مولانا سید جلال الدین عمری کی تدفین، جنازے میں ہزاروں سوگواروں کی شرکت

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 27-08-2022
 مولانا سید جلال الدین عمری کی تدفین، جنازے میں ہزاروں  سوگواروں کی شرکت
مولانا سید جلال الدین عمری کی تدفین، جنازے میں ہزاروں سوگواروں کی شرکت

 




آواز دی وائس :نئی دلی

متاز عالم دین اور جماعت اسلامی ہند کے سابق امیرمولانا سید جلال الدین عمری کا جمعہ کی شب پونے نو بجے  انتقال ہوا اور ہفتہ کی صبح  شاہین باغ قبرستان میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کردیا گیا_۔ وہ 88 برس کے تھے۔ وہ ایک طویل عرصے سے علیل تھے تھے ان کے انتقال کی خبر  نے پورے ہندوستان کا ماحول غمگین  بنا دیا ہے۔ نماز جنازہ  صبح دس بجے جامعہ ملیہ میں واقع ہے ابوالفضل انکلیو میں جماعت اسلامی ہند کے مرکزی دفتر کی مسجد میں ادا کی گئی_

یاد رہے کہ گزشتہ برس انہیں کورونا ہوگیا تھا _ اس وقت سے کم زوری تھی ، لیکن وہ معمول کی سرگرمیاں انجام دینے لگے تھے _ ایک ہفتہ قبل نقاہت بڑھ گئی تب الشفا ہاسپٹل میں داخل کیا گیا ، جہاں انھوں نے آخری سانس لی_

awaz

شاہین باغ کا قبرستان میں تدفین کا منظر

نماز جنازہ میں میں راجدھانی کی ممتاز دینی و ملی سیاسی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی _ شاہین باغ  قبرستان میں ہزاروں سوگواروں کے درمیان  مولانا عمری کو سپرد خاک کیا گیانماز جنازہ کی ادائیگی اور خراج عقیدت پیش کرنے والوں میں جماعت کے قائدین عہدیداروں اور کارکنوں کے علاوہ جمعیت علمائے ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی،جمعیت کے میڈیا سکریٹری نیاز فاروقی ایڈوکیٹ،مرکزی جمیعت اہلحدیث ہند کے صدر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی،صدرمشاورت نویدحامد،پروفیسر اخترالواسع،ڈبلیوپی آئ کے صدر قاسم رسول الیاس،مسلم پولیٹکل کونسل آف انڈیا کے صدر تسلیم رحمانی،مسلم مجلس کے صدر پروفیسر بصیراحمدخاں ،جمعیت علمائے ہند دہلی پردیش کے صدر مولانا محمد مسلم،جنرل سکریٹری مفتی رازق،قاری محمد ساجد،مجلس العلماء کے صدر مفتی سہیل قاسمی کے ساتھ سابق ممبر پارلیمنٹ محمد افضل , ممتاز اسلامی اسکالر پروفیسر اختر الواسع، ممتاز صحافی معصوم مرادآبادی اور متعدد دیگر اہم شخصیات موجود تھیں

مولانا عمری کا شمار عالم اسلام کے اب چند ممتاز علماء میں ہوتا تھا جنھوں نے مختلف پہلوؤں سے اسلام کی نمایاں خدمات انجام دی ہیں اور اسلام کی تفہیم و تشریح کے لیے قابل قدر لٹریچر تیار کیا ہے ۔

 جلال الدین عمری تحریک اسلامی کے ایک زبردست رہنما، معروف مصنف اور مشہور مقرر تھے۔ علمی موضوعات پر ان کی مشہور کتابیں ہندوستان کی تقریباً تمام بڑی زبانوں میں شائع ہوئی ہیں اور مقبول ہوئیں۔ ان کی کتابوں کا انگریزی، عربی اور ترکی زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔

 مولانا عمری ہندوستانی مسلمانوں کی  سب سے بڑی تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر، مسلم مجلس مشاورت کے بانی رکن اور مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔

مولانا نے کئی بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ وہ ادارہ التحقیق و تسنیف اسلامی کے چیئرمین اور اسلامی تحقیقی جریدے تحقیق اسلامی کے ایڈیٹر تھے۔

یاد رہے کہ 2021 میں ان کی اہلیہ کا کورونا میں انتقال ہوا تھا-

   مولانا نے جنوبی ہند کی معروف دینی درس گاہ ’جامعہ دارالسلام عمرآباد‘ سے 1954 ء میں سندِ فضیلت حاصل کی ، مدراس یونی ورسٹی سے فارسی میں منشی فاضل اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے  بی ، اے (اونلی انگلش) کے امتحانات پاس کیے ۔ جامعہ عمر آباد سے فراغت کے فوراً بعد آپ مرکز جماعت اسلامی ہند رام پور آگئے  تھے  

انہوں  نے وہاں کے اصحابِِ علم سے آزادانہ استفادہ کیا ، پھر 1956ء میں جماعت کے شعبۂ تصنیف سے وابستہ ہوگئے ۔ یہ شعبہ 1970 میں رام پورسے علی گڑھ منتقل ہوگیا اور ایک دہائی کے بعد اسے ’ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی‘ کے نام سے ایک آزاد سوسائٹی کی شکل دے دی گئی ۔

مولانا اس کے آغاز سے 2001ء تک اس کے سکریٹری ،  اس کے بعد اب تک اس کے صدر تھے ۔ آپ ادارہ کے باوقار ترجمان سہ ماہی مجلہ’تحقیقات اسلامی‘ کے بانی مدیر بھی رہے ہیں ۔

یہ مجلہ اپنی زندگی کے 40/سال پورے کرچکاہے ۔ اسی دوران میں آپ نے پانچ سال (1986 تا 1990) جماعت اسلامی ہند کے ترجمان ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی کی ادارت کے فراض بھی انجام دیے ۔

 ملک کی متنوع دینی ، ملی ، دعوتی اور تحریکی سرگرمیوں میں مولانا عمری کی سرگرم شرکت رہی ہے ۔ آپ ایک طویل عرصے تک جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان اور مجلس شوریٰ کے معزز رکن رہے ۔ 1990 سے مارچ 2007 تک جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر تھے ۔

اس کے بعد مارچ 2019 تک اس کی امارت کی ذمہ داری نبھائی ۔ موجودہ میقات میں وہ جماعت کی شریعہ کونسل کے چیرمین تھے ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے شخصی قوانین کی حفاظت ومدافعت میں سرگرم آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے نائب صدر ، شمالی ہند کی مشہور دینی درس گاہ جامعۃ الفلاح بلریاگنج اعظم گڑھ کے شیخ الجامعہ اور سراج العلوم نسواں کالج علی گڑھ کے سرپرست اعلیٰ تھے  _ بعض دوسرے علمی اداروں سے بھی آپ کا تعلق تھا ۔

        مولانا عمری کو دورِ طالب علمی سے ہی سے مضمون نویسی سے دل چسپی تھی ۔ ان کا مزاج تحقیقی تھا ۔مختلف موضوعات پر آپ کی تقریباً چار درجن تصانیف ہیں ۔ ان میں تجلیات قرآن ، اوراقِ سیرت ، معروف و منکر ، غیرمسلموں سے تعلقات اوران کے حقوق ، خدا اور رسول کا تصور اسلامی تعلیمات میں ، احکامِ ہجرت و جہاد ، انسان اوراس کے مسائل ، صحت و مرض اور اسلامی تعلیمات ، اسلام اور مشکلاتِ حیات ، اسلام کی دعوت ، اسلام کا شورائی نظام ، اسلام میں خدمتِ خلق کا تصور ، انفاق فی سبیبل اللہ ،  اسلام انسانی حقوق کا پاسباں ، کم زور اور مظلوم اسلام کے سایے میں ، غیراسلامی ریاست اور مسلمان ، تحقیقاتِ اسلامی کے فقہی مباحث جیسی علمی تصانیف آپ کی تراوشِ قلم کا نتیجہ ہیں ۔ اسلام کا معاشرتی نظام مولانا کی دلچسپی کا خاص موضوع رہا ہے ۔

عورت اسلامی معاشرے میں ، مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ ، عورت اوراسلام ، مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں اور اسلام کا عائلی نظام جیسی تصانیف اس کا بہترین ثبوت پیش کرتی ہیں ۔

ان کی کئی کتابیں زیرِ ترتیب تھیں ۔ ان کے علاوہ مختلف علمی اور فکری موضوعات پر آپ کے بہ کثرت مقالات ملک اوربیرون ملک کے رسائل اور مجلات میں شائع ہوچکے ہیں ۔

         مولانا کی متعدد تصانیف کے تراجم عربی ، انگریزی ، ترکی ، ہندی، ملیالم ، کنڑ ، تیلگو ، مراٹھی ، گجراتی ، بنگلہ اور تمل وغیرہ میں شائع ہو چکے ہیں ۔ موضوعات کا تنوع ، استدلال کی قوت ، عقلی اپیل ، فقہی توسع ، زبان وبیان کی شگفتگی اوراعلیٰ تحقیقی معیارآپ کی تحریروں کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔

امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی سمیت ملک کی سرکردہ شخصیات نے مولانا کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے