گوپی چند نارنگ اردو پر اللہ کا احسا ن تھے۔: پروفیسر خالد محمود

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 16-06-2022
گوپی چند نارنگ اردو پر اللہ کا احسا ن تھے۔: پروفیسر خالد محمود
گوپی چند نارنگ اردو پر اللہ کا احسا ن تھے۔: پروفیسر خالد محمود

 

 

منصور الدین فریدی : نئی دہلی 

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شبعہ اردو کے سابق ہیڈ پروفیسر خالد محمود نے گوپی چند نارنگ کی موت کو اردو دنیا کے لیے ایک بڑا اور ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ  نارنگ صاحب کی موت نے اردو دنیا میں سنا ٹا کردیا ہے ایک شگفتہ ،شاداب  اور محرک عہد کا خاتمہ ہوگیا ۔

یاد رہے کہ کل رات کو ممتاز نقاد اور اردو داں پروفیسر گوپی چند نارنگ  کا امریکہ میں انتقال ہوگیا ہے۔ وہ ہندوستان میں اردو کا فخر مانے جاتے تھے جو نہ صرف جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اردو کے ہیڈ رہے تھے بلکہ ساہتہ اکاڈمی کے صددر بھی رہے تھے۔

 پروفیسر گوپی چند نارنگ کی موت نے اردو دنیا میں زبردست خلا پیدا کردیا ہے۔ اس بڑے نقصان پر پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ ایک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے

مزید پڑھیں : ممتاز دانشور اور اردو داں  گوپی چند نارنگ چل بسے 

 وہ اتنی بڑی شخصیت تھےکہ  اردو دنیا کا ہر فرد افسردہ ہے کیونکہ نارنگ صاحب نے اردو سے محبت نہیں عشق کیا تھا۔ان کا ہر پل اردو کے لیے تھا۔یہ زندگی بھر کا عشق تھا۔جس میں انہوں نے ہمیشہ اردو کا سر بلند رکھا۔اردو کا فخر بنے اور اردو کو اتنا دیا جس کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔

پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ  آج ہر زبان کو ایک نارنگ کی ضرورت ہے ،جس زبان میں نارنگ ہو ،اس کا سر کبھی نہیں جھک سکتا۔انہوں نے نہ صرف اردو سے عشق کیا بلکہ اردو کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں ۔اس کو نئی بلندی دی اور زبان کی حیثیت کا لوہا منوایا۔

پروفیسر خالد محمود نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اردو کی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک واقعہ مجھے یادہے کہ جب ایک روم میں دیوار پر کلینڈر لٹکانے کے لیے کیل ٹھونکنے کے لیے ایک ملازم آیا تو پروفیسر نارنگ صاحب اس کے ساتھ کھڑے رہے۔پہلے منا سب جگہ کا انتخاب کیا اور پھر اس سے کہا کہ کیل اس طرح ٹھونکنا کہ پلاسٹر نہ خراب ہو۔ میں ان کے چہرے پر ایسی فکر دیکھی گویا کیل اردو ڈیپارٹمنٹ کی دیوار پر نہیں بلکہ ان کے جسم ھر ٹھونکی جارہی ہو۔

پروفیسر خالد محمود نے مزید کہا کہ نارنگ صاحب اردو زبان پر اللہ کا احسان تھے۔ایسے لوگ بار بار نہیں پیدا ہوتے۔ان کی جدائی ناقابل تلافی ہے۔ اس سے قبل پروفیسر شمس الرحمان فاروقی کے انتقال نے اردو کو ایک بڑا نقصان پہنچایا تھا ،اب نارنگ صاحب کی موت نے مزید توڑ کر رکھ دیا ہے۔

پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ وہ گنگا جمنی تہذیب کی علامت تھے۔جن پر اردو والے جتنا فخر کریں کم ہے۔انہوں نے کہا کہ حال ہی میں غالب انسی ٹیوٹ میں  ایک پروگرام ہوا تھا تو اس میں نارنگ صاحو امریکہ سے آن لائن رہے تھے۔ انہوں نے تقریبا ڈیڑھ گھنٹے تک اپنی زندگی کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی تھی۔ ہمیں ان کو دیکھ اور سن کر بہت خوشی ہوئی تھی ۔ہمیں نہیں لگاتھا کہ انہیں اتنی جلدی کھو دیں گے۔ان کے اعتماد اور قابلیت کا کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔

پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ نارنگ صاحب اردو کی شان تھے،انہوں نے عشق اردو میں اپنی زندگی گزاری اور آخری سانس تک اردو کی خدمت کی۔ میں انہیں ایک ناقابل فراموش شخصیت مانتا ہوں ۔جنہوں نے ہر پل اور ہر قدم پر اردو کو کچھ نہ کچھ دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ  دنیا میں جہاں اردو ہے وہاں نارنگ ہے۔نارنگ صاحب نے اردو  کو دنیا کے کونے کونے میں روشناس کرایا ہے۔