کانوڑیاتریوں کے لئے اسماعیل اور راشد کا زمین کا تحفہ

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 13-07-2022
کانوڑیاتریوں کے لئے اسماعیل اور راشد کا زمین کا تحفہ
کانوڑیاتریوں کے لئے اسماعیل اور راشد کا زمین کا تحفہ

 

 

بریلی: کسی ایک طبقے کو پریشانی ہوتو دوسرے طبقے کو تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ ایسا صرف ہندوستان میں ہوتا ہے۔ ایسی ہی انسانیت اور ہم آہنگی کی مثال بریلی ضلع کے ایک گائوں کے رہنے والے اسماعیل اور راشد نے پیش کی۔ انھیں یہ گوارہ نہیں ہوا کہ کانوریاترا لے کر جانے والے راہ گیروں کو پریشانی ہو لہٰذا انھوں نے ایک ایسا راستہ نکالا کہ مستقبل میں کسی مسافر کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

بہرحال دوسروں کے لیے یہ زمین کا ایک ٹکڑا ہو سکتا ہے، لیکن شکارپور چوہدری والوں کے لیے یہ ہم آہنگی کی سرزمین ہے۔ اس زمین پر بننے والی سڑک سے شیو بھکتوں کے جتھے ’بم بم بھولے‘ کے نعرے لگاتے ہوئے گزریں گے۔

پچھلے دنوں اسماعیل اور راشد خان نے اپنے کھیت کا کچھ حصہ عطیہ کرتے ہوئے کہا کہ اس پر پکی سڑک بنا دی جائے۔ اس سے کانوڑیوں کو پریشانی نہیں ہوگی اور باقی سال بھر گاؤں والوں کو بھی نقل و حرکت کا راستہ مل جائے گا۔

جب گاؤں کے کچھ لوگوں نے زمین کے بدلے پیسے دینے کی پیشکش کی تو اسماعیل اور راشد نے پیسے لینے سے انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس سب کچھ ہے۔۔وہ پیسے کیوں لیں۔۔۔اس گاؤں میں سب کچھ ہے۔ گائوں والے خوش رہیں اس سے بڑھ کوئی دولت نہیں۔ 2500 آبادی والا شکار پور چوہدری گاؤں مسلم اکثریتی ہے۔

گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ ہندوؤں کی آبادی اس کا تقریباً 20 فیصد ہے۔ ماضی میں کشیدگی تھی اس لیے انتظامیہ کے اہلکاروں کی نظریں اس گاؤں پر ہی رہتی ہیں۔ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے کانوڑیوں کے جتھے کھیتوں سے گزرتے تھے۔

برسوں یونہی چلتا رہا لیکن سال 2019 میں کچھ لوگوں نے اعتراض کیا۔ دونوں فرقوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ معاملہ تھانے پہنچا تو اس وقت حل ہو گیا لیکن مستقل حل نہ نکل سکا۔ دو سال تک کورونا کی تباہی کی وجہ سے کانوڑوالے بھی باہر نہ آئے،تو انتظامیہ کی توجہ بھی اس طرف نہیں گئی۔

اس بار جب حالات معمول پر آگئے، کنور یاترا کی تیاریاں شروع ہوگئیں، تو پرانا جھگڑا عہدیداروں تک پہنچ گیا۔ انسپکٹر سنجے کمار سے رپورٹ طلب کی گئی۔

انھوں نے حالات کی جانکاری دی۔ان کی اطلاع پر انتظامیہ نے ٹیم کو گاؤں روانہ کیا۔ منگل کو اے ڈی ایم سٹی ڈاکٹر آر ڈی پانڈے اور ایس پی ٹریفک رام موہن سنگھ نے دونوں پارٹیوں سے بات کی۔

پولس عہدیداروں نے گاؤں والوں کو حل نکالنے کو کہا.انھوں نے کہا کہ یہ گاؤں، آپ سبھوں کا ہے اور آپ سبھوں کو یہاں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ہے۔ ایسا حل خود تلاش کرنے کی کوشش کریں، جو سب کے لیے فائدہ مند ااور قابل قبول ہو۔ تقریباً تین گھنٹے تک خوشگوار ماحول میں گفتگو جاری رہی۔

اس دوران اسماعیل اور راشد خان نے کہا کہ ہمارے کھیت راستے کی طرف آتے ہیں۔ بتاؤ پکی سڑک کے لیے کتنی زمین دینی پڑے گی؟ افسر تیار ہو کر آئے تھے، فوراً بتایا، چھ فٹ چوڑی اور 62 میٹر لمبی سڑک بنوانی ہے۔

اسماعیل اور راشد نے جواب دیا کہ، ہم دونوں کے کھیتوں سے یہ راستہ لے لو۔ کانواڑ والے یہاں سے گزرتے ہیں اور دوسرے گاؤں والے بھی۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔

جب زمین کے بدلے پیسے دینے کی بات آئی تو انھوں نے کہا، اتنے لوگ جمع ہوئے ہیں، اس لیے وہ سودا نہیں کر سکتے، یہ زمین عطیہ کر دیں گے۔ شکارپورچودھری گاؤں میونسپل کارپوریشن کی حدود میں آتا ہے۔ مین روڈ سے تقریباً ایک کلومیٹر دور تک کچی سڑک پر چلنا پڑتا ہے۔

اس کے بعد ایک پگڈنڈی رہ جاتی ہے۔ موٹرسائیکل سوار گائوں تک پہنچ جاتے ہیں لیکن کار سواروں کو پہلے یہاں رکنا پڑتاہے۔ اب پکی سڑک بننے کے بعد پگڈنڈی کا حصہ ختم ہو جائے گا اور مسافروں کو آسانی ہوگی۔