پھولوں کی کھیتی: کسانوں کی زندگیاں گلزار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 04-03-2021
پھولوں کی مہک
پھولوں کی مہک

 


۔ قنوج کے عطرکارخانوں میں کہاں سے آتے ہیں پھول؟

۔ پھول کی کاشت سے بدل رہی ہے کسانوں کی زندگی ۔ یوپی کے پھولوں کی مہک کیسے پہنچ رہی ہے یوروپ تک؟

۔ سکندرپورکی پھول انڈسٹری کو چاہئے سرکار کی توجہ

غوث سیوانی،نئی دہلی

”پھول تمہیں بھیجا ہے خط میں پھول نہیں میرادل ہے پیتم میرے اتنا لکھنا کیا یہ تمہارے قابل ہے“ یہ مشہور گیت آپ نے ضرور سنا ہوگا۔اصل میں پھولوں سے ہماری زندگی کا بہت اہم رشتہ ہے۔ یہ پھول، محبت ہی نہیں غم کا مظہر بھی ہیں اور عقیدت کا اظہار بھی پھولوں سے ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ پھول صرف محبوب کوہی نہیں پیش کرتے ہیں بلکہ ارتھی پر بھی چڑھائے جاتے ہیں اور پوجاکی تھال میں بھی رکھے جاتے ہیں۔حالانکہ یہی پھول ان دنوں بہت سے خاندانوں کے لئے آمدنی اور خوشحالی کا ذریعہ بھی بن گئے ہیں۔اترپردیش کے مختلف اضلاع میں پھولوں کی کھیتی ہوتی ہے اور یہ پھول شہروں کے بازاروں تک ہی محدود نہیں رہتے ہیں بلکہ عطر،عرق گلاب،گل قند،اگربتیاں بنانے والے کارخانوں تک پہنچتے ہیں اور ان کے پروڈکٹ کی مانگ ساری دنیا کے بازاروں میں ہے۔ اگر پھولوں کی کھیتیاں نہ ہوں تو قنوج کے عطر کی مہک مشرق وسطیٰ سے یوروپ وامریکہ تک نہ پہنچے۔

پھولوں سے خوشحالی

اترپردیش میں پھولوں کی کھیتی بڑے پیمانے پر ہورہی ہے اور کسانوں کی زندگیوں میں بھی بڑے بدلاؤ آرہے ہیں۔گونڈہ ضلع کے وزیرگنج میں گیندے کے پھولوں کی کھیتی کرنے والی ظاہرالنساء کے مطابق وہ 3 بیگھہ زمین پر گیندے کی کاشت کرتی ہیں۔ ایک بیگھہ میں کھیتی کی لاگت 10 ہزارروپئے کے قریب ہے۔ اس میں جتائی،بوائی کھاد اور آبپاشی کی لاگت شامل ہے۔ وہ اس کے بیج لکھنؤ سے لاتی ہیں۔ ایک بیگھہ میں تقریبا 25 ہزارروپئے کا منافع ہوتا ہے۔ ان کے شوہر بھی پھول کی کاشت میں مدد کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ گیندے کی فصل ڈھائی سے تین ماہ میں تیارہوجاتی ہے۔تہواروں اور شادیوں کے موسم میں پھولوں کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔ تب ہمیں اچھی قیمت مل جاتی ہے۔انھوں نے بتایا کہ یوں تو پھولوں کی مانگ سال بھر رہتی ہے مگر تہواروں اور تقریبات میں مانگ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔انھوں نے کہا کہ پہلے دوسری فصلیں اگاتی تھیں مگر اس کے بعد، آہستہ آہستہ پھولوں کی کاشت شروع کردی۔ اس سے آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

پھولوں نے مہکائی زندگی

وزیرگنج کی نورجہاں بھی پھولوں کی کاشت کار ہیں۔ وہ گیندے اور گلاب دونوں کی کاشت کرتی ہیں۔ انھوں نے دوسروں سے 22 بیگھہ کھیت کرایہ پر لے رکھا ہے۔ پہلے وہ دوسروں کے کھیتوں میں مزدور کی حیثیت سے کام کرتی تھیں لیکن اب خود کاشت کرنا شروع کردیا ہے۔ انہوں نے کہا، میں آدھی زمین میں گلاب کی کاشت کرتی ہوں اور آدھی میں گیندے کی۔ ان کے مطابق گلاب کا ایک پودا دو سال تک پھول دیتا ہے۔ یہ پودا لگنے کے چار ماہ بعد پھول دینا شروع کردیتا ہے۔

ان کے مطابق ان کے کھیتوں میں ہر روز 30 سے 40 کلو گرام پھول آتے ہیں، جو تقریبا تین یا چار ہزار روپے میں فروخت ہوتے ہیں۔اس میں کھاد، پانی، جتائی، بوائی پر دس سے بارہ ہزار روپے کی لاگت آتی ہے۔ منافع بھی ٹھیک ٹھاک ہوجاتا ہے۔ نورجہاں کا کہنا ہے کہ اس کھیتی کے سبب، اب ان کے بچے اچھے اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔پھولوں کی زراعت ان کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بن گئی ہے۔ سخت محنت سے انھوں نے نہ صرف اپنی مالی حیثیت کو مضبوط کیا ہے، بلکہ ایک پختہ گھر بھی بنایاہے۔

پھول ہی پھول زندگی میں

آگرہ کے فتح آباد روڈ پر واقع تورا گاؤں میں بیلا کے پھولوں کی سب سے زیادہ کاشت کی جاتی ہے۔ گاؤں کے ایک کسان، جتیندر کا کہنا ہے کہ یہ کھیتی اپریل سے ہوتی ہے اور جولائی تک چلتی ہے۔ اس کی مدت صرف چار ماہ ہے۔ وہ ہر سال اس کھیتی سے پانچ سے سات لاکھ روپے تک کماتے ہیں مگر گزشتہ سال لاک ڈاؤن کے سبب کام نہیں ہوپایا۔ اس بار امید ہے کہ کام میں بہتری آئیگی۔

بیلاکی کاشت کرنے والے ایک کسان نریندر کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں میں زیادہ تر لوگ بیلاکے پھولوں کی کاشت کرتے ہیں۔ گاؤں کے پھول،مندروں کے علاوہ،قنوج کے عطرکارخانوں میں بھی جاتے ہیں۔ انھیں پھولوں سے قنوج میں عطرکشید کی جاتی ہے۔ان کا کہنا ہے سال گزشتہ کورونا کے سبب پھولوں کی مانگ نہیں تھی مگر امید ہے کہ اس بار اچھا کام ہوگا۔ کچھ خلش کے کانٹے بھیسکندر پور (بلیا)گلاب وچمیلی کے پھولوں،عرق گلاب وچمیلی کے تیل کے لئے عالمی شہرت کا حامل رہاہے۔ یہاں کے پروڈکٹس دنیابھر میں جاتے رہے ہیں مگر حالیہ دنوں میں یہ گھریلوصنعت کمزورہوئی ہے۔ پوری زندگی عرق گلاب وکیوڑہ کا بزنس کرنے والے نعیم کا کہنا ہے کہ یوروپ کی بڑی صنعتوں کی زد میں بھارت کی جو صنعتیں آئی ہیں،انھیں میں ایک سکندر پور کی مشہور تیل، پھول،عرق گلاب کی صنعت بھی ہے۔ اس صنعت سے آج بھی ہزاروں افراد کی روزی روٹی وابستہ ہے۔ یوروپی پروڈکٹس نے اس صنعت کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ آج پھولوں اور تیل کی خوشبو کا دائرہ سکندرپور تک محدودہوتا جارہاہے۔ پھولوں کے باغات کاٹے جارہے ہیں اور اس کاروبار سے وابستہ افراددوسرے کاموں میں کی طرف جارہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ 20-25 سال پہلے تک،پورے ملک میں سکندرپور کی پھولوں کی صنعت پر بادشاہت تھی۔تب گلاب، یاسمین،اور بیلا کی بڑے پیمانے پر شجرکاری ہوتی تھی،اورپودوں پر بڑے بڑے پھول آتے تھے۔ ان باغات میں مختلف پھولوں کی خوشبو کی وجہ سے، نہ صرف سکندر پور بلکہ آس پاس کے دیہات بھی مہک اٹھتے تھے۔قصبے میں ایک درجن سے زیادہ جگہوں پرمنڈیاں لگتی تھیں جہاں کسان اپنے کھیتوں سے گلاب اور چمبیلی کے پھول لاتے تھے۔ وقت کاپہیہ الٹاگھوم گیااوریوروپی صنعتی انقلاب کے نتیجے میں بازاروں میں چلنے والی بڑی فیکٹریوں کے مصنوعی خوشبو دار تیل اور سینٹ چل پڑے۔جس کی وجہ سے یہاں کے تیار شدہ سامانوں کی فروخت میں کمی واقع ہوئی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ فیکٹریوں میں بننے والی اشیاء کا معیار سکندر پور میں پیدا ہونے والی اشیاکا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ہاں، فیکٹریوں میں تیار کردہ سامان کی قیمت یقینی طور پر سکندر پور میں پیدا ہونے والی اشیا سے کم ہے۔ آج سکندرپور کے لوگوں کو سرکاری تعاون کا انتظارہے تاکہ اس صنعت کو دوبارہ زندگی مل سکے۔

خواتین ہوئیں خودکفیل

ضلع گونڈہ کے وزیرگنج علاقے کی خواتین نے پھولوں کو ہاتھ کیا لگایا کہ گونڈہ کا علاقہ ہی گلزار ہواٹھاہے اور کسانوں کی زندگیوں میں بھی کامیابی کی خوشبو بکھرنے لگی ہے۔رنگ برنگے پھول ان کی حیات میں خوشیاں لا رہے ہیں۔ یہ پھول،متعدد شہروں میں بھیجے جارہے ہیں۔خاص طور پر لکھنؤ، کانپور اور قنوج کے پھول بازار گونڈہ کے پھولوں سے مہک رہے ہیں۔یہاں مردوں سے زیادہ خواتین کاشت کارکھیتوں میں نظر آتی ہیں جوپھولوں کی کھیتی کے سبب خودکفیل ہوگئی ہیں۔گیندے اور گلاب کی اعلیٰ قسم کی کاشت کر یہ خواتین زرعی شعبے میں ایک نیا مقام حاصل کر رہی ہیں۔دوسری طرف اس کا پرانا مرکز سکندرپور روبہ زوال ہے۔

پھولوں کی کھیتی

اترپردیش میں پھولوں کی کھیتی ہاتھرس، ایٹہ،علی گڑھ، قنوج، گونڈہ، فرخ آباد، کان پور، وارانسی، غازی پور، بلیا، بارہ بنکی میں ہوتی ہے۔جبکہ راجستھان میں ادے پور، چٹور گڑھ میں ہوتی ہے۔علاوہ ازیں جموں و کشمیر، ہماچل پردیش اور پنجاب سمیت ملک کی متعدد ریاستوں میں پھولوں کی کاشت ہوتی ہے۔پھولوں سے بنے تیل،عطر، گلاب پانی، گل قند،اگربتی وغیرہ کی بازار میں بہت زیادہ مانگ ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں گلاب کے اصلی عطر اور تیل کی قیمت 3 سے 5 لاکھ روپے فی کلوگرام ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔