پریاگ راج: سنبھل میں واقع جامع مسجد اور ہریہَر مندر کے تنازع سے متعلق معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ نے منگل کے روز اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ جسٹس روہت رنجن اگروال نے مسجد کمیٹی کے وکیلوں، مندر فریق سے ہری شنکر جین، اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کے وکیل کی دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
اس سے قبل 5 مئی کو اے ایس آئی کے وکیل نے اپنا جوابی حلف نامہ داخل کیا تھا، جس پر عدالت نے مسجد کمیٹی کے وکیل کو "ریجوائنڈر" داخل کرنے کے لیے وقت دیا تھا اور سماعت کی اگلی تاریخ 13 مئی مقرر کی تھی۔ مسجد کمیٹی نے سنبھل کی عدالت کے اس حکم کو چیلنج کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ میں نظرِ ثانی کی درخواست دائر کی ہے، جس میں عدالت نے ایڈووکیٹ کمشنر کے ذریعے مسجد کا آثار قدیمہ سروے کرانے کا حکم دیا تھا۔
اس سے پہلے، الہ آباد ہائی کورٹ نے سنبھل کی ضلعی عدالت میں زیرِ التوا اصل مقدمے کی سماعت پر آئندہ تاریخ تک کے لیے روک لگا دی تھی۔ اصل مقدمے میں ہندو فریق نے دعویٰ کیا ہے کہ سنبھل کے محلہ کوٹ مشرقی میں واقع شری ہرہَر مندر (جسے جامع مسجد کہا جا رہا ہے) میں داخل ہونے کا انہیں حق حاصل ہے۔
نظرثانی کی اس درخواست میں دلیل دی گئی ہے کہ متعلقہ مقدمہ 19 نومبر 2024 کو دوپہر میں دائر کیا گیا، اور چند گھنٹوں میں ہی جج نے ایک ایڈووکیٹ کمشنر کی تقرری کر کے اسے مسجد کا ابتدائی سروے کرنے کا حکم دے دیا۔ یہ سروے اسی دن اور 24 نومبر 2024 کو کیا گیا، اور عدالت نے 29 نومبر تک رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
قابلِ ذکر ہے کہ ایڈووکیٹ ہری شنکر جین اور دیگر سات افراد نے سنبھل کی سول جج (سینئر ڈویژن) کی عدالت میں ایک مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں ان کا دعویٰ ہے کہ مبینہ شاہی عیدگاہ مسجد کی تعمیر ایک مندر کو منہدم کرکے کی گئی تھی۔