اردو کے ممتاز نقاد و دانشور گوپی چند نارنگ چل بسے

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 16-06-2022
اردو کے نامور نقاد و دانشور گوپی چند نارنگ  چل بسے
اردو کے نامور نقاد و دانشور گوپی چند نارنگ چل بسے

 

 

نئی دہلی : اردو کے ممتاز دانشور اور ساہتیہ اکادمی کے سابق صدر پروفیسر گوپی چند نارنگ بدھ کو امریکہ میں انتقال کر گئے۔ 91 سالہ نوجوان اپنے بیٹے ڈاکٹر ترون نارنگ کے ساتھ شارلٹ، نارتھ کیرولینا میں مقیم تھے۔ اپنے ادراک کے تجزیے، علمی سختی اور نظریاتی بنیادوں کے ذریعے، پروفیسر نارنگ نے ادبی تنقید کو اردو ادب میں علم کی ایک مکمل شاخ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

معروف ادیب، اسکالر گوبی چند نارنگ کو ہندوستان میں پدم بھوشن ایوارڈ دیا گیا تھا جبکہ ان کا تعلق پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ  سرحد کے اس پار بھی بہت مقبول تھے-بلوچستان ان کے دل میں تھا، بلوچستان سے محبت ان کے مکالموں میں ہمیشہ نظر آتی تھی

گوپی چند نارنگ کو اردو کے سفیر کے طور پر جانا جاتا تھا۔ انہیں پاکستان میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا تھا،انہوں نے ادب،شاعری،تنقید اور ثقافتی علوم پر 60سےزائد کتب تصنیف کیں،پروفیسر گوپی چند نارنگ کو عہد حاضر کا صف اول کا اردو نقاد اور محقق مانا جاتا تھا

تقریباً 60 کتابوں کے نامور مصنف، پروفیسر نارنگ کی بنیادی تصنیف اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب کو اردو غزل کی ابتداء کی جڑوں کا جائزہ لینے اور ان کا سراغ لگانے کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ نارنگ نے کبھی بھی غزل کو محض محبت کی نظم کے طور پر نہیں دیکھا۔ اس نے اس کی فلسفیانہ پیچیدگی کا کھوج لگایا اور برقرار رکھا

ہند ۔ پاک میں یکساں مقبولیت اور احترام

وہ دنیا کے کونے کونے میں اردو کے پروگرامز میں شرکت کرتے تھے ۔اسے لیے انہیں اردو کا سفیر کہا جاتا تھا۔

وہ قیامِ پاکستان سے قبل پاکستان کے صوبے بلوچستان کے شہر دکی میں پیدا ہوئے۔ پروفیسر نارنگ کو اردو ادب سے محبت اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی۔ انھوں نے اپنے تدریسی کیریئر کا آغاز سینٹ سٹیفن کالج سے کیا۔ پروفیسر نارنگ نے دہلی یونیورسٹی، یونیورسٹی آف وسکونسن، یونیورسٹی آف مینیسوٹا اور اوسلو یونیورسٹی میں پڑھایا۔

awaz

 

یہ بھی قابل غور ہے کہ وہ اردو کے پہلے  دانشور تھے جنھیں ان کے خدمات کے اعتراف میں ہندوستان کا اعلیٰ اعزاز پدم بھوشن اور پاکستان کا اعلیٰ سرکاری اعزاز ستارہ امتیاز دیا گیا۔

ایک انجمن تھے۔

گوپی چند نارنگ  نے اردو کی 400 سالہ فکری اور تہذیبی تاریخ کو اپنی تحقیق اور تنقید کا موضوع بنایا۔

پروفیسر گوپی چند نارنگ چونسٹھ کتابوں کے مصنف تھےان کتابوں میں پینسالیس اردو میں، بارہ انگریزی میں اور سات ہندی میں لکھی گئی ہیں۔

پروفیسرنارنگ کی بنیادی تصنیف ’اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب‘ کو اردو غزل کی ابتدا کا سراغ لگانے کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔

ان کی تخلیقات ’ہندوستانی قصوں سے ماخوز اردو مثنویاں‘ اور ’ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری‘ نے نہ صرف اردو نثر اور شاعری کی باریکیوں کو بلکہ سماجی و ثقافتی سیاق و سباق کو بھی سمجھنے میں ایک نئی راہ دکھائی۔ پروفیسر نارنگ نے اپنی پوری زندگی اردو کو راسخ العقیدہ اور فرقہ واریت کی قید سے نکالنے کے لیے وقف کر دی۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ’زبان ایڈجسٹ کر لے گی اور زندہ رہے گی، دریا کی طرح جو اپنے کنارے بدلتا رہتا ہے۔

یاد دلا دیں کہ پروفیسر نارنگ نے تو اردو ادب پر کتابیں لکھیں ہی خود ان پر اور ان کی ادبی خدمات پر بھی کئی ادیبوں نے کتابیں تصنیف کی ہیں۔

بچپن اور تیلیم

پروفیسر گوپی چند نارنگ نے بچپن کوئٹہ میں گزارا۔ انہوں نے سنہ 1954ء میں یونیورسٹی آف دہلی سے اردو میں ایم اے اور اسی جامعہ سے سنہ 1958ء میں لسانیات میں پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ گوپی چند نارنگ نے سنہ 1957ء میں سینٹ اسٹیفینس کالج، دہلی میں لیکچرر کے طور پہ پڑھانا شروع کیا اور 1995ء تک دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پہ تدریس سے وابستہ رہے۔ وہ آج بھی دہلی یونیورسٹی کے اعزازی پروفیسر، پروفیسر ای میریٹس، ہیں۔