اردو شاعری میں گائتری منتر

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 04-11-2021
تمثیلی تصویر
تمثیلی تصویر

 



 

غوث سیوانی۔نئی دہلی

اردو کا جنم ہی مختلف تہذیبوں اور زبانوں کے ملاپ سے ہوا ہے، لہٰذایہاں سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا کہ ایک کثیر جہاتی معاشرے میں جنم لینے والی زبان میں ہوسکتا ہے۔ اگر آپ کو کہیں قرآن کی فضیلت پر نظمیں ملتی ہیں تو دوسری طرف آپ کو وید،پران اور گیتا کی عظمت پر بھی نظمیں مل جائینگی۔ جس طرح غیرمسلم شعراءنے بارگاہ رسالت میں نعتوں کا نذرانہ پیش کیا، اسی طرح مسلمان شعراءنے بھی ہندو اساطیری عناصر کو اپنے کلام کا حصہ بنایا اور ان شخصیات کوخراج د ادوتحسین پیش کیاجن کا احترام ہندو روایات میں ملتا ہے۔

اردو کی یہی خوبی اسے مذہب ومشرب سے بلند کرتی ہے۔ گائتری منتر کو اردو کے بہت سے شاعروں نے اس کی اہمیت کے پیش نظر نظم کیا ہے۔ گایتری منتر،ویدوں کا ایک اہم منتر ہے جس کی اہمیت تقریبا ’اوم‘ کے برابر مانی جاتی ہے۔ یہ یجروید اور رگ وید کی دوآیات کے میل سے بنا ہے۔ اس منتر میں سوتر دیو (خدائے واحد)سے دعا ہے، اس لئے اسے ساویتری بھی کہا جاتا ہے۔’گایتری‘ ایک چھند بھی ہے جو رگ وید کے سات مشہور چھندوں میں ایک ہے۔

ایسا مانا جاتا ہے کہ اس منتر کے تلفظ اور اسے سمجھنے سے خدا کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔اس کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی جاتی ہے اور اس کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ اس میں توحید کا بیان ہے۔ ویدانت کے علماءمانتے ہیں کہ وید میں توحید کا بیان ہے اور خد کو ایک مانا گیا ہے۔ گائتری منتر میں یہ بیان زیادہ واضح انداز میں ملتا ہے۔ گائتری منتر ہندووں کی مذہبی اساس مانا جاتا ہے جس میں خدا کی تعریف وتوصیف کے بعد اس سے یہ التجا کی جاتی ہے کہ وہ صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائے۔

اس میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ وہ حق کے آفتاب کی روشنی دل ودماغ تک پہنچائے تاکہ صحیح راستے کو انسان پہچان کرسکے۔ اس کا مفہوم قرآن کے سورہ فاتحہ کے مضمون کے قریب ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جس طرح کے دعائیہ الفاظ سورہ فاتحہ میں ہیں، اس سے ملتے جلتے الفاظ گائتری منتر میں بھی ہیں۔ حالانکہ مختلف شاعروں نے اسے اپنے اپنے کلام میں الگ الگ طریقے سے نظم کیا ہے مگر مفہوم قریب تر ہے۔منتر کا ترجمہ اس طرح ہے:

”شہ رگ سے بھی قریب رہنے والے، دکھوں کو دور کرنے والے اور سکھ فراہم کرنے والے، سب سے اعلیٰ وارفع خداکو ہم اپنے دل ودماغ میں بسائیں، وہ ہمارے عقل وشعور کی صراط مستقیم کی جانب رہنمائی کرے۔“

اردو کے سب سے معروف شاعروں میں سے ایک علامہ اقبال نے بھی گائتری منتر کو نظم کیا ہے جس کا عنوان ہے ”آفتاب“۔اقبال عموماً اسلام کی عظمت اور آفاقیت کو اپنی شاعری میں پیش کرتے ہیں مگر وہ تنگ نظر نہیں تھے لہٰذا انھیں دوسرے مذاہب کی جو باتیں پسند آئیں انھیں بھی انھوں نے اپنی شاعری میں جگہ دی۔ اقبال کی نظم ہے:

آفتاب

اے آفتاب!روح و روانِ جہاں ہے تو

شیرازہ بندِ دفترِ کون ومکاں ہے تو

باعث ہے تو وجود و عدم کی نمود کا

ہے سبز تیرے دم سے چمن ہست وبود کا

قائم یہ عنصروں کا تماشا تجھی سے ہے

ہر شے میں زندگی کا تقاضہ تجھی سے ہے

ہر شے کو تیری جلوہ گری سے ثبات ہے

تیرا یہ سوز و سازسراپا حیات ہے

وہ آفتاب جس سے زمانے میں نور ہے

دل ہے ،خرد ہے، روحِ رواں ہے، شعور ہے

اے آفتاب ہم کو ضیائے شعور دے

چشمِ خرد کو اپنی تجلی سے نور دے

ہے محفلِ وجود کا ساماں طراز تو

یزدانِ ساکنانِ نشیب وفراز تو

تیرا کمال ہستی ہر جاندار میں

تیری نمود سلسلہ کوہسار میں

ہر چیز کی حیات کا پروردگار تو

زائیدگانِ نور کا ہے تاجدار تو

نے ابتدا تری نہ کوئی انتہا تری

آزادِ قید اول وآخر ضیا تری

گائتری منتر

گائتری منتر چونکہ ہندو عوام میں بے حد مشہور ہے اور اہل علم اس کی فضیلت بیان کرتے ہیں لہٰذا بہت سے شاعروں نے اسے نظم کیا ہے۔یہاں تک کہ اسے فلموں میں بھی انتہائی خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔ گائتری منتر کے مفہوم کو نظم کرنے والے اقبال تنہا نہیں ہیں بلکہ دوسرے شاعروں نے بھی اسے اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ انھیں میں ایک بالمکند عرش ملسیانی بھی ہیں۔ عرش اردو کے معروف شاعر ہیں۔ انھوں نے بڑی تعداد میں نظمیں کہی ہیں جو مختلف موضوعات پر ہیں۔ یہاں ہم عرش کے ذریعے نظم کردہ گائتری منتر کو آپ کی نذر کررہے ہیں:

اوم جس کاسب سے پیارا نام ہے

روحِ عالم قاطعِ آلام ہے

جو چلاتا ہے نظام کائنات

مایہ رحمت ہے جس کی نیک ذات

بخشتا ہے جو ہمیں مال ومنال

روح کو دیتا ہے جو نورِ جمال

ہے سزاوارِ پرستش جس کی ذات

پاک ہے سب سے جو ہے والا صفات

دل میں ہو اس کا تصور ہر گھڑی

یاد میں اس کی بسر ہو زندگی

تاکہ بخشے عقل کو ایسی جلا

ہر عمل میں ہو صداقت کی ضیا

چھوڑ دیں اعمال بد کو چھوڑ دیں

نیکیوں سے اپنا رشتہ جوڑ لیں

شاعروں کے ایک طبقے نے تو گائتری منتر کا ترجمہ کیا ہے مگر دوسرا طبقہ وہ ہے جس نے اس کے مفہوم کو علامتی اور استعاراتی طور پر پیش کیاہے۔ گائتری منتر میں سورج کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔یہ حیثیت بھی استعاراتی ہے کیونکہ قدیم گرنتھوں میں سورج کو برہماکی علامت ماناگیا ہے۔ظاہر ہے کہ شعراءکی ایک بڑی تعداد نے اسے اپنی شاعری میں اسی علامت کے روپ میں پیش کیا ہے۔ مثلاً شہاب جعفری کی ایک نظم ”ذرے کی موت“کا ایک شعر ہے:

اپنے سورج سے بچھڑا ہواتارہ ہوں

اپنی فطرت سے بکھرا ہواپارہ ہوں

اس شعر میں سورج ایک علامت ہے کیونکہ اسے نظام شمسی میں مرکزیت حاصل ہے اورباقی تمام ستارے اور سیارے فروع ہیں۔قدیم خیالات میں بھی اصل برہماہیں،باقی فروع ہیں۔اس قسم کے شعر اردو شاعری میں بڑی تعداد میں مل جائیں گے،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو شاعروں نے گائتری منترسے کس طرح تشبیہات کو مستعارلیا ہے۔ سورج کو روشنی کی علامت بھی ماناجاتا ہے جبکہ اس کے غائب ہونے کو ظلمت کا نشان مانا جاتا ہے۔برہمایا خدائے مطلق بھی روشنی کا استعارہ ہی ہے۔ اللہ کے صفاتی ناموں میں ایک ”نور“ بھی ہے۔ سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤنگا میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤنگا