نئی دہلی: دہلی پولیس کی ابتدائی تفتیش سے پتا چلا ہے کہ لال قلعہ کے باہر ہونے والے زوردار دھماکے میں استعمال ہونے والی آئی-20 کار کا سراغ جموں و کشمیر کے پلوامہ سے جڑا ہوا ہے۔
ذرائع کے مطابق یہ آئی-20 کار مبینہ طور پر پلوامہ کے ایک رہائشی نے خریدی تھی۔ پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کر لی ہے جس میں مشتبہ کار کو لال قلعہ کے قریب پارکنگ ایریا میں داخل اور باہر آتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فوٹیج سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشتبہ شخص اس وقت اکیلا تھا۔
تحقیقات کار اب دریہ گنج کی سمت میں گاڑی کے راستے کا پتہ لگا رہے ہیں، اور 100 سے زائد سی سی ٹی وی کلپس، بشمول قریبی ٹول پلازہ کی فوٹیج، کا باریکی سے جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ گاڑی کی مکمل نقل و حرکت واضح ہو سکے۔
دھماکے کے بعد دہلی پولیس نے لال قلعہ کے آس پاس، خصوصاً پہاڑ گنج، دریہ گنج اور ملحقہ علاقوں کے ہوٹلوں میں رات بھر تلاشی مہم چلائی۔
اس دوران ہوٹل رجسٹرز کو بھی تفصیل سے چیک کیا گیا، اور چار افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا۔
پیر کی شام لال قلعہ کے باہر ہونے والے اس زوردار دھماکے میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
ذرائع کے مطابق پولیس نے مختلف مقامات سے سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لیا ہے، جن میں بدرپور بارڈر سے لال قلعہ کی سنہری مسجد پارکنگ تک، آؤٹر رنگ روڈ سے کشمیری گیٹ-لال قلعہ روٹ تک کی ویڈیوز شامل ہیں۔ تقریباً 200 اہلکار اس عمل میں شامل تھے۔
مزید یہ کہ ذرائع نے بتایا کہ دھماکے والی آئی-20 کار ہریانہ کے راستے بدرپور بارڈر سے دہلی میں داخل ہوئی تھی۔
سی سی ٹی وی شواہد کی بنیاد پر تقریباً 13 افراد سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ شبہ ہے کہ فرید آباد ماڈیول سے جڑا ایک شخص بھی اس گاڑی میں موجود تھا، تاہم مرنے والے کی شناخت ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ہی حتمی طور پر کی جائے گی۔
یہ انکشاف اس وقت سامنے آیا ہے جب جموں و کشمیر اور ہریانہ پولیس نے فرید آباد سے 360 کلو دھماکہ خیز مواد اور اسلحہ برآمد کیا تھا، جس کے سلسلے میں ڈاکٹر مزمل اور عادل راتھر کو گرفتار کیا گیا تھا۔
دریں اثنا، شمالی دہلی کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس راجہ بانتیہ نے بتایا، "تحقیقات جاری ہیں، ابھی کچھ حتمی طور پر کہنا ممکن نہیں۔ ایف ایس ایل ٹیم جائے وقوعہ سے دھماکے کے شواہد اکٹھے کر رہی ہے۔"
لال قلعہ دھماکے کے معاملے میں دہلی پولیس نے یو اے پی اے، ایکسپلوسِوز ایکٹ اور بھارتیہ نیایا سنہیتا کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
پولیس کے مطابق، "یہ مقدمہ یو اے پی اے کی دفعات 16 اور 18 سمیت متعلقہ قوانین کے تحت کوتوالی تھانے میں درج کیا گیا ہے۔"