قاری عثمان منصورپوری کی حیات وخدمات پر الجمعیۃ خصوصی نمبر کا اجرا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-12-2021
قاری عثمان منصورپوری کی حیات وخدمات پر الجمعیۃ خصوصی نمبر کا اجرا
قاری عثمان منصورپوری کی حیات وخدمات پر الجمعیۃ خصوصی نمبر کا اجرا

 

 

 نئی دہلی : آج جمعیۃ علماء ہند کے صدر دفتر نئی دہلی کے مدنی ہال میں جمعیۃ علماء ہند کے سابق صدر امیر الہند رابع حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری ؒ کی حیات و خدمات پر مشتمل ہفت روز الجمعیۃ کا خصوصی شمارہ ’امیر الہند رابع‘ نمبر کا اجراعمل میں آیا۔اس موقع پر صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کی دعوت پر ملک کے مقتدر علماء و دانشوران شریک ہوئے۔رسم اجر تقریب کے ساتھ ایک خصوصی اجلاس کا انعقاد بھی عمل میں آیا، جس کی صدارت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی شیخ الحدیث و مہتمم دارالعلوم دیوبند نے کی، اجلاس میں مہمان خصوصی کے طور پر امیر الہند مولاناسید ارشد مدنی شریک ہوئے۔ ان کے علاوہ استاذ الاساتذہ مولانا نعمت اللہ اعظمی دارالعلوم دیوبند، مولانا عبدالعلیم فاروقی، مولانا رحمت اللہ کشمیری، مولانا اشہد رشیدی، نائب امیر الہند مولانا مفتی سید محمد سلمان منصورپوری اور پروفیسر اخترالواسع سمیت متعدد اہم شخصیات نے خطاب کیا۔

اپنے صدارتی خطاب میں مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ قاری محمدسید عثمان نوراللہ مرقدہ کی سراپا فیض شخصیت اپنے جلو میں علمی، عملی، دینی، سماجی اور ملی سربراہی اور خدمات کے بے شمار پہلو لیے ہوئے ہے۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو خدمت گاروں کے لیے رہ نمائی اور دستگیر ی کا سامان رکھتا ہے۔انھوں نے کہا کہ مرحوم دارالعلوم کے انتہائی باصلاحیت اساتذہ میں شمار کیے جاتے تھے، چاہے دفتر ختم نبوت ہو، تحقیق و تالیف، اصلاح معاشرہ، نائب مہتمم کی ذمہ داری ہو، انھوں نے بحسن و خوبی انجام دیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ درخشندہ زندگی کے جن گوشوں پر روشنی ڈالی جائے، اس پر آنے والی نسل چلے۔

اپنے کلیدی خطاب میں مہمان خصوصی مولانا سید ارشد مدنی امیر الہند رابع وصدر جمعیۃ علما ء ہند نے کہا کہ قاری سید محمد عثمان حسن اخلاق کا نمونہ، پاکیزہ صفت او رکامیاب استاذ تھے۔ان کی گھریلو زندگی بھی پاک و صاف تھی، ان کی ایک خاص صفت یہ تھی کہ انھوں نے فراغت کے بعد روحانی ترقی کے لیے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب ؒسے تعلق قائم کیا اور انہی کے حکم پر فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی ؒ سے مربوط ہو کر روحانیت کی بلندی حاصل کی، ان کے اندر خدا ترسی اور حقوق کی ادائیگی وغیرہ جو بھی صفات تھیں وہ کثرت ذکر اور خشیت الٰہی کی وجہ سے تھی۔

استاذ الاساتذہ مولانا نعمت اللہ اعظمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ آپ حضرات کا حضرت قاری صاحبؒ کی خوبیاں بیان کرنا حدیث کی روشنی میں حضرت کے جنتی ہونے کی دلیل ہے، حضرت قاری صاحبؒ اعلی درجہ کے متواضع، متقی اور منصف مزاج شخص تھے جس کی گواہی وہ سبھی حضرات دیں گے جنھوں نے قاری صاحب کے ساتھ کام کیا ہے .

جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے اپنے خطاب میں تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا، جنھوں نے ملت کی اس شخصیت کے خراج عقیدت کے موقع پر شرکت کی، انھوں نے اس موقع پر قاری محمد عثمان منصورپوری ؒ کی عظیم دینی

خدمت ”تحفظ ختم نبوت“ پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی یاد میں ’مجاہد ختم نبوت ایوارڈ‘کا اعلان کیا، ایوارڈ کی شکل یہ ہوگی کہ مقالہ نگاری کا مسابقہ ہو گا جس کے لیے تین عناوین طے کیے گئے ہیں، اس سے متعلق شرایط وطریقہ کار کا جلد اعلان کیا جائے گا (ان شاء اللہ)۔مولانا مدنی نے کہا کہ حضرت ممدوح میرے استاذ و مربی تھے، انھوں نے اپنی زندگی میں جس ذمہ داری کو سنبھالا، اس میں جان ڈال دی۔ 2008 میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر منتخب ہوئے، ان کے دور میں جمعیۃ علماء ہند نے نمایاں خدمات انجام دیں۔اصول پسندی اور پختہ عزم میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ ان کی قیادت میں جمعیۃ علماء ہندنے دہشت گردی کے خلاف تحریکیں چلائیں جن کے مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ایسے لوگ آنے والی نسل کے لیے مشعل راہ ہو تے ہیں، ان کے پیغامات تاریکی میں قندیل رہبانی کا کام کرتے ہیں۔

نائب امیر الہند مولانا مفتی سید سلمان منصورپوری نے اپنے خطاب میں کہا حضرت والد صاحب ؒ کی زندگی کی چار نمایاں خوبیاں تھیں (۱) تربیت و رجال سازی (2) تدریس میں انہماک و امتیاز (3) ایمانی غیرت، علمی رسوخ اور بہادری کے ساتھ فرقہ باطلہ کا مقابلہ (4) اصول پسندی۔ انھوں نے الجمعیۃ کے خاص نمبر کی اشاعت پر ذمہ دا ران جمعیۃ کا شکریہ بھی ادا کیا۔ امیر شریعت اترپردیش مولانا عبدالعلیم فاروقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مولانا ممدوح میں دین وشریعت کی حمایت و نصرت کے جذبات بدرجہ اتم موجود تھے۔انھوں نے تحفظ ختم نبوت کے کام کو دن رات کا اوڑھنا بچھونا بنایا تھا، پورے ملک میں قادیانیوں کے حربوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنا، برموقع ان کی گرفت کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا، اس محاذ پر ان کی نمایاں و ممتاز خدمات فراموش نہیں کی جاسکتیں۔

پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ مولانا مرحوم کی شخصیت علم و حلم کی پیکر تھی، انھو ں نے کہا کہ جو قوم اپنے محسن و مربی کو یاد رکھتی ہے، اسے مستقبل میں کامیابی ملتی ہے۔مولانا رحمت اللہ کشمیری رکن شوری دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ آپ کی ذات انتہائی منکسرالمزاج اور اصول پسندی کاحسین امتزاج تھی۔مولانا سید اشہد رشیدی مہتمم جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد نے کہا کہ ان کی زندگیوں کی بہت ساری خوبیوں میں ایک اہم خوبی صلہ رحمی تھی۔مولانا حکیم الدین قاسمی جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند نے اپنے کلمات افتتاحیہ میں کہا کہ 2008ء میں آپ کو جمعیۃ علماء ہند کاصدر منتخب کیاگیا، آپ جمعیۃ علماء ہندکے آٹھویں صدر تھے، آپ کل 31سال 2ماہ 15دن جمعیۃ علماء ہند کے صدر رہے۔ہم نے حضرت قاری صاحبؒ کو ہمیشہ اصول پسند، دوربیں اور امت کے مسئلہ میں فکر مند پایا۔ان کی زندگی کا سب سے اہم درس یہ ہے کہ جماعت اور ملت کا مفاد، ذات سے اوپرہے، ان کی یہ تعلیم اور طریقہ کار کسی بھی جماعت کے وجود اور بقا کے لیے نہایت اہم ہے اور اسی سے لوگوں میں قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

ان مذکورہ شخصیات کے علاوہ مولانا بدرالدین اجمل صدر جمعیۃ علماء آسام،ڈاکٹر سید محمد فاروق دہلی، مولانا نیاز احمد فاروقی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند،مولانا محمد سلمان بجنوری دارالعلوم دیوبند، مولانا مفتی خورشید انور گیاوی ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند، مولانا محمد راشد گورکھپوری،مولانا شمشاد رحمانی نائب امیر شریعت بہار وجھارکھنڈو اڈیشہ،مولانا قاری شوکت علی ویٹ، مولانا شاہ عالم دارالعلوم دیوبند،مولانا منیرالدین دارالعلوم دیوبند، مولانا مفتی عبداللہ معروفی دارالعلوم دیوبند، مولانا عبدالحمید نعمانی، مولانا شمیم احمد امیر شریعت دہلی، مولانا مفتی ذکاوت حسین نائب امیر شریعت دہلی نے بھی خطاب کیا، نظامت کے فرائض مفتی سید محمد عفان منصورپوری نے انجام دیے۔انھوں نے خصوصی نمبر کی تدوین کے لیے مولانا محمد سالم جامعی ایڈیٹر ہفت روزہ الجمعیۃ اور معاون مدون ڈاکٹر عبدالملک رسو ل پوری کو مبار ک باد دی۔ان کے علاوہ مولانا صدیق اللہ چودھری صدر جمعیۃ علماء مغربی بنگال، مولانا سید محمد نعیم، خاں جہاں پوری،مولانا محمد سالم مرادآباد، سعود احمد ایڈوکیٹ،مولانا سید محمدسلیم منصورپور، سید محمد رافع مظفرنگر، مولانا یحیی کریمی میوات سمیت بڑی تعداد میں علمائے کرام و دانشوران موجود تھے