نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے روس کے صدر ولادیمیر پوتن کو بھگوت گیتا کا روسی ترجمہ پیش کیا ہے۔ پوتن دو روزہ دورے پر بھارت پہنچے ہیں۔
ایکس پر جاری ایک پوسٹ میں وزیر اعظم مودی نے اس لمحے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ مقدس کتاب دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں کے لئے روحانی حوصلے کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے لکھا کہ انہوں نے صدر پوتن کو گیتا کا روسی نسخہ پیش کیا اور اس کی تعلیمات دنیا بھر میں لوگوں کے لئے تحریک کا سبب بنتی رہی ہیں۔
اس سے قبل وزیر اعظم مودی نے جمعرات کی شام پالیم ایئرپورٹ پر روسی صدر کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ دونوں رہنماؤں نے ایئرپورٹ سے وزیر اعظم کی رہائش گاہ لوک کلیان مارگ تک ایک ہی گاڑی میں سفر بھی کیا جس سے دونوں ممالک کے اسٹریٹجک تعلقات اور دونوں لیڈروں کے درمیان قریبی رشتے کا اندازہ ہوتا ہے۔
پوتن تقریباً چار برس بعد بھارت کے دورے پر آئے ہیں اور وہ 5 دسمبر تک نئی دہلی میں موجود رہیں گے۔ اپنے قیام کے دوران وہ وزیر اعظم مودی کے ساتھ 23ویں بھارت۔روس سالانہ سربراہ اجلاس میں بھی شرکت کریں گے۔
ماہرین کے مطابق پوتن کا یہ دورہ دفاع، تجارت، سائنس و ٹیکنالوجی، ثقافت اور انسانیت کے شعبوں میں تعاون کو مزید آگے بڑھانے کا سبب بنے گا۔
سابق سفارتکار ارون سنگھ نے اے این آئی سے بات کرتے ہوئے بھارت۔روس شراکت داری کی اہمیت بیان کی اور بتایا کہ برسوں سے ماسکو نے سیاسی اور دفاعی میدان میں نئی دہلی کا ساتھ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک اہم دورہ ہے۔ انہیں ماسکو میں مختلف ادوار میں کام کرنے کا موقع ملا اور انہوں نے اس تعلق کی تاریخی نوعیت کو قریب سے محسوس کیا۔ ان کے مطابق دونوں جانب اس رشتے پر اعتماد موجود ہے اور بھارت میں یہ یاد آج بھی تازہ ہے کہ روس نے ہمیشہ ضرورت کے وقت سیاسی مدد فراہم کی ہے، خاص طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ آپریشن سندور کے دوران پاکستان اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں دہشت گرد ٹھکانوں کے خلاف کارروائی میں روسی دفاعی ساز و سامان نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کے مطابق ایس۔400 اور برہموس میزائل جیسے نظام روس کے تعاون کی علامت ہیں۔
ماسکو اسکول آف مینیجمنٹ میں انڈیا اسٹڈیز کی سربراہ لیدیا کولک نے اس دورے کو علامتی اور اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک تجارت اور معیشت کے میدان میں اپنے مستقبل کو مثبت نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت ترجیح یہ ہے کہ بھارتی برآمد کنندگان کے لئے روسی منڈی کو مزید کھولا جائے۔ تجارت اور معیشت کے علاوہ سیاسی مذاکرات، دفاعی معاہدوں اور عالمی حالات پر تبادلہ خیال بھی اس دورے کا حصہ رہے گا۔