مشہور افسانہ و ناول نگار شموئل احمد کا انتقال

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 25-12-2022
مشہور افسانہ و ناول نگار شموئل احمد کا انتقال
مشہور افسانہ و ناول نگار شموئل احمد کا انتقال

 

 

پٹنہ:  ساتویں دہائی کے مشہور افسانہ و ناول نگار شموئل احمد کا نوئیڈا میں بیٹی کی رہائش گاہ پر انتقال ہوگیا وہ ایک عرصے سے بیمار تھے اور لیور کینسر کی بیماری میں مبتلا تھے ان کی عمر تقریباً 77 برس تھی پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں ان کی تدفین نوئیڈا میں ہی کردی گئی۔

ذرائع کے مطابق اپنے انداز کے نرالے اور بے باک افسانہ نگار شموئل احمد نے آج صبح نوئیڈا میں آخری سانس لی۔ بڑا بیٹا پونا میں پروفیسر ہے جبکہ چھوٹا بیٹا پائلٹ ہے ۔ بیٹی نوئیڈا میں ہی اپنا این جی او چلاتی ہیں ۔

 شموئل احمد اردو فکشن کے لیجنڈ ہیں. انہوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں سے اردو ادب کے دامن میں بیش بہا اضافہ کیا. وہ ساری زندگی اپنی شرائط پر جیے کبھی کسی سے نہیں ڈرے. جو لکھنا چاہا جس پر لکھنا چاہا بلا خوف لکھا۔ ان کے آخری دنوں میں لکھے گئے-

کچھ افسانوں کے پلاٹ سے اختلاف کے باوجود اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شموئل احمد اردو فکشن کا درخشاں ستارہ تھا جس کے غروب ہونے سے اردو افسانے کا میدان سونا ہوگیا ہے۔ شموئل کو دنیا جہاں کے علوم سے واقفیت تھی اور انھوں نے افسانوں میں بھی اسے برتا ہے. علم نجوم پر تو خاصی دسترس رکھتے تھے۔

خواتین سے متعلق موضوعات پر لکھنے اور گفتگو کرنے میں انھیں مہارت حاصل تھی انسانی نفسیات اور اس کی پیچیدگیوں کو افسانوں میں بہت کامیابی سے پیش کیا ہے. جنس اور رومان بھی ان کا پسندیدہ موضوع رہا ہے.

سنگهاردان، القمبوس کی ،گردن آنگن کا پیٹ چھگمانس عنکبوت گهر واپسی اونٹ، مصری کی ڈلی، بگولے جیسے افسانوں کی بدولت وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے. ان کے ناول ندی گرداب مہاماری، اے دل اوارہ اور چمراسر وغیرہ نے انھیں بطور ناول نگار ایک مستحکم شناخت عطا کی. پاکستانی ادب اور بندی ادب پر بھی گہری نظر تھی۔

شموئل احمد 4 مئی 1945 کو بھاگلپور میں پیدا ہوئے تھے۔سول انجینیرنگ کی ڈگری حاصل کی اور حکومت بہار کے شعبہ پبلک ہیلتھ انجینیرنگ میں چیف انجینئیر کے عہدے سے ریٹایر ہوے. انہیں بہترین فکشن نگاری کے لیے عالمی فروغ اردو ادب دوحہ، قطر 2012کے انعام سے نوازہ گیا تھا.  شموئل پٹنہ کے پاٹلی پترا میں مقیم ہوگئے تھے۔

انہیں بچپن ہی سے ادبی ذوق رہا ہے چھٹی ساتویں جماعت ہی سے طبع آزمائی کرنے لگے لیکن باضابطہ اشاعت کا سلسلہ1970ء کے آس پاس شروع ہوا جو چار پانچ سال تک چلتا رہا اس کے بعد چار پانچ سال تک خاموشی رہی، اس کے بعد پھر لکھنا شروع کیا جو ہنوز جاری تھا۔

اب تک ان کی تیس کہانیاں شائع ہوچکی ہیں۔ ایک افسانوی مجموعہ بگولے،1988 ء میں شائع ہوا۔ وہ دو جنس کی نفسیات کو اپنی کہانیوں کا موضوع بناتے تھے- ساتھ ہی ساتھ استحصال اور جبروتشد دکی عکاسی کرتے ہیں کبھی کبھی ذات کی تلاش میں بھی گم ہوجاتے تھےوہ آج کے نظام ہی کو استحصال اور کرپشن کی وجہ بتاتے تھے چونکہ ان کا تعلق صحافت سے بھی رہا تھااس لئے زبان وبیان پر بہت حد تک گرفت مضبوط تھی-

دراصل،1980 کے بعد اردو افسانے نے پھر افسانوی رنگ اختیار کیا ہے اس سے وہ بہت خوش تھے حالانکہ وہ خود بھی کچھ کہانیوں میں تجربے کے شکار ہوئے ۔ اردو کے علاوہ ہندی میں بھی کہانیاں لکھتے تھے وہ وقت اور حالات سے سمجھوتہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے -

سنگھار دان جیسی کہانی کے خالق شموئل احمد اپنے منفرد اسلوب اور بے باک لہجے کے لئے جانے جاتے تھے۔ ان کے ہر افسانے میں ایک نیاتجربہ اور نئی حسسیت کار فرما نظر آتی ہے۔شموئل صرف جنس کی نفسیات پر ہی گہری نظر نہیں رکھتے بلکہ عصری اور سیاسی مسایل کو تمام پختگی سے پیش کرنے کا فن جانتے تھے-

.ان کا دلکش اسلوب فنی رویہ اور تخلیقی مزاج انہیں اپنے ہم عصروں سے الگ کرتا ہے. ' عنکبوت ' اونٹ ' ظہار ' اور سنگھار دان ' جیسی کہانیاں شموئل کے قلم سے ہی نکل سکتی تھیں.شموئل احمد کو علم نجوم سے گہرا شغف ہے. انہوں نے علم نجوم کی اصطلاحوں کا بہت تخلیقی اظہار 'مصری کی ڈلی ' چھگمانس ' اور القمبوئس کی گردن ' جیسی کہانیوں میں کیا ہے.

شمویل ہندی زبان میں بھی یکساں قدرت سے لکھتے ہیں۔ شموئل احمد کے افسانوں کا ترجمہ انگریزی کی علاوہ ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی ہو چکا ہے.

پنجابی میں ان کے نمائندہ افسانوں کا انخاب ' مرگ ترشنا ' شائع ہوا .شموئل ٹیلی اسکرپٹ بھی لکھتے ہیں. ان کی کہانی ' آنگن کا پیڑ ،  پیراہن آور مرگ ترشنا پر ٹیلی فلمیں بن چکی ہیں جس کی اسکرپٹ شمویل نے ہی لکھی

. ان کا ناول 'ندی ' پینگوئن اردو نے شایع کیا ہے.حال میں ہی اس ناول کا انگریزی ترجمہ River جرمنی سے شایع ہوا ہے.ان کی کہانی 'سنگاردان' کا انگریزی ترجمہ ہارپر کولنز کے ذریعہ شائع ہوا، اور ابھے کمار کے ذریعہ ترمیم شدہ بہاری ادب کی کتاب میں شامل ہے۔

جرمنی سے ہی انگریزی میں ان کے افسانوں کا مجموعہ '    عنوان سے شایع ہوا ہے-جس کی یوروپ میں بہت دھوم رہی.شموئل احمد کا دوسرا ناول ' مھاماری ' اردو کے اھم سیاسی ناولوں میں شمار ہوتا ہے. شمویل صف اول کے مترجم بھی ہیں. ساہتیہ اکاڈمی کے اصرار پر گجراتی ناول کنواں کا ہندی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے.انکے افسانوی مجموعے؛میں۔ 1. بگولے 2سنگھار دان، 3 القمبوس کی گردن. 4 عنکبوت ناول؛مھاماری۔5. ندی شامل ہی