کلیم اللہ خان : 300 سے زیادہ اقسام کے آموں کے جنم داتا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 28-07-2022
کلیم اللہ  خان :  300 سے زیادہ اقسام کے آموں  کے جنم داتا
کلیم اللہ خان : 300 سے زیادہ اقسام کے آموں کے جنم داتا

 

 

اے اے فریدی: آواز دی وائس 

آم کا موسم آتا ہے ہر کوئی اپنی پسند کے آم کا انتظار کرتا نظر آتا ہے۔ کوئی لنگڑے کا شوقین تو کوئی چونسے کا۔ کسی  دسہری کا مداح ہے تو کوئی گلاب خاص کا۔ ہر علاقے کے اپنے آم ،مگر لنگڑا اور دسہری کا نام آتا ہے تو ہر کوئی لنگڑا ڈھونڈتا ہے بنارس کا اور دسہری لکھنو کی۔ بہرحال آم کا موسم آیا بھی اور اب واپسی کی جانب بھی چل پڑا ہے۔ لیکن آم موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ شوگر کے مریض اگر آم کھاتے نہیں ہیں تو انہیں آم کے بارے میں پڑھنے کے لیے اخبارات اور میگزین میں بے انتہا مواد مل جاتا ہے شاید اسی کو پڑھ کر سکون مل جاتا ہو۔ ہر سیزن میں الگ الگ خبریں آتی ہیں ۔سب سے مہنگا آم ،سب سے بڑا آم ،سب سے ذائقہ دار آم ۔ گویا آم کے نام پر قاری سے ناظرین تک سب الجھے رہتے ہیں ۔ مگر ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایک نام ایسا ہے جس کو ہر سال لوگ پڑھتے ہیں آم کے تعلق سے جب کوئی رپورٹ بنتی ہے اس شخص کا نام خود بخود اس کا حصہ بن جاتا ہے آپ سوچ رہے ہوں  گے کہ یہ مرزا غالب  ہونگے ۔ لیکن ایسا نہیں ہے ۔ہم جن کی بات کررہے ہیں وہ لکھنو کے قریب ملیح آباد کے کلیم اللہ خان ہیں ۔ جن کے آم اور باغ دنیا بھر میں توجہ کا مرکز ہیں اور ان کا نام  اب آم کے ساتھ اسی طرح آتا ہے جیسے غالب کا آتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ غالب آم کھانے کے شوقین  تھے ا ور کلیم اللہ اگانے کے ۔

 حقیقت یہ ہے کہ اگر آم کے ساتھ ہر کہانی میں مرزا غالب کا نام جڑ جاتا ہے تو اسی طرح ہندوستان میں آم کی کسی نہ کسی کہانی  میں کلیم اللہ خان بھی موجود ہوتے ہیں کیونکہ اب ملیح آباد کے آم کے ساتھ جو نام سب سے زیادہ مقبول ہوا ہے وہ کلیم اللہ کا ہی ہے۔  جن کے لیے اب آم زندگی کا حصہ ہے۔ بات صرف کھانے کی نہیں بلکہ اس کو اگانے کی ہے۔ دنیا میں یو ں تو آم کے بیشتر شوقین وہی کہلاتے ہیں جو آم کھانے کے شوقین ہوتے ہیں لیکن ایک طبقہ ایسا ہوتا ہے جو  آم کو اگانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ جو نئے آم  اور انہیں نئے نام دینے کا  جنون رکھتے ہیں ۔انہیں میں ایک کلیم اللہ ہیں۔

awazurdu

آم کے دیوانے کلیم اللہ ۔جنت کے پھل کے لیے زندگی وقف کردی


صبح سے شام تک ۔آم ہی آم

 ایک حالیہ انٹر ویو میں کلیم اللہ نے اپنی زندگی کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ نہیں بلکہ زندگی ہی آموں کے لیے گزار رہے ہیں ۔ عمررسیدہ کلیم اللہ خان کہتے ہیں کہ  صبح سویرے  بیدار ہوتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، پھر اپنے 120 سال پرانے آم کے درخت کے دیدار کو تقریباً ایک میل کا فاصلہ طے کر کے پہنچتے ہیں۔ اس درخت سے انہوں نے کئی سال دیکھ بھال اور آبیاری کرتے ہوئے 300 سے زیادہ اقسام کے آم پیدا کیے ہیں۔ اس درخت کی طرف بڑھتے ہوئے جیسے جیسے کلیم اللہ قریب آتے جاتے ہیں ویسے ویسے ان کی آنکھوں میں ایک خاص چمک دکھائی دینے لگتی ہے۔ اپنا نظر کا چشمہ اوپر نیچے کرتے ہوئے، درخت کی شاخوں اور ٹہنیوں سے جھانکتے ہوئے، پتوں کو سہلاتے ہوئے پھلوں تک پہنچ کر انہیں سونگھتے ہیں اور اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ پک گئے ہیں یا نہیں۔ یہ شوق صرف شوق نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔ ہر پیڑ اور ہر آم پر نظر ضروری ہے۔ 

جنت کے پھل  اور محنت کا پھل

 یہ ان کی دن رات کی محنت ہے جس نے انہیں نام اور شہرت دی۔ ان کی مہارت اور تجربہ  قابل رشک ہے۔ بیاسی سالہ  بزرگ کلیم اللہ ملیح آباد کے چھوٹے سے قصبے کے ایک چھوٹے سے باغیچے میں کھڑے اپنے پھل دار درخت کی طرف دیکھ کر کہتے ہیں کہ ''یہ میرا انعام ہے کئی دہائیوں تک چلچلاتی دھوپ میں سخت محنت کا۔‘‘ کلیم اللہ مزید کہتے ہیں،''عام لوگوں کی نگاہ میں یہ محض ایک درخت ہے لیکن اگر آپ اپنے دماغ کی بصیرت استعمال کریں تو آپ کو ایک درخت، ایک باغ  نظر آئے گا۔

awazurdu

باغوں میں زندگی گزارنے والے کلیم اللہ


اسکول کی تعلیم مکمل کیے بغیر اسکول سے نکل جانے والے کلیم اللہ اُس  وقت ٹین ایجر تھے جب انہوں نے آموں کی نئی قسم کی پیداوار کے تجربات شروع کیے۔ انہوں نے ایک درخت سے سات قسم کے پھل اگانے کی کوشش کی۔ کراس پولینیشن‘ کے ذریعے۔ اس درخت کی پرورش کرتے رہے مگر یہ درخت ایک طوفان کی نذر ہو گیا۔

تاہم 1987 ء کے بعد سے اُن کی تمام تر خوشیاں اور فخر یہ 120 برس پرانا آم کا درخت ہے جو آم کی 300 سے زیادہ مختلف اقسام کا ذریعہ ہے، جن میں سے ہر ایک کا اپنا ذائقہ، ساخت اور رنگ اور سائز ہوتا ہے۔

آم ہی آم ۔ کئی اقسام

 کلیم اللہ نے آموں کے ایسے ایسے نام  دئیے ہیں کہ دنیا چونک گئی ۔ابتدائی اقسام میں سے ایک جس کا نام انہوں نے بالی ووڈ اسٹار اور 1994ء کی مس ورلڈ بیوٹی مقابلہ جیتنے والی ایشوریا رائے بچن کے نام پر رکھا ہے۔ کلیم اللہ خان نے کہا،''آم اداکارہ کی طرح خوبصورت ہے۔ ایک آم کا وزن ایک کلوگرام (دو پاؤنڈ) سے زیادہ ہے، اس کی بیرونی جلد پر سرخی مائل رنگت ہے اور اس کا ذائقہ بہت میٹھا ہے۔

دیگر آموں کا نام انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی اورکرکٹ ہیرو سچن ٹنڈولکر کے اعزاز میں رکھا۔ ایک اور''انارکلی‘‘ ہے یا انار کا پھول، اور اس کی جلد کی دو تہیں اور دو مختلف گودے ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک کی مخصوص خوشبو ہوتی ہے۔

 آٹھ بچوں کے والد کلیم اللہ خان نے کہا، ''لوگ آئیں گے اور جائیں گے، لیکن آم ہمیشہ رہے گا اور برسوں بعد جب بھی یہ سچن آم کھائے جائیں گے، لوگ کرکٹ کے ہیرو کو یاد رکھیں گے۔

awazurdu

یہ عشق ہے۔


درخت کی ساخت

نو میٹر یا تیس فٹ اونچے اس درخت کا مضبوط تنا جو بہت پھیلا ہوا ہے اور انتہائی خوش گوار سایہ فراہم کرتا ہے۔ پیڑ کی موٹی موٹی شاخیں جو بھارت میں موسم گرما کی کڑی دھوپ سے بچاؤ کے لیے سایے دار گھنے ٹہنیاں پھیلائے ہوئے ہیں۔ اس کے پتے مختلف ساخت کے ہیں اور ان پر جیسے 'پیچ ورک‘ کشیدہ کاری نظر آتی ہے۔

کلیم اللہ خان کہتے ہیں کہ''جیسے کسی دو انگلیوں کے نشان ایک جیسے نہیں ہوتے ویسے ہی آموں کی کوئی دو اقسام ایک سی نہیں ہوتیں۔  کچھ پیلے چمکیلے ہوتے ہیں تو کچھ کا رنگ مدھم سبز مائل ہوتا ہے۔ قدرت نے آموں کو انسانوں جیسی صفتوں سے نوازا ہے۔

پیوند کاری کے لیے اس کا طریقہ پیچیدہ ہے اور اس عمل میں ایک خاص قسم کی شاخ کو کاٹ کر اسے بہت ہی باریکی سے ایک خاص مقام سے تراشا جاتا ہے اس طرح کہ اس میں جیسے کہ ایک کھلا زخم رہ جائے پھر دوسری قسم کی شاخ کو بھی اسی طرح کاٹ کر ، تراش دونوں شاخوں کو زخم کے مقام پر ایک دوسرے کے ساتھ پیوند کر کے ٹیپ سے بند کر دیا جاتا ہے۔ کلیم اللہ خان نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا،''جب جوڑ مضبوط ہو جائے گا تو میں ٹیپ کو ہٹا دوں گا، اور اُمید ہے کہ، یہ نئی شاخ اگلے سیزن تک تیار ہو جائے گی، اور دو سال کے بعد ایک نئی قسم کو برداشت کر لے گی۔‘‘

awazurdu

آم کی پیداوار والا سب سے بڑا ملک

ہندوستان آم پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، جو آم کی عالمی پیداوار کا نصف حصہ پیدا کرتا ہے۔ شمالی ریاست اتر پردیش کے شہر ملیح آباد میں، 30,000 ہیکٹر سے زیادہ باغات ہیں اور یہ ملک کی قومی فصل کا تقریباً 25 فیصد حصہ بنتا ہے۔

 آم کے باغات، اس پھل سے محبت کرنے والوں کی کئی نسلوں سے چلی آ رہی خاندانی ملکیت ہیں۔ یہ باغات آم سے محبت کرنے والوں کی جنت ہیں، جس کی سب سے مشہور قسم ممکنہ طور پر منہ میں پگھلنے والی دُشیری ہے، جس کا نام قریبی گاؤں کے نام پر رکھا گیا ہے جہاں سے یہ 18ویں صدی میں شروع ہوا تھا۔

لیکن آل انڈیا مینگو گروورز ایسوسی ایشن کے مطابق، کسان موسمیاتی تبدیلیوں سے پریشان ہیں، اس سال گرمی کی لہر نے 90 فیصد مقامی فصل کو تباہ کر دیا ہے۔

انواع کی تعداد میں بھی کمی آئی ہے، جس کا ذمہ دار کلیم اللہ خان، کھیتی باڑی کی سخت تکنیکوں، سستی کھادوں اور کیڑے مار ادویات کے وسیع پیمانے پر استعمال کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کاشتکار بہت زیادہ درخت بھی لگاتے ہیں جو ایک ساتھ بہت مضبوطی سے باندھے جاتے ہیں، جس سے پتوں پر نمی اور اوس کے لیے کوئی جگہ نہیں رہتی، وہ کہتے ہیں۔میں حال ہی میں اپنے پیارے درخت کے قریب رہنے کے لیے فارم کے اندر ایک نئے گھر میں منتقل ہوا،یہاں میں اپنی آخری سانس تک کام کرتا رہوں گا۔