا کر دی ۔ ان کے بھائی تابش کہتے ہیں کہ اس ایوارڈ کا اثر اردو دنیا میں دور تک جائے گا ۔ اس سے یہ پیغام گیا ہے کہ سنجیدہ مسائل پر لکھنے والوں کی آج کے زمانے میں بھی قدر موجود ہے۔
یاد رہے کہ ساہتیہ اکیڈمی نے بیس زبانوں کے لئے ایوارڈ کا اعلان کیا ہے۔ اس سال کے اعلان کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ ایوارڈ پانے والے دیگر ناموں میں کانگریس کے سرکردہ لیڈر اور کرناٹک کے سابق وزیر اعلی ویرپا موئلی کا نام بھی شامل ہے۔